عمرونام،ابو محجن کنیت،نسب نامہ یہ ہے، عمروبن حبیب بن عمرو بن عمیر بن عوف ابن حقدہ بن غیر ہ بن عوف ثقفی عمرو زمانۂ جاہلیت کے مشہور بہادروں میں تھے۔
اسلام
9ھ میں اپنے قبیلہ بنی ثقیف کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے۔[2]
جنگ قادسیہ
عمرو نہایت شجاع وبہادر تھے،لیکن بہت آخر میں اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے تھے، اس لیے حیاتِ نبویﷺ میں کسی خدمت کا موقع نہ ملا،ان کے کارناموں کا آغاز عہد فاروقی سے ہوتا ہے،جس زمانہ میں ایران پر فوج کشی ہوئی،اتفاق سے اسی زمانہ میں عمرنے انھیں ایک جر م میں قید کر دیا تھا، فوج کشی کا حال سن کر ابو محجن کی رگِ شجاعت بھڑک اٹھی وہ کسی طرح قید خانے سے نکل گئے اس وقت قادسیہ کی جنگ پھر چکی تھی، ابو محجن سیدھے قادسیہ پہنچے، عمر کو ان کے فرار کی اطلاع ہوئی، تو آپ نے اسلامی افواج کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کو ان کی گرفتاری کا حکم لکھ بھیجا، انھوں نے گرفتار کرکے قید کر دیا،ابو محجن لڑائی کے واقعات سن سن کر میدانِ جنگ میں پہنچنے کے لیے بیقرار ہوجاتے تھے، مگر بیڑیوں نے پاؤں پکڑ رکھے تھے،اس لیے مجبور تھے،آخر میں ضبط نہ ہو سکا، ایک دن سعد بن ابی وقاص کی بیوی سلمیٰ سے کہا کہ مجھ پر رحم کرکے میری بیڑیاں کاٹ دو اور سعد کا گھوڑا مجھے دیدو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زندہ بچ گیا تو خود آکر بیڑیاں پہن لونگا، سلمیٰ نے انکار کیا ان کے انکار پر ابو محجن اورزیادہ شکستہ خاطر ہوئے،لیکن ولولہ جہادچین نہ لینے دیتا تھا،اپنی معذوری پر نہایت درد انگیز اشعار پرھ پڑھ کر دل کی بھڑاس نکالنے لگے،یہ رقت انگیز اشعار سن کر سلمیٰ کا دل پسیج گیا، انھوں نے بیڑیاں کھول دیں اور شوہر کا گھوڑا انھیں دیدیا ابو محجن اسی وقت گھوڑا کداتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچے اور تکبیر کا نعرہ لگا کر اس زور شور سے لڑے کہ جدھر نکل جاتے تھے،ایرانی فوجیں درہم برہم ہو جاتی تھیں، یہ غیر معمولی شجاعت دیکھ کر لوگ عش عش کرتے تھے، سعد بن ابی وقاص عرق النساء کی وجہ سے خود میدان جنگ میں نہ جا سکتے تھے اور ایک مقام سے بیٹھے ہوئے لڑائی کا رنگ دیکھ رہے تھے،ابو محجن کی بہادری دیکھ دیکھ کر تعجب کر رہے تھے،لیکن انھیں یہ نہ معلوم تھا کہ ابو محجن قید سے چھوٹ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئے، اس لیے کہہ رہے تھے کہ اگر ابو محجن قید میں نہ ہوتے تو وہی ہو سکتے تھے، گھوڑا بھی میرا ہی معلوم ہوتا ہے،اختتامِ جنگ کے بعد ابو محجن نے لوٹ کر بیڑیاں پاؤں میں ڈالیں۔
سعد گھر واپس آئے اوربیوی کو جنگ کے حالات سنانے لگے،اسی سلسلہ میں انھوں نے کہا آج میدانِ جنگ میں خدانے ایک عجیب شخص بھیج دیا تھا، اگر ابو محجن قید نہ ہوتے تو میں سمجھتا کہ وہی ہو سکتے ہیں، یہ سن کر بیوی نے سارا قصہ سنادیا، سعد نے اسی وقت ابو محجن کو قید سے رہا کر دیا اور ان سے کہا میں کبھی تمھارے جیسے شخص پر حد جاری نہیں کر سکتا۔
فضائل اخلاق
صاحبِ اسد الغابہ لکھتے ہیں، کان شجاعا کریما جوادا،[3] شاعر بھی تھے چنانچہ قید کی حالت میں جو اشعار پڑہتے تھے وہ ان کے طبغراد تھے۔
آذر بیجان میں وفات پائی،سنہ وفات متعین نہیں ہے۔[4]