شیطان

رسمی مذہب اسے بدی کا مجسمہ قرار دیتا ہے وہ ہستی جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرکے خدائی احکام کی نا فرمانی کی اور ہمیشہ کے لیے ملعون و مردود قرارد ی گئی۔ اب اس کا کام صرف اتنا ہے کہ خدا کی مخلوق کو بہکانے اور اُسے خدا کے مقرر کردہ راستے سے دور لے جائے۔

ابراہیمی مذاہب میں تصور شیطان

اسلام

مسلمان صوفیا کے ہاں تصور شیطان

جن مسلمان صوفیا نے ابلیس کا خاص انداز میں ذکر کیا ہے۔ ان میں منصور حلاج، مولانا روم، ابن عربی وغیرہ کے نام زیادہ اہم ہیں۔ بعض نے تو ابلیس کو اتنی اہمیت دی کہ اُسے سب سے بڑا توحید پرست اور موحد قرار دیاہے۔

  • ابلیس خدا کے ارادوں کی مشیت کا ایک ایسا کارندہ ہے جس کے فرائض سب سے زیادہ تلخ، سب سے زیادہ ناگوار، کڑے اور نازک ہیں۔ (منصور حلاج
  • شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معریٰ ہو کر ادنی مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے۔(مولانا روم
  • ابلیس ارادے میں آزاد ہے۔ ابن عربی

دیگر مذاہب میں تصور شیطان

ایرانی ثنویت اور تصور شیطان

اس طرز فکر کی نمائندگی تین مفکرین کرتے ہیں زرتشت، مانی اور مزدک ان تینوں فلسفیوں کے نزدیک کائنات میں فعال قوتیں دو طرح کی ہیں۔ ایک جو یزداں کے نام سے منسوب ہے دوسری اہرمن کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ اہرمن شر کی قوتوں کا نمائندہ جبکہ یزداں خیر کی قوتوں کا نمائند ہ ہے۔ فطرت میں خیر وشر کی قوتوں کے مابین ایک مسلسل پیکار جاری ہے۔ اشیا ءاچھی یا بری اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ یا تو خیر کی قوت تخلیق کی پیداوار ہیں یا شر کی۔

مغربی ادب میں تصور شیطان

مغربی شعراءنے بھی اس فلسفے میں بڑی نکتہ نوازیاں کی ہیں۔ چند نمائندہ شعراءکے فلسفہ ہائے ابلیس پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

دانتے

دانتے مشہور اطالوی شاعر ہیں اس نے اپنی عظیم رزمیہ داستا ن ”ڈیوائن کامیڈی “ میں شیطان کا کردار پیش کیا ہے۔ دانتے کا شیطان بالکل قدیم مذہبی نوعیت کا شیطان ہے جس کا تصویر بائبل میں ملتاہے۔ یہ بہت ہیبت ناک اور ساکن ہے۔ دانتے اپنے شیطان کو سینے تک برف میں دھنسا ہوا دکھاتا ہے۔ وہ جتنا کسی زمانے میں حسین تھا اتنا ہی اب بد شکل ہے دانتے نے ابلیس کو دوزخ کے ساتھ دنیاوی نمائندہ قرار دے کر زندگی کے لیے ناگزیر تسلیم کیا ہے۔

ملٹن

یہ ایک مشہور شاعر ہے۔ اس کی نظم ”جنت گم گشتہ “ میں ابلیس کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ ملٹن کا شیطان ایک زبردست شخصیت کا مالک ہے۔ جو اتنا ہیبت ناک ہے کہ دوزخ اس کے قدموں تلے کانپتی ہے۔ اس نے خدا سے شکست کھائی ہے۔ لیکن ہمت نہیں ہاری۔ وہ ناقابل تسخیر ارادے اور عزم کا مالک ہے اور ایک ایسا ذہن رکھتا ہے جسے زمان و مکان تبدیل نہیں کر سکتا ۔

گوئٹے

عظیم جرمن شاعر ہے اُس نے اپنے شہر ہ آفاق ڈرامے ” فاوسٹ “ میں شیطان کا ایک خاص کردار پیش کیا ہے۔ گوئٹے شیطان کو محض گردن زدنی نہیں سمجھتا بلکہ اس میں بعض خوبیاں بھی دیکھتا ہے گوئٹے کی دنیا میں شیطان کا بہکانا بھی انسان کے لیے مفید ہے کیونکہ صدائے غیبی کے الفاظ میں ’ ’ جب تک انسان راہ طلب میں ہے اس کا بھٹکنا لازمی ہے۔ انسان کا دستِ عمل سو جاتا ہے اور اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہم خوشی سے تیرا ساتھ دے ددیتے ہیں جو اُسے اُبھارے اور شیطانی قوت کو تخلیق دے اس شیطانی قوتِ تخلیق کا گوئٹے بہت قائل ہے۔ یعنی شیطان انسان میں خفیہ تخلیقی قوتوں کو بیدار کرتاہے اور عمل پر اکساتا ہے۔

علامہ اقبال کا تصور شیطان

اقبال نے ابلیس(شیطان) کے بارے میں اپنا فلسفہ مرتب کرتے وقت نہ صرف قدیم فلسفیوں، صوفیوں اور شاعروں کے خیالات سے استفادہ کیا بلکہ اس میں اسلامی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم جو اقبال کے تصور ِ ابلیس کو ان کے فلسفہ خودی کے تابع سمجھتے ہیں، لکھتے ہیں،

” اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور ان کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خودی کی ماہیت میں ذات الہٰی سے فراق اور سعی ِ قرب و وصال دونوں داخل ہیں اقبال کے فلسفہ خودی کی جان اس کا نظریہ عشق ہے۔ عشق کی ماہیت، آرزو، جستجو اور اضطراب ہے۔ اگر زندگی میں مواقع موجود نہ ہوں تو خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور اُستواری پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔“

نظم” تسخیر فطرت“ میں شیطان کے خدوخال

شیطان جو رسمی مذہب میں بد ی کا مجسمہ ہے اسے اقبال نے اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ وہ جبر و تحکم کے علمِ بغاوت کو بلند کرنے والا اور بندہ ئے دام کی بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے والا ایک منفرد کردار بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس اقدام سے ایک زبردست معرکہ چھیڑدیتا ہے جو افراد کے اندرونی رجحانات اورخارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔ تمام فرشتوں میں یہ ایک اسی کی ذات تھی جس نے خدا کے حکم پر آد م کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور خدا کے اس سوال پر کہ اس نے یہ خطرناک جرات کیوں کی، شیطان نے یہ جواب دیا میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ اقبال نے ”پیام مشرق“ میں اپنی نظم تسخیر فطرت میں اس قرآنی آیت کی نہایت مو ثر ترجمانی کی ہے۔ اس نظم کے پانچ حصے ہیں۔

  1. میلاد ِ آدم
  2. انکار ابلیس
  3. اغوائے آدم
  4. آدم از بہشت بیروں آمدہ می گوید٥) صبح قیامت آدم در حضور ِ باری

یہاں بھی انسانی تخلیق اور اس کی شخصیت کی تکمیل میں شیطان کا حصہ اگرچہ وہی پرانا قصہ ہے اور تمام مذہبی صحیفوں میں موجود ہے۔ لیکن یہاں اقبال نے شیطان کا ایک منفر د اور ڈرامائی انداز پیش کیا ہے۔ انسان کی آفرینش قدرت کا اعلیٰ ترین شہکار تھی۔ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی قدرت نے ایک تخلیقی قطعیت بھی پیدا کی جو سکون سے عمل کی طرف، طاقت سے طاقت کے استعمال کی طرف اور خوئے تسلیم و رضا سے تجزیہ و عمل کی طرف اس کے شعور کو پھیرنا چاہتی تھی۔ یہی تجرباتی، متحرک، طاقت اور رجحان انکار ابلیس ہے۔ ”تسخیر فطرت“ میں ابلیس، سجدہ آدم سے انکار کی وجہ بڑے جوش، خروش سے خدا کے سامنے بیان کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حرکت کا سرچشمہ بتاتا ہے۔ اور زندگی میں حرکت کی ساری برکت کواپنا کمال سمجھتا ہے۔

می تپداز سوزِ من، خونِ رگ کائنات
من بہ دو صرصرم، من بہ غو تندرم

پروفیسر تاج محمد خیال نظم پر تبصرہ کرنے ہوئے لکھتے ہیں، ” یہاں اقبال نے شیطان کواپنے اندرونی جذبات یعنی جذبہ مسابقت، دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے اور غلبہ پانے کی آرزو کا آزاد اظہار کرتے دکھایا ہے۔ ماحول کی قوتوں کے مقابل میں رد عمل اور انھیں متاثر کرنے جو فطری رجحان ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ تو گویا شیطان اسی رجحان کی ایک رمزیہ شکل ہے۔ یہ رجحان زندگی کا ایک جوہر ہے اور تمام آرزو، طلب، سعی و کامرانی کی تخلیق کا ذمہ داردراصل یہی ہے۔“

نظم جبرئیل و ابلیس

بال جبریل کی نظم ”جبریل و ابلیس “ بھی اقبال کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم ایک دلچسپ مکالمے کی شکل میں ہے، جس میں جبرئیل اپنے ہمدم دیرینہ شیطان سے بڑے دوستانہ لہجے میں پوچھتا ہے کہ جہانِ رنگ و بو کا حال کیسا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتاؤ، شیطان اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جہاں عبادت ہے سوز و ساز وردو جستجو ہے۔ جبریل اُسے کہتا ہے کہ آسمانوں پر ہر وقت تیرا ہی چرچا رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے اور پھر سے ذات باری کا قرب حاصل کر لے؟ جواب میں شیطان کہتا ہے کہ میرے لیے اب یہ ممکن نہیں، میں آسمان پر آکر کیا کروں گا۔ وہاں کی خاموشی میں میرا دم گھٹ کر رہ جائے گا۔ آسمان پر زمین کی سی گہما گہمی اور شورش کہاں ہے۔ جبرئیل یہ باتیں سن کر بہت ناخوش ہوتے ہیں اور دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ اسی انکار کی وجہ سے تو نے اپنے مقاماتِ بلند کھو دیے اور اسی سے تو نے فرشتوں کی بے عزتی کرائی، تمھارے اس اقدام کے بعد فرشتوں کی خدائی نظروں میں کیا آبرو رہی؟ اس پر شیطان چمک کر جواب دیتا ہے کہ تم آبرو کا نام لیتے ہو؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میری جرات سے ہی کائنات وجود میں آئی اور میری ہی وجہ سے عقل کی ضرورت پڑی۔ تیرا کیا ہے، تو تو ساحل پر کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے والوں میں سے ہے۔ تو خیر و شر کی جنگ کو بس دور سے دیکھتا ہے۔ میری طرف دیکھو کہ میں طوفان کے طمانچے کھاتا ہوں، یہ میں ہی تھا جس کی بدولت آدم کے قصے میں رنگینی پیدا ہوئی، ورنہ یہ ایک بے روح داستان تھی۔ ابلیس و جبریل خیالات کی بلندی کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک معرکے کی چیز ہے۔

ہے مری جرات سے مشتِ خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پُو

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیروشر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میں کہ تو؟

خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزادں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

اقبال کی یہ نظم پڑھتے وقت کوئی بھی شخص شیطان کی عظمت و شکوہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں اقبال نے اُسے ”سوزِ درونِ کائنات“ قرار دیا ہے۔

نظم ”تقدیر“ میں ابلیس کے نقوش

ضرب کلیم میں ”تقدیر “ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس کا ذیلی عنوان ہے۔ ”ابلیس و یزداں “ اس نظم کا مرکزی خیال ابن ِ عربی سے ماخوذ ہے۔ یہاں بھی ابلیس اور یزداں کے درمیان گفتگو ہوئی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ اے خدا مجھے آد م سے کوئی بیر تھا اور نہ تیرے سامنے تکبر کرنا میرے لیے ممکن تھا۔ بات صرف اتنی ہے کہ تیری مشیت میں ہی میرا سجدہ کرنا نہیں لکھا تھا۔ خدا پوچھتا ہے کہ تجھ پر یہ راز انکار سے پہلے کھلا یا انکار کے بعد۔ ابلیس جو اب دیتا ہے کہ انکار کے بعد اس پر خدا طنزاً فرشتوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھو اس کی پستی فطرت نے اُسے یہ بہانہ سکھایا ہے۔ ہم نے اسے جو آزادی بخشی تھی۔ اسے یہ احمق مجبوری اور جبر کا نام دے کر اس کی اہمیت سے انکار کر رہا ہے۔

پستی فطرت نے سکھائی ہے یہ حجت اِ سے
کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلہ سوزاں کو خود کہتا ہے دود

نظم ”ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام“

اقبال کے ہاں ابلیس کی رسمی اور اپنی تصویر بھی ملتی ہے مثلاً ضربِ کلیم کی ایک نظم ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے میں شیطان کہتا ہے۔

لا کر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو

بقول تاج محمد خیال: ” ان کا نظریہ شیطان رسمی عقائد سے خواہ کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو شیطان پھر بھی شیطان ہے۔ اس کی شخصیت خواہ کتنی ہی شاندار ہو اور اس کا کردار خواہ کتنا ہی اہم ہو پھر بھی شیطان جن رجحانات کا مظہر ہے اگر انسان بالکل انہی رجحانا ت کا مطیع ہو جائے گا تو نتیجہ ابدی انتشار و کشمکش، تباہی و بربادی کے سواءکچھ بھی نہ نکلے گا ایسی بنیادوں پر جو سماجی ڈھانچہ تعمیر کیا جائے گا وہ یکسر شیطانی ہوگا یہ قوت کا حامل تو ہوگا لیکن بصیرت سے محروم رہے گا۔“

حوالہ جات

Strategi Solo vs Squad di Free Fire: Cara Menang Mudah!