مسجد ضرارجو مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے بنائی گئی اور اسے بحکم خدا گرا دیا گیا۔
ضرار۔ ضرر سے مشتق ہے۔ ایذا دینا۔ نقصان پہنچانا۔ ضرر پہنچانا۔
مسجد ضرار کی تعمیر کی پہلی وجہ
عمروبن عوف نے مسجد قبا بنائی اور انھوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ان کے پاس تشریف لائیں چنانچہ آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور اس میں نماز ادا فرمائی، پس ان کے بھائیوں بنو غنم بن عوف نے ان کے ساتھ حسد کیا اور یہ کہا : ہم مسجد بنائیں گے[1]
مسجد ضرار کی تعمیر کی اصل وجہ
ابو عامر نےمدینہ منورہ کے منافقین کو خط لکھا کہ میں یہ شام میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ روم کا بادشاہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو ختم کر ڈالے۔ لیکن اس کام کے لیے ضروری ہے کہ تم لوگ اپنا ایک محاذ ایسا بناؤ کہ جب روم کا بادشاہ حملہ کرے تو تم اندر سے اس کی مدد کرسکو۔ اسی نے یہ مشورہ بھی دیا کہ تم ایک عمارت مسجد کے نام سے بناؤ جو بغاوت کے مرکز کے طور پر استعمال ہو اس میں خفیہ طور سے ہتھیار بھی جمع کرو۔ اور آپس میں مشورے بھی یہیں کیا کرو اور میری طرف سے کوئی ایلچی آئے تو اسے بھی یہاں ٹھہراؤ۔[2]
ابو عامر
مدینہ منورہ کے قبیلے خزرج میں ابو عامر راہب تھااسے راہب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عبادت گزار تھا اور علم کی تلاش میں لگا رہتا تھا پھر وہ حضور نبی مکرم کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے قنسرین میں حالت کفر میں مرگیا۔ اس نے حضور نبی مکرم ﷺ کو کہا تھا : میں جو قوم بھی تمھارے ساتھ قتال کرتے ہوئے پاؤں گا تو میں ان کے ساتھ مل کر تمھارے ساتھ قتال کروں گا، پس وہ غزوہ حنین تک لگا تار آپ کے خلاف جنگ لڑتا رہا اور جب بنو ہوازن شکست سے دو چار ہوئے تو وہ روم کی طرف نکل گیا اور مسیحی ہو گیا اوریہ وہی شخص ہے جن کے لڑکے حنظلہ مشہور صحابی ہیں جن کی لاش کو فرشتوں نے غسل دیا اس لیے غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے، مگر باپ اپنی گمراہی اور نصرانیت پر قائم رہا۔[1] ابو عامراحد کی لڑائی میں اہل مکہ کو بہکا کر مسلمانوں پر چڑھا کر لایا اور چند گڑھے اس نے لڑائی کی صفوں کے بیچ میں کھود دیے تھے جن میں سے ایک گڑھے میں گر کر آنحضرت کے چوٹ لگ گئی تھی [3]
تعمیر کے لیے بہانہ بازی
نبی کریمﷺ سے درخواست کی کہ بہت سے کمزور لوگوں کو مسجد قبا دور پڑتی ہے، اس لیے ان کی آسانی کی خاطر ہم نے یہ مسجد تعمیر کی ہے۔ آپ کسی وقت یہاں تشریف لا کر نماز پڑھیں، تاکہ اسے برکت حاصل ہو۔[2] غرض یہ بتلاتے ہیں کہ ہمارے گائوں کے مسلمانوں کو بارش وغیرہ میں دور جانے سے تکلیف ہوتی ہے اس لیے قریب ہی مسجد بنا لی گئی ہے ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لی جایا کرے گی مگر دل میں ان کے یہ شرارت ہے کہ جو مسلمان اس مسجد میں آئیں گے ان کو وقتاً فوقتاً شبہات ڈالا کریں گے اور پیغمبر ﷺ سے بدظن کرنے میں کوشش کریں گے تاکہ ان مسلمانوں کا جتھا ٹوٹ جائے جس سے ان کی ترقی میں فرق آجائے۔[4]
بنانے والے اشخاص
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ بارہ آدمیوں نے اس مسجد کی تعمیر کی تھی[5] :
قبیلۂ بنی عبید بن زید کا حذام بن خالد‘ یہ بنی عمرو بن عوف کا ایک فرد تھا اور اس کے گھر کے ایک حصہ میں یہ مسجد بنائی گئی تھی،
قبیلۂ بنی امیہ بن زید کا ثعلبہ بن حاطب
