رافع نام، ابو مالک و ابو رفاعہ کنیت ، قبیلہ بنو خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے، رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عامر بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
اسلام
انصار مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جس گروہ نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا ان میں سے سے پہلے شخص حضرت رافع بن مالک تھے۔ آپ بنو زریق کے نقیب مقرر کیے گئے۔اور اشاعت اسلام میں بڑی سرگرمی دکھائی۔ بنی زریق کی مسجد میں سب سے پہلے قرآن پاک آپ نے پڑھایا۔ جو سورۃ نازل ہوتی آپ فوراً لکھ کر لوگوں کو سناتے۔ غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ قبیلۂ بنو خزرج کے 6 آدمی جن میں یہ دونوں آدمی بھی تھے،عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ گئے تھے، آنحضرتﷺ ان کے قیام گاہ پر تشریف لائے اور اