اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ اس بستی میں (جو تمھارے سامنے ہے) داخل ہوجاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ (پیو) اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ ہم تمھاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکوکاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔
باب سے مراد بیت المقدس کا ایک دروازہ ہے جو باب حطہ کے نام سے مشہور ہے۔ بعض اس قریۃ سے مراد اریحا مراد لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک الباب سے مراد اس شہر کا کوئی بھی دروازہ ہے اور اس کے سات دروازے بتائے جاتے ہیں۔ فمن قال ان القریۃ اریحا قال ادخلوا من ای باب کان من ابوابھا وکان لہا سبعۃ ابواب اور جن کے نزدیک القریۃ سے مراد بیت المقدس ہے ابواب سے مراد بیت المقدس کا خاص دروازہ ہے جیسے باب حط کہتے ہیں ومن قال ان القریۃ ہی بیت المقدس قال ہو باب حطۃ۔
حطۃ۔ کے معنی اترنا، نازل ہونا۔ ای انزلہ اس نے اسے اونچی جگہ سے نیچی جگہ رکھا چنانچہ کہتے ہیں حططت الرحل میں نے سواری سے پاؤں اتار کر نیچے رکھ دیا۔ اور یہاں حطۃ سے مراد یہ ہے حط عنا ذنوبنا (اے اللہ) ہمارے گناہ ہم سے اتار دے (یعنی اپنے گناہوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی دعا کرو) ۔[1]