بنی ضبیعہ بن زید کا معتب بن قشیر
بنوضبیعہ بن زید کا ابو حبیبہ بن ازعر
بنوضبیعہ بن زید سے نبتل بن حارث
بنوضبیعہ بن زید سے بجاد بن عثمان
قبیلۂ بنی عمرو بن عوف کا عباد بن حنیف جو سہل بن حنیف کا بھائی تھا
جاریہ بن عامر اور اس کے دونوں بیٹے
مجمع بن حارثہ
زید بن حارثہ
ودیعہ بن ثابت
بنوضبیعہ بن زید سے یخرج
غزوہ تبوک کی وجہ سے تاخیر
نبی کریم ﷺاس وقت تبوک جانے کی تیار میں مصروف تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ ابھی تو میں تبوک جا رہا ہوں، واپسی پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں وہاں آکر نماز پڑھ لوں گا۔[2]
تبوک سے واپسی
آپ ﷺ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے قریب ذواوان پہنچے تو جبرئیل امین سورہ التوبہ کی یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں آپ کو منافقین کے ناپاک اغراض پر مطلع کر دیا گیا اور آپ کو وہاں نماز پڑھنے بلکہ کھڑے ہونے کی بھی ممانعت کردی گئی اور بتلا دیا گیا کہ اس مسجد کی اصل غرض ضرار ہے یعنی مسلمانوں کو ضرر پہنچانا ہے اسی وجہ سے یہ "مسجد ضرار" کے نام سے مشہور ہوئی اس نام نہاد مسجد کی حقیقت کھول دی گئی۔ اور اس میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا۔[6]
انہدام کا حکم
آپ نے ذواوان سے چند صحابیوں جن میں وحشی، مالک بن دخشم و معن بن عدی اور عام ابن سکن کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔ چنانچہ ان حضرات نے اس کو جلا کر خاک کر دیا۔[7] وہ مالک بن بدخشم کا قبیلہ تھا مالک نے معن سے کہا میرا انتظار کرو یہاں تک کہ میں واپس آؤں وہ اپنے اہل و عیال کے پاس گیا کھجورکی ٹہنیاں لیں اور ان میں آگ لگا لی [8]
انہدام کے بعد
مسجد ضرار کی جگہ خالی پڑی تھی، رسول اللہ نے عاصم ابن عدی کو اس کی اجازت دی کہ وہ اس جگہ میں اپنا گھر بنالیں، انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺجس جگہ کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہو چکی ہیں میں تو اس منحوس جگہ میں گھر بنانا پسند نہیں کرتا، البتہ ثابت بن اقرم ضرورت مند ہیں ان کے پاس کوئی گھر نہیں ان کو اجازت دیدیجئے کہ وہ یہاں مکان بنا لیں، ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے یہ جگہ ثابت بن اقرم کو دے دی مگر ہوا یہ کہ جب سے ثابت اس مکان میں مقیم ہوئے ان کے کوئی بچہ نہیں ہوا یا زندہ نہیں رہا۔
اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ انسان تو کیا اس جگہ میں کوئی مرغی بھی انڈے بچے دینے کے قابل نہ رہی کوئی کبوتر اور جانور بھی اس میں پھلا پھولا نہیں، چنانچہ اس کے بعد سے یہ جگہ آج تک مسجد قبا کے کچھ فاصلہ پر ویران پڑی ہے۔[9]
اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنھوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لیے گھات کی جگہ بنائیں۔ اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی۔ مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔
تم اس (مسجد) میں کبھی (جاکر) کھڑے بھی نہ ہونا۔ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس قابل ہے کہ اس میں جایا (اور نماز پڑھایا) کرو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور خدا پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ عمارت جو انھوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور ان کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے