طائف (عربی: الطائف) سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا ایک شہر ہے جو مکۃ المکرمہ کے نزدیک واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1,700 میٹر (5,600 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ طائف کا موسم خوشگوار ہے اس لیے سعودی حکومت کے بیشتر عمال گرمیوں میں طائف منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے انگور اور شہد مشہور ہے۔ اس شہر کا تذکرہ اسلامی تاریخ میں بھی آتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ کے لیے طائف کا سفر کیا تھا لیکن طائف کے لوگوں نے ان سے برا سلوک کیا اور پتھر برسائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعلین مبارک لہولہان ہو گئے۔
تاریخ
چھٹی صدی عیسوی میں اس علاقہ میں بنو ثقیف کا قبیلہ رہتا تھا۔ شہر کے اردگرد دیوار تھی اور لوگ بت پرست تھے۔ ان لوگوں نے کعبہ پر حملہ کے وقت ابرہہ کا ساتھ دیا تھا۔ 620ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف کا سفر کیا جو اسلامی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ 631ء میں غزوہ تبوک کے وقت مسلمان بہت طاقتور ہو چکے تھے اور طائف والوں نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں اس لیے انھوں نے وفود کو مکہ بھیج کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم بن ابی العاص اور مروان بن حکم کو ان کی کچھ حرکتوں کی بنا پر مدینہ منورہ سے شہر بدر کر دیا اور طائف بھیج دیا جہاں سے ان دونوں کو حضرت عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور تک واپس آنے کی اجازت نہ ملی۔ طائف پر کافی صدیوں تک عربوں کی حکمرانی رہی مگر اسے 1517ء میں شریف مکہ نے عثمانی سلطان سلیم اول کے حوالے کر دیا۔ 1802ء میں نجدی افواج نے اسے فتح کر لیا جن کا تعلق آل سعود سے تھا مگر 1813ء میں عثمانی سلطان محمود دوم نے اسے واپس حاصل کر لیا۔ 1916ء میں شریف مکہ نے اس پر قبضہ کیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد شریف مکہ حسین بن علی اور نجد کے حکمران عبدالعزیز السعود میں اس شہر پر جھگڑا رہا حتیٰ کہ 1926ء میں طائف عبد العزیز السعود کے بادشاہ بننے پر اس کے قبضہ میں آیا اور سعودی عرب کا حصہ بنا۔