معرکہ جسر یعنی پل کا معرکہ یا حادثہ (عربی:موقعة الجسر۔ انگریزی:Battle of the Bridge) یہ معرکہ 23 شعبان سنہ 13ھ میں خلافت راشدہ اور فارسی سلطنت کی فوجوں کے درمیان میں ہوا تھا، اسلامی فوج فوج کی قیادت ابو عبید بن مسعود ثقفی کر رہے تھے۔
ابو عبید بن مسعود ثقفی کو عمر بن خطاب نے ایران کی فتوحات کے لیے بھیجا تھا، 3 شعبان کو عراق پہنچے۔ سب سے پہلی جنگ 8 شعبان کو "نمارق" سے ہوئی، پھر 12 شعبان کو "سقاطیہ" کا معرکہ ہوا، 17 شعبان کو "باقسیاثا" کا معرکہ ہوا اور اس کے بعد پھر 23 شعبان کو یہ معرکہ جسر پیش آیا۔ بیس دنوں کی مدت کے ان چار معرکوں میں میں پہلے تینوں معرکوں میں مسلمانوں کو فتح ملی۔ یہ چوتھا معرکہ جسر میں مسلمان شکست کھا گئے، اسلامی لشکر کے قائد ابو عبید بن مسعود ثقفی نے دریائے فرات کے پل کو پار کر لیا تھا، لیکن وہاں ہاتھیوں نے انھیں روند دیا اور شہید ہو گئے۔ اسلامی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی تقریباً آدھا لشکر ختم ہو گیا اور آدھے بھاگ نکلے۔ پل کے اس سانحے کی وجہ سے اس کو معرکہ کو "معرکہ جسر" کا نام دیا جاتا ہے۔
ان کی شہادت کے بعد مثنی بن حارثہ شیبانی نے لشکر کی قیادت سنبھالی لیکن اکثر لوگ بھاگ چکے تھے، صرف دو ہزار رہ گئے تھے۔
مثنی بن حارثہ شیبانی نے شکست کی یہ خبر مدینہ منورہ بھیجی، اس وقت امیر المومنین عمر بن خطاب منبر پر تھے، آہستہ سے انھیں خبر دی تو وہ زور زور سے منبر پر رونے لگے۔ پھر فرمایا: «اللہ کی رحمت ہو ابو عبید پر، اگر وہ جنگ نہیں کر سکتا تھا تو پیچھے ہٹ جاتا تاکہ ہم ان کے لیے دوسرا لشکر بھی بھیجتے، لیکن اللہ نے جو مقدر کیا وہی ہوا»۔ اس کے بعد جنگ سے بھاگنے والے بھی مدینہ منورہ پہنچے، سب رو رہے تھے، کہہ رہے تھے: «ہم کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ ہم کیسے فرار ہو سکتے ہیں؟»
اس شکست سے بہر حال مسلمانوں کو تکلیف بھی ہوئی اور عار بھی محسوس ہوئی، چونکہ اس سے پہلے وہ کسی جنگ میں بھاگنے کی عادی نہیں تھے۔ عمر فاروق انھیں تسلی دیتے تھے کہتے تھے: «اسے فرار نہ سمجھو، میں ضرور تمھیں دوسرے محاذ پر بھیجوں گا»۔ ان کا حوصلہ بڑھاتے اور انھیں جوش دلاتے تھے۔ ان بھاگنے والوں میں معاذ بن جبل بھی تھے، جو تراویح کی امامت کرتے تھے، جب جب جنگ سے فرار کی آیات پڑھتے تو نماز ہی رونے لگتے، عمر فاروق انھیں تسلی دیتے کہتے: «آپ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں»۔
اس معرکہ میں آٹھ ہزار میں سے چار ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔
حوالہ جات