عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (34ق.ھ / 60ھ) میں پیدا ہوئے۔ حضرت عقیل ابن ابی طالب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور چچا زاد بھائی تھے اور حضرت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بڑے بھائی تھے۔ عقیل ابو طالب کے چار بیٹوں میں سے دوسرے بیٹے ہیں۔ عقیل کی کنیت ابو یزید ہے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ غزوہ موتہ میں شرکت فرمائی جس کے بعد نابینا ہو گئے۔ 96 سال کی عمر پائی۔ آپ کے کئی بیٹے تھے، جن میں سے حضرت مسلم ابن عقیل سفیرِ حسین کے نام سے مشہور ہوئے جنہیں واقعہ کربلا سے کچھ عرصہ قبل یزید کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے کوفہ میں بے دردی سے شہید کر دیا۔ آپ نے 96 سال کی عمر میں شہادت پائی۔
[1][2][3]
نام و نسب
عقیل نام ،ابویزید کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے، عقیل بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف القرشی الہاشمی، ماں کا نام فاطمہ تھا، آپ حضرت علیؓ کے سگے بھائی اور عمر میں ان سے بیس سال بڑے تھے۔[1][4]
بدر میں گرفتاری
عقیل کا دل ابتدا سے اسلام کی طرف مائل تھا؟ ؛لیکن مشرکین مکہ کے خوف سے علی الاعلان اسلام نہیں قبول کرسکتے تھے؛چنانچہ غزوہ بدر میں بادل ناخواستہ مشرکین کے ساتھ شریک ہوئے اور جب ان کو شکست ہوئی تو دوسرے مشرکین کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے، آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ دیکھو میرے گھرانے والوں میں کون کون لوگ گرفتار ہوئے،آپ نے تحقیقات کرکے عرض کیا کہ نوفل، عباس اور عقیل گرفتار ہوئے ہیں یہ سن کر آنحضرتﷺ خود بہ نفس نفیس تشریف لائے اور عقیل کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا کہ ابو جہل قتل ہو گیا، عقیل بولے اب تہامہ میں مسلمانوں کا کوئی مزاحم باقی نہیں رہا، عقیل کے ہاتھ مال ودولت سے خالی تھے، اس لیے حضرت عباسؓ نے اپنی جیب سے ان کا فدیہ دے کر ان کو آزاد کرایا۔[5][6] .[7][1][8]
اسلام و ہجرت اور غزوات
آزاد ہونے کے بعد مکہ واپس گئے اور 8ھ میں باقاعدہ اسلام لاکر ہجرت کا شرف حاصل کیا اور غزوۂ موتہ میں شریک ہوکر پھر مکہ واپس گئے، وہاں جاکر بیمار پڑ گئے،اس لیے فتح مکہ، طائف اور حنین میں شرکت سے معذور رہے، [9] ؛لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ حنین میں شریک ہوئے؛بلکہ جب مسلمانوں کو ابتدا میں شکست ہوئی اور مہاجرین وانصار کے پاؤں اکھڑ گئے تو اس وقت بھی یہ ثابت قدم رہے۔[10][11]
عہد مرتضوی
خلفائے ثلثہ کے زمانہ میں کہیں پتہ نہیں چلتا، حنین کے بعد امیر معاویہؓ اور جناب امیرؓ علی کے اختلافات کے زمانہ میں نظر آتے ہیں ۔، یہ گو حضرت علیؓ کے بھائی تھے ؛لیکن اپنی ضروریات کی بنا پر حضرت امیر معاویہؓ سے تعلقات رکھتے تھے اور مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ عقیل مفلس ، مقروض اور روپیہ کے حاجت مند تھے اور جناب امیرؓ کے یہاں یہ شے عنقا تھی اور امیر معاویہؓ کا خزانہ ہر شخص کے لیے کھلا ہوا تھا، اس لیے افلاس و ناداری نے امیر معاویہؓ کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا تھا، امیر معاویہؓ کے پاس جانے سے پہلے ایک مرتبہ قرض کی ادائیگی کی فکر میں حضرت علیؓ کے پاس بھی گئے تھے، انھوں نے بڑی پزیرائی کی،حسنؓ کو حکم دیا، انھوں نے لاکر کپڑے بدلائے، شام کو دستر خوان بچھا تو صرف روٹی، نمک اورترکاری آئی، عقیلؓ نے کہا بس یہی سامان ہے ،حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں، عقیل نے مطلب بیان کیا کہ میرا قرض ادا کردو، حضرت علی ؓ نے پوچھا کس قدر ہے، کہا 40 ہزار آپ نے جواب دیا، میرے پاس اتنا روپیہ کہاں، تھوڑا صبر کیجئے جب چار ہزار میرا وظیفہ ملے گا تو آپ کو دے دوں گا، عقیل نے کہا تم کو کیا دشواری ہے بیت المال تمھارے ہاتھ میں ہے، مجھ کو وظیفہ کے انتظار میں کب تک رکھو گے، حضرت علیؓ نے فرمایا میں مسلمانوں کا امین ہوں، آپ چاہتے ہیں کہ خیانت کرکے ان کا مال آپ کے حوالہ کردوں یہ جواب سن کر عقیل چلے گئے اور امیر معاویہؓ کے پاس پہنچے، معاویہؓ نے پوچھا تم نے علیؓ اوران کے ساتھیوں کو کیسا پایا، جواب دیا، وہ لوگ رسول کے صحیح صحابی ہیں،بس صرف اس قدر کمی ہے کہ آنحضرتﷺ ان میں نہیں ہیں اور تم اور تمھارے ساتھی ٹھیک ابو سفیان کے حواریوں کی طرح ہو، مگر اس موازنہ کے بعد بھی دوسرے دن امیر معاویہؓ نے دربار میں انھیں بلوا کر پچاس ہزار درہم دلوائے۔[12]
حضرت عقیل کے شام جانے کے بعد امیر معاویہؓ لوگوں کے سامنے ان کو مثال میں پیش کرکے ان کو اپنی حمایت پر آمادہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں حق پر نہ ہوتا تو علیؓ کے بھائی ان کو چھوڑ کر میرا ساتھ کیوں دیتے،ایک مرتبہ لوگوں کے سامنے یہی دلیل پیش کر رہے تھے، عقیل بھی موجود تھے، انھوں نے جواب دیا کہ میرا بھائی دین کے لیے بہتر ہے اور تم دنیا کے لیے، یہ دوسری بات ہے کہ میں نے دنیا کو دین پر ترجیح دی ،رہا آخرت کا معاملہ تو اس کے لیے اللہ سے حسن خاتمہ کی دعا کرتا ہوں۔[13][14] .[15]
وفات
جناب عقیل رضی اللہ تعالی عنہ نے امیر معاویہؓ کے اخیر عہد یا یزید کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی۔ بڑھاپے میں آپ نابینا ہو گئے تھے۔ آپ کی وفات 96 برس کی عمر میں معاویہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی۔[16][17]
اہل و عیال
حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، ان بیویوں اور اولادوں کے نام یہ ہیں۔[18]
بیویاں
عقیل کی تین بیویاں تھیں۔
ام سعید
خلیلہ
ام بنین
یزید یا زید،
سعید
علی،
محمد،
رملہ
جعفر،اکبر،
ابوسعیداحول ان بیویوں سے پیدا ہوئے۔
اور عقیل کی کئی دیگر ام ولد کنیزیں تھیں۔
مسلم،عبد اللہ،عبد الرحمن اور عبد اللہ الاصغر کی والدہ علیہ نامی کنیز تھیں۔
ان کے علاوہ جعفر ،اصغر، حمزہ، عثمان، ام ہانی، اسماء، فاطمہ، ام قاسم، زینب اور ام نعمان وغیرہ، مختلف لونڈیوں کے بطن سے تھیں۔
[19] .[6][20] ،[21]
اولادیں
حضرت عقیل کے اکیس بیٹے اور دس بیٹیاں تھیں۔
یزید: ان کی والدہ ام سعید رابطہ بنت عمرو تھیں اور یہ بچپن میں وفات پا گئے تھے۔
سعید: ان کی والدہ بھی ام سعید رابطہ بنت عمرو ہیں۔
جعفر اکبر: ان کی والدہ ام البنین بنت الثغر تھیں اور انھوں نے ام الحسن بنت علی بن ابی طالب سے شادی کی اور یہ 61 ھ میں واقعہ طف میں امام حسين کے ساتھ شہید ہو ئے تھے۔[22]
ابو سعید احول: ان کی والدہ بھی ام البنین بنت الثغر تھیں، انھوں نے فاطمہ بنت علی بن ابی طالب سے شادی کی اور ان سے حمیدہ پیدا ہوئیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فاطمہ سے ایک بیٹے محمد بھی پیدا ہوئے۔[23] زیادہ تر منابع میں یہ ملتا ہے کہ محمد کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں۔[24] سنہ 61 ہجری میں واقعہ طف میں امام حسين کے ساتھ شہید ہوئے۔[25]
مسلم ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں جن کا نام علیہ ہے۔ قیام امام حسین کے دوران کوفہ میں شہید ہوئے۔
عبد اللہ اکبر: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ، ان کا نام علیہ ہے، وہ کربلا میں شہید ہوئے۔[26]
عبد اللہ اوسط: یہ امام سجاد کے اصحاب میں سے تھے۔[27]
عبد اللہ اصغر: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں جن کا نام علیہ ہے۔
عبد الرحمن: وہ جو واقعہ کربلاامام حسین کے ساتھ شہید ہوئے اور ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں جن کا نام علیہ تھا۔
احمد: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں۔[28] ، محسن امین عاملی اکلوتے مورخ ہیں جنھوں نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں کیا ہے اور اسے اپنے بعض ہم عصروں سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: کچھ معاصرین نے ان کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔[29]محمد صادق کرباسی نے ذکر کیا ہے کہ ان کی ولادت 44 ہجری سے پہلے ہوئی تھی۔[28][30]
معین: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔[32][33]
الحکم: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ۔[34]ربعی نے اپنی کتاب تاریخ پیدائش و وفات علماء میں ذکر کیا ہے کہ وہ کربلا میں شہید ہوئے تھے،[35] اور محمد صادق الکرباسی نے کہا: "ربعی نے اپنی کتاب میں ان کے بیٹے عبد اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ اپنے والد کے ساتھ واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں، جن کا نام مورخین نے ذکر نہیں کیا اور یہ مسلم ہے جب ان کا بیٹا عبد اللہ کربلا میں مارا گیاتو اس کی عمر کم از کم بیس سال سے زیادہ ہو گی۔[34]
عقیل: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ،[36][37]زرندی نے ان کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ واقعہ کربلا میں شہید ہوئے، انھوں نے مزید لکھاکہ: اور عقیل کی اولاد میں سے پانچ شہدائے كربلا میں سے ہیں: مسلم، عقیل، جعفر، عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اور ان کا بھائی۔ محمد بن مسلم۔ مدائنی نے ذکر کیا ہے کہ وہ امام حسین کے ساتھ عبد الرحمان بن عقیل اور عون بن عقیل 61 ھ میں واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔[38]علی نمازی شاہرودی نے کہا: ان کے بیٹے عقیل بن عقیل کا شمار بھی شہداء کربلا میں ہوتا ہے۔[39]
ام القاسم: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ۔[42]
ام النعمان: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ۔[42]
ام عبد اللہ: ان کی والدہ ایک ام الولد کنیز تھیں ۔[41]
عقیلہ: ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حسین بن علی کا مرثیہ پڑھتی تھیں اور ان کی شہادت اور ان پر ہونے والے مظالم کو یاد کرتی تھیں۔[43][44][45][46]
عقیل کی نسل صرف ان کے ایک بیٹے سے چلی جو محمد تھے جن کی زوجہ ام کلثوم بنت علی تھیں اور راوی حدیث عبد اللہ بن محمد بن عقیل کے ذریعے آگے چلی۔[47][48]
ذریعہ ٔمعاش
آنحضرتﷺ نے خیبر کی پیداوار سے ڈیڑھ سو وسق سالانہ جناب عقیل کے لیے مقرر فرمایا تھا۔
[4]،[49][50]
استعداد علمی
حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے بعد پھر مکہ لوٹ گئے تھے اور عرصہ تک وہاں مقیم رہے ،اس لیے صحبت نبوی ﷺ سے فیضیاب ہونے کا بہت کم موقع ملا، اسی لیے رسول کے عزیز ہونے کی حیثیت سے علم میں ان کا جو پایہ ہونا چاہیے تھا، وہ نہ پیدا ہو سکا، تاہم حدیث کی کتابوں میں ان کی دو چار روایتیں موجود ہیں، محمد، حسن بصری اور عطا آپ کے زمرۂ تلامذہ میں ہیں۔[51]
مذہبی علوم کے علاوہ علوم جاہلی میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ علم الانساب کے جو عربوں کا خاص علم تھا، بڑے ماہر تھے، ایام عرب کی داستانیں بھی ان کو ازبر تھیں اور ان علوم میں لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے، چنانچہ مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کے بعد یہ بیٹھتے تھے اور لوگ ان سے مستفید ہوتے تھے۔[52]
بہت حاضر جواب تھے۔ کئی بار امیر معاویہ کو دندان شکن جواب دیے۔
[1][53] .[54]
آنحضرت ﷺ کی محبت
آنحضرتﷺ ان سے بہت محبت کرتے تھے،فرمایا کرتے تھے کہ ابوزید مجھ کو تمھارے ساتھ دوہری محبت ہے ایک قرابت کے سبب سے دوسری اس وجہ سے کہ میرے چچا تم کو محبوب رکھتے تھے۔[55][56]
پابندی سنت
