خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ (عربی: الكعبة المشرًفة، البيت العتيق یا البيت الحرام) مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے، جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔
تاریخ
ابراہیم کاقائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو ابراہیم نے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :
"عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔
قریش نے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انھوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کر دیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کر دیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔
عبد اللہ بن زبیر (جو عائشہ ا کے بھانجے تھے اور امام حسین کی شہادت کے بطور احتجاج یزید بن معاویہ سے بغاوت کرتے ہوئے مکہ میں اپنی خود مختاری کا اعلان کیا تھا) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابراہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگر حجاج بن یوسف نے693ءمیں انھیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔
خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں نبی پاک صلی اللہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندر سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔
کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔
حطیم جسے حجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی چوڑائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور اونچائی1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔
خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانب مقام ابراہیم قائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ابراہیمنے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔
1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے۔
کعبہ کے جنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹ قطر کے چاندی میں مڑھے ہوئے مختلف شکلوں کے 8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جن کے بارے میں اسلامی عقیدہ ہے کہ تعمیری ابراہیمی کے وقت جنت سے جبریل لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے قوم کو بچایا۔ جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے ورنہ دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔
مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو ابراہیم اور ہاجرہ کے شیر خوار بیٹے اسماعیل کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
کعبہ شریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پر حجر اسود نصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹے احمد بن ابراہیم بدر نے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔
عن ابن عمر قال علی الرکن الیمانی ملکان یؤمنان علی دعا من مر بہما و ان علی الحجر الاسود ما لا یحصی۔
ترجمہ: عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دو فرشتے ہیں جو وہاں سے گزرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور حجر اسود پر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔[2]
کعبہ کا نام کعبہ اس لیے رکھا گیا کہ یہ مربع (چوکور) ہے اور یہ چوکور اس لیے ہو گیا کہ یہ بیت معمور کے ٹھیک نیچے ہے اور وہ چوکور ہے اور بیت معمور اس لیے چوکور ہے کہ وہ عرش کے ٹھیک نیچے ہے اور وہ چوکور ہے اور عرش اس لیے چوکور ہے کہ وہ کلمات جن پر اسلام کی بنیاد ہے وہ چار ہیں۔ یعنی سبحان اللہ، والحمد اللہ، ولا الہ اللہ، و اللہ اکبر[4]
بیت اللہ کا نام حرام اس لیے رکھا گیا کہ اس کے اندر مشرکین کا داخلہ حرام ہے۔[5]
ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عتیق اس لیے ہے کہ یہ لوگوں سے آزاد ہے اس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے۔[7]
بیت اللہ کو زمین کے بالکل وسط میں اس لیے رکھا گیا کہ اس کے نیچے سے زمین بچھائی گئی تا کہ اہل مشرق اور اہل مغرب سب پر اس کا فریضہ حج برابر رہے۔
اور حجر اسود کو اس لیے بوسہ دیا جاتا اور مس کیا جاتا ہے تا کہ اس عہد کو جو میثاق میں ان لوگوں سے لیا گیا تھا اللہ کی بارگاہ میں ادا کر دیا جائے۔
اور حجر اسود کو اس کے رکن میں رکھا گیا جہاں وہ اس وقت ہے کسی دوسرے رکن میں اس لیے نہیں رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت میثاق کیا تھا اس کو اسی جگہ رکھا تھا۔
اور کوہ صفا سے اس رکن کا استقبال جس میں حجر اسود ہے تکبیر کے ساتھ کرنے کی سنت اس لیے جاری ہو گئی کہ جب آدم نے کوہ صفا سے دیکھا کہ حجر اسود اس رکن میں رکھا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تمجید کرنے لگے۔
اور میثاق کو حجر اسود میں اس لیے رکھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور علی کی وصایت کا میثاق کیا تو ملائکہ کے جوڑ جوڑ کانپنے لگے۔ اور سب سے پہلے اقرار میں جس نے جلدی کی یہی حجر اسود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا اور وہ میثاق اس کے منہ میں ڈال دیا۔ اب وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کی بولتی ہوئی زبان اور دیکھنے والی آنکھ ہو گی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے یہاں آ کر اس میثاق کو ادا کیا۔
اور حجر اسود کو جنت سے اس لیے نکال کر بھیجا گیا تا کہ آدم جو عہد و میثاق میں سے بھول گئے ہوں انھیں یاد دلا دے۔ اور حرم کے حدود جو تھے وہ وہی ہیں ان میں نہ کچھ کم ہوئے نہ زیادہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پاس ایک سرخ یاقوت نازل فرمایا تھا اس کو انھوں نے بیت اللہ کی جگہ رکھا تھا اور اس کا طواف کرتے تھے جس کی ضَوانِ نشانات تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اِن نشانات تک حرم قرار دے دیا۔
اور حجر اسود کو مس اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں سارے خلائق کے عہد و میثاق و دیعت ہیں اور دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر بنی آدم کے گناہوں نے اس کو سیاہ بنا دیا اگر ایام جاہلیت کے گندے اور نجس لوگ اس کو مس نہ کرتے تو یہ ایسا ہوتا کہ جو بیمار بھی اس کو مس کرتا وہ اچھا ہو جاتا۔[8]
حطیم کو حطیم اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگ وہاں ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ اور لوگ حجر اسود اور رکن یمانی کو مس کرتے ہیں اور دوسرے ارکان کو مس نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ رکن یمانی عرش کے داہنی جانب ہے اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو چیز اس کے عرش کے داہنی جانب ہے اسے مس کیا جائے۔[9]
اور رکن شامیجاڑےگرمی میں متحرک رہتا ہے اس لیے کہ اس کے نیچے ہواقید ہے اور خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس پر سیڑھی لگا کر جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حجاج نے خانہ کعبہ کو منہدم کیا تو لوگ اس کی مٹی اٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جب لوگوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو ایک سانپ نمودار ہوا جس نے لوگوں کو تعمیر سے روک دیا جب حجاج آیا تو اسے لوگوں نے بتایا اس نے امام علی بن الحسین سے اس کے متعلق رجوع کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگوں کو حکم دو کہ جو شخص یہاں سے جو کچھ لے گیا ہے وہ سب لا کر یہاں واپس ڈال جائے۔ چنانچہ جب اس کی دیواریں بلند ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس کی ساری مٹی اس میں ڈال دی جائے اس لیے خانہ کعبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اس میں سیڑھی لگا کر جاتے ہیں۔ اور لوگ اس چہار دیواری سے باہر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اس کے اندر سے نہیں کرتے اس لیے کہ اسماعیل کی مادر گرامی چہار دیواری کے اندر دفن ہیں اور اس میں ان کی قبر ہے اس لیے باہر سے طواف کرتے ہیں تا کہ ان کی قبر پاؤں تلے روندی نہ جائے۔[10]
اور روایت کی گئی ہے کہ اس میں چند انبیاء کی قبریں بھی ہیں۔
اور اس چہار دیواری میں خانہ کعبہ کا کوئی جز ناخن کے ایک تراشے کے برابر بھی نہیں ہے۔[11]
اور اس کا نام مکہ اس لیے ہوا کہ لوگ یہاں ایک دوسرے کو ہاتھوں سے دھکا دیتے ہیں۔[12]
اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام مکہ اس لیے پڑ گیا کہ اس کے گرد اور اس کے اندر لوگ گریہ و بکا کرتے ہیں۔ اور بکہ خانہ کعبہ کی جگہ کو کہتے ہیں اور مکہ پوری آبادی کا نام ہے۔ اور خانہ کعبہ کے پاس کوئی ہدیہ اور نذر لانا مستحب نہیں اس لیے کہ یہ سب خانہ کعبہ کے خدام کا ہو جاتا ہے۔ مسکینوں کو کچھ نہیں ملتا۔ اور کعبہ تو نہ کھاتا اور نہ پیتا ہے اور اس کے لیے جو بھی ہدیہ لایا جاتا ہے وہ خانہ کعبہ کے زائرین کے لیے ہے اور روایت میں ہے کہ حجر کے اوپر سے ندا کی جاتی تھی کہ آگاہ ہو جس کا خرچہ ختم ہو گیا ہو وہ یہاں آ جائے اس کو خرچہ دیا جائے گا۔[13]
مزید دیکھیے
ویکی ذخائر پر خانہ کعبہ
سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