عبد اللہ نام ، ابوسلمہ کنیت ، والد کا نام عبدالاسد اور والدہ کا نام برہ بنت عبدالمطلب تھا۔ پورا سلسلۂ نسب یہ ہے:
عبد اللہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم قرشی المخزومی۔
[2][3]
حضرت ابوسلمہؓ سر زمینِ حبش کی دونوں ہجرتوں میں شریک تھے ، ان کی بیوی حضرت ام سلمہ ؓ بھی رفیقِ سفر تھیں، پھر حبش سے واپس آکر عازم مدینہ ہوئے، بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے۔ جو واردِ یثرب ہوئے، لیکن دوسری روایت میں اولیت کا سہرا حضرات مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے سر اندھا گیا ہے ، علامہ ابن حجر ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
" (حضرت) ابوسلمہؓ جب حبش سے مکہ واپس آئے تو مشرکین مکہ نے پھر ان کو ہدفِ اذیت بنایا ، اس بنا پر ان کا مدینہ آنا مشرکین مکہ کے خوف سے تھا ، مستقل ہجرت کا ارادہ نہ تھا ، برخلاف اس کے حضرت مصعب بن عمیرؓ اس وقت پہنچے جب کہ مستقل ہجرت کا حکم ہو چکا تھا اس لیے ان دونوں روایتوں میں باہم تخالف نہیں ہے۔"
[5]
بہرحال حضرت ابو سلمہؓ سب سے پہلے مدینہ پہنچے ، یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی، خاندان عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کامل دوماہ یعنی آنحضرتﷺ کی تشریف آوری تک اپنا مہمان رکھا۔
[6][7][8]
غزوۂ بدر و غزوہ احد میں سرگرمِ پیکار تھے، معرکہ اُحد میں ابو اسامہ جُشمی کے ایک تیر نے ان کا بازو زخمی کر دیا جو کامل ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد بظاہر مند مل ہو گیا ، لیکن غیر محسوس طریقہ پر اندر ہی اندر زہر پھیلاتا رہا، [10] اسی اثناء میں وہ سریۂ قطن پر مامور ہوئے جس کی تفصیل یہ ہے:
سریۂ قطن
قید کے اطراف میں قطن ایک پہاڑ کا نام ہے۔ جس کا دامن بنو اسد بن خزیمہ کا مسکن تھا ، آنحضرتﷺ کو خبر ملی کہ طلیحہ اور اسد بن خویلد یہاں اپنی قوم اور دوسرے زیر اثر قبائل کو جنگ کے لیے اُبھار رہے ہیں ، اس بنا پر اوائل محرم4ھ میں حضرت ابو سلمہ ؓ کے زیرِ سیادت تقریباً دیڑھ سو مجاہدین کی ایک جماعت جس میں مہاجرین و انصار دونوں شریک تھے، قبل از وقت اس فتنہ انگیز تحریک کو دبانے پر مامور ہوئی ، آنحضرتﷺ نے حضرت ابوسلمہؓ کو علم دے کر فرمایا:
"روانہ ہوجاؤ یہاں تک کہ بنو اسد کی سر زمین میں پہنچ کر ان کی جمعیت کے فراہم ہونے سے پہلے ان کا شیرازہ منتشر کر دو۔"
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غیر معروف راستہ سے یلغار کرتے ہوئے یکا یک بنو اسد پر جاپڑے ، وہ اس ناگہانی حملہ سے بدحواس ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی جماعت کو تین دستوں پر منقسم کرکے ان کے تعاقب پر مامور فرمایا ، چنانچہ وہ دشمن کو دور تک بھگا کر نہایت کثرت کے ساتھ اونٹ اور بھیڑ بکریاں چھین لائے جن کو حضرت ابو سلمہؓ نے مدینہ پہنچ کر بطور مال غنیمت دربارِ نبوت میں پیش کیا۔
[11][12]
ابو سلمہ آخری دفعہ غزوہ احد میں شریک ہوئے جس میں آپ شدید زخمی ہوئے۔ جب قبیلہ بنو اسد نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ کی سر براہی میں بنو اسد پر چڑھائی کے لیے لشکر روانہ کیا۔ مدینہ واپسی پر ابو سلمہ کا ایک زخم جو انھیں احد میں لگا تھا، پھر پھوٹ پڑا جس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پا گئے۔ ابو سلمہ کی اس آخری مہم کو سریہ ابو سلمہ مخزومی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
وفات
حضرت ابوسلمہؓ اس مہم سے واپس آئے تو زخم پھر عود کر آیا اور ایک عرصہ تک بیمار رہ کر 3 جمادی الآخر4ھ میں واصلِ بحق ہوئے، اتفاق سے آنحضرتﷺ عین حالتِ نزع میں عیادت کے لیے تشریف لائے تھے، روح دیدارِ جمال کی منتظر تھی اِدھر آنحضرتصل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اُدھر روح نے جسم کا ساتھ چھوڑا ، آنحضرتﷺ نے دستِ مبارک سے ان کی دونوں آنکھیں بند کرکے فرمایا:
"انسان کی روح جس وقت اٹھائی جاتی ہے تو اس کی آنکھیں اس کے دیکھنے کے لیے کھلی رہ جاتی ہیں۔
[14]
ایک طرف پردہ کے پیچھے گھر کی عورتیں مصروفِ ماتم تھیں، آنحضرتﷺ نے ان کو اس سے روک کر فرمایا کہ یہ دعائے خیر کا وقت ہے کیونکہ ملائکہ آسمانی جومیت کے پاس موجود ہوتے ہیں وہ دعا گو یوں کی دعا پر آمین کہتے ہیں، پھر خود اس طرح دست بدعاء ہوئے:
"خدایا ! اس کی قبر کو کشادہ و روشن کر ، اس کو پر نور بنا، اس کے گناہوں کو بخش دے اور ہدایت یاب جماعت میں اس کا درجہ بلند فرما"۔
[15][3][7][8][12][16]
تجہیز و تکفین
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ کے قریب مقام عالیہ میں وفات پائی ؛کیونکہ وہ قباء سے منتقل ہوئے تو یہیں آکر سکونت پزیر ہوئے تھے، بنی امیہ بن زید کے کنوئیں یسیرہ (ایام جاہلیت میں یہ کنواں بیر عبیر کے نام سے مشہور تھا، آنحضرتﷺ نے اس کو بدل کر بیر یسیرہ نام رکھا، [17]کے پانی سے غسل دیا اور مدینہ کی خاک پاک نے اپنے دامن میں چھپایا۔
[18]
فضائل و محاسن
حضرت ابو سلمہ ؓ کا پایہ فضل وکمال نہایت بلند ہے، وہ بیمار ہوئے تو آنحضرتﷺ اکثر ان کی عیادت فرمایا کرتے تھے۔
[19]
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز ابو سلمہؓ دربارِ نبوت سے خوش خوش گھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ آج مجھے رسولِ خداﷺ کے ایک ارشاد نے بے حد محظوظ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو مصیبت زدہ مسلمان اپنی مصیبت میں خدا کی طرف رجوع کرکے کہتا ہے: "اے خدا ! اس مصیبت میں میری مدد کر اور بہتر نعم البدل عطا فرما" تو خدا اس کی دعا قبول فرماتا ہے، چنانچہ ابو سلمہؓ کی وفات نے جب مجھے صدمہ پہنچایا تو میں نے خدا کی طرف رجوع کرکے کہا اے خدا! میری مدد کر اور تلافی بالخیر فرما ؛لیکن پھر یہ خیال گذرا کہ میرے لیے ابو سلمہؓ کا نعم البدل کون ہو سکتا ہے؟ عدت گذرنے کے بعد جب خود رسول اللہﷺ نے نکاح کا پیام بھیجا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا نے تلافی بالخیر کی صورت پیدا کر دی۔
[20][21] ،[22]
اولاد
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو لڑکے سلمہ و عمر اور دو لڑکیاں زینب اور درہ یادگار چھوڑیں ان کی تمام اولاد حضرت ام سلمہؓ ہند بنت ابی امیہ سے ہوئی تھی جو ان کے بعد امہات المومنینؓ میں داخل کی گئیں۔
[23][3][24]