عقیل شادی و مسرت کے موقعوں پر بھی جبکہ لوگ عموماً کچھ نہ کچھ بے اعتدالی کرجاتے ہیں، مسنون طریقوں کا لحاظ رکھتے تھے،ایک مرتبہ نئی شادی کی،صبح کو احباب مبارک باد دینے آئے اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان الفاظ میں تہنیت پیش کی کہ "بالرفاء والبنین" اگرچہ ان الفاظ میں کوئی خاص قباحت نہیں تھی؛لیکن چونکہ مسنون طریقہ تہنیت موجود تھا، اس لیے کہا کہ یہ نہ کہو ؛بلکہ "بارک اللہ لکم وبارک اللہ علیکم " کہو کہ ہم کو اسی کا حکم ملا ہے۔[57][58][58][59]
حضرت عقیل بن ابو طالب کی میراث
حضرت عقیل کے نزول بہت سارے ہیں اور یہ یمن ، عمان اور صومالیہ کے کچھ حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
حضرت امام سعد بن عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو آپ کی اولاد ہیں ، کا مزار عراق کے علاقے تال عفر میں واقع ہے۔
↑الشيخ علي النمازي الشاهرودي۔ مستدركات علم رجال الحديث۔ المكتبة الشيعية (بزبان العربية)۔ جـ5 (الأولى: محرم الحرام 1415 ایڈیشن)۔ صفحہ: 254۔ 30 أكتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہالوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |لغة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |المجلد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تاريخ أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عمل= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف1= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |طبعة= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت) صيانة CS1: لغة غير مدعومة (link)
↑الشيخ محمد السماوي۔ أبصار العين في أنصار الحسين (ع)۔ المكتبة الشيعية (بزبان العربية) (الأولى رمضان المبارك 1419 - 1377 ش ایڈیشن)۔ صفحہ: 91۔ 13 فبراير 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہالوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |لغة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تحقيق= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تاريخ أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |محقق= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عمل= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف1= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |طبعة= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت) صيانة CS1: لغة غير مدعومة (link)
↑السيد محسن الأمين۔ أعيان الشيعة۔ المكتبة الشيعة (بزبان العربية)۔ جـ3۔ صفحہ: 219۔ 1 مايو 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہالوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |لغة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |المجلد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |المحقق= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تاريخ أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عمل= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف1= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت) صيانة CS1: لغة غير مدعومة (link)
↑ابن الأثير الجزري (1994)۔ أسد الغابة في معرفة الصحابة۔ 4 (الأولى ایڈیشن)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 62–61۔ 18 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہالوسيط |مسار أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تاريخ أرشيف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |المجلد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |تاريخ= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مسار= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف-وصلة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف1= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحات= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |طبعة= تم تجاهله (معاونت)