ثوبان بن بجددرسول اللہﷺ کی خدمت پر مامور صحابی تھے۔پوری زندگی نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ شام چلے گئے۔پھر باقی زندگی حمص میں رہے سن 54ھ میں وفات پائی ۔
نام و نسب
ثوبان نام،ابو عبد اللہ کنیت، خاندانی تعلق یمن کے مشہور حمیری خاندان سے تھا، ان کے والد بجدد یا جحدر تھے ابتدا میں غلام تھے ، آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے نے خرید کر آزاد کر دیا اور فرمایا دل چاہے اپنے خاندان والوں کے پاس چلے جاؤ اور دل چاہے میرے ساتھ رہو، میرے ساتھ رہوگے تو اہل بیت میں شمار ہوگا، انھوں نے خدمت نبوی ﷺ کی حاضری کو اہل خاندان پر ترجیح دی اور زندگی بھر خلوت و جلوت میں آپ کے ساتھ رہے۔
[1][2]
شام میں قیام
رسول اللہﷺ کی وفات کے کچھ دنوں بعد تک مدینہ ہی میں رہے؛لیکن آقا کے سانحہ رحلت نے گلشن مدینہ کو خار بنادیا، اس لیے یہاں کا قیام چھوڑ کر رملہ شام میں اقامت اختیار کرلی اور مصر کی فتوحات میں شریک ہوتے رہے،پھر رملہ سے منتقل ہوکر حمص میں گھر بنالیا اور یہیں 54ھ میں وفات پائی۔ کتب احادیث میں 127 احادیث آپ سے مروی ہیں۔[3][4][5]
اخلاق و عادات
ثوبان رضی اللہ عنہ کو احترام نبوی میں اتنا غلو تھا کہ غیر مسلموں سے بھی کوئی لفظ ایسا نہیں سن سکتے تھے جس سے ذرا بھی نبوت کے احترام کو صدمہ پہنچتا ہو، ایک مرتبہ ایک یہودی عالم نے آکر السلام علیک یا محمدﷺ ! کہا ثوبان بگڑ گئے اور اس زور سے اس کو دھکا دیا کہ وہ گرتے گرتے بچا، اس نے سنبھل کر اس برہمی کا سبب پوچھا، بولے تونے یا رسول اللہ!کیوں نہ کہا وہ بولا، اس میں کیا گناہ تھا کہ میں نے ان کا خاندانی نام لیا، آنحضرت نے فرمایا ہاں میرا خاندانی نام محمدﷺ ہے۔[6]نبوت کا احترام تو بڑی چیز ہے، ثوبانؓ آپ کے ساتھ اپنی غلامی کی نسبت کا بھی احترام کرتے تھے، اگر کوئی شخص اس میں ذرا کمی کرتا تو متنبہ کرتے تھے، حمص کے قیام کے زمانہ میں بیمار ہوئے،یہاں کا والی عبد اللہ بن قرط ازدی عیادت کرنے نہیں آیا، آپ نے اس کو ایک رقعہ لکھوایا کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ کا غلام تمھارے یہاں ہوتا، تو تم اس کی عیادت کرتے ،والی کو یہ رقعہ ملا تو اس بد حواسی کے ساتھ گھر سے نکلا کہ لوگ سمجھے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آگیا ہے،
[7] اسی حالت میں آپ کے گھر پہنچا اور دیر تک بیٹھا رہا۔
[8][9]
فضل و کمال
ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرتﷺ کے خادم خاص تھے ، اس تقریب سے انھیں استفادہ کے زیادہ مواقع ملتے تھے ؛ چنانچہ 127 /احادیث ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں، جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،[10] حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ ثوبانؓ ان لوگوں میں ہیں جنھوں نے حدیثیں محفوظ کیں اور ان کی اشاعت بھی کی، [11]ان کے تلامذہ میں معدان بن طلحہ ،راشد بن سعد، جبیر بن نفیر، عبدالرحمن ابن غنم، ابو ادریس خولانی قابلِ ذکر ہیں، [12]آنحضرتﷺ کے بعد جو جماعت صاحبِ علم وافتا تھی، اس کے ایک رکن ثوبانؓ بھی تھے۔
[13]
شائقین حدیث فرمایش کرکے ان سے حدیثیں سنتے تھے، ایک مرتبہ لوگوں نے حدیث سنانے کی درخواست کی انھوں نے یہ حدیث سنائی کہ جو مسلمان خدا کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے،خدا اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے، [14] ان کے معاصرین دوسروں سے سنی ہوئی حدیثوں کی تصدیق ان سے کراتے تھے،معدان بن طلحہ نے حضرت ابو درداؓ سے ایک حدیث سنی تو ثوبان سے اس کی تصدیق کی۔[15]آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جو جماعت صاحب علم وافتاء تھی اس کے ایک رکن یہ بھی تھے۔
[16]
ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی وسیع تھا، معدان بن طلحہؓ ،راشد بن سعدؓ ، جیر بن نضیرؓ، عبدالرحمن بن غنم ، ابوادریس خولانی ، آپ کے خوشہ چینوں میں تھے۔
[17][18]
پاس فرمان رسول ﷺ
آقائے نامدار کی حیات میں اور وفات کے بعد دونوں زمانوں میں یکساں فرمان نبوی پیش نظر رہتا تھا، ایک مرتبہ زبان مبارک سے جو کچھ سن لیا وہ ہمیشہ جان کے ساتھ رہا، جس چیز میں آقا کے حکم کی خلاف ورزی کا ادنی سا پہلو نکلتا تھا، اس سے ہمیشہ محترز رہے ، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرتا، اس فرمان کے بعد کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ ہوا اور اس شدت سے اس پر عمل رہا کہ اگر سواری کی حالت میں کوڑا ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتا تھا، تو خود اتر کر اٹھاتے تھے اور کسی سے سوال نہ کرتے تھے ۔
[19][20]
غلامی کی نسبت کا احترام
نبوت کا احترام تو مذہبی فرض ہے،ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی غلامی کی نسبت کا احترام بھی ضروری سمجھتے تھے اور جو شخص اس میں کمی کرتا تھا، اس کو متنبہ کرتے تھے، حمص کے زمانہ قیام میں بیمار پڑے، عبد اللہ بن قط ازدی والی حمص اُن کی عیادت کو نہ آیا، اس کی اس غفلت پر اس کو یہ رقعہ لکھوایا، اگر موسیٰ ؑ اور عیسیؑ کا غلام تمھارے یہاں ہوتا تو تم اس کی عیادت کرتے یہ رقعہ جب عبد اللہ کو ملا تو اسے اپنی کوتاہی پر ندامت ہوئی اوروہ اس کی تلافی کے لیے اس عجلت اور بدحواسی کے ساتھ نکلا کہ لوگ سمجھے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آگیا ہے،غرض وہ بے تابانہ حضرت ثوبانؓ کے گھر آیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔
[21]
↑أبو نعيم الأصبهاني۔ معرفة الصحابة۔ الأول۔ دار الوطن۔ صفحہ: 501الوسيط |المجلد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت)