آل لوط سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کے گھر والے بھی ہیں اور آپ کے ایماندار پیروکار بھی ۔[2]
علامہ آلوسی فرماتے ہیں
المراد بآل لوط ہو عليه السلام ومن تبع دينه كما يراد من بني آدم آدم وبنوه۔[3]
آل لوط سے مراد لوط (علیہ السلام) اور وہ سب ہیں جنھوں نے آپ کے دین کو قبول کیا جیسے بنی آدم سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کی نسل تمام ہے۔
آل کے خاص معنی
آل بیوی بچوں سب کو کہا جاتا ہے متبعین بھی آل میں داخل ہیں کیونکہ لوط (علیہ السلام) کی مومن اولاد اور سب متبعین کو نجات ملی لیکن آل لوط سے مراد حضرت لوط کے اہل میں سے جو مومن تھے۔ جس میں خود حضرت لوط علیہ الصلا ۃ و السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں جن میں حضرت لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی بیوی شامل نہیں، کیونکہ وہ مومنہ نہیں تھی، البتہ لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی دوبیٹیاں ان کے ساتھ جن کو نجات دی گئی۔[4]
اولاد معنوی
آل لوط سے یہاں پر مراد حضرت لوط کی صرف صلبی اولاد نہیں بلکہ آپ کی معنوی اولاد بھی اس میں داخل ہے، یعنی آپ کے اتباع اور پیروکار کہ ان سبھی کو اس نجات سے سرفراز فرمایا گیا۔[5] ان کی تابعداری اور ان کے دین کے پیروکار ہی صرف آل لوط میں شمار ہوتے ہیں۔
آل لوط سے مراد ان پر ایمان لانے والے تھے، اسی لیے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں فورًا ہی کہا گیا کہ وہ کافروں کے ساتھ رہ جائے گی اور ضرور ہلاک کی جائے گی، اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لائی تھی۔[6]
حوالہ جات
↑سید قاسم محمود (2009ء)۔ شاہکار انسائیکلوپیڈیا قرآنیات۔ لاہور: شاہکار بک فاؤنڈیشن۔ صفحہ: 154تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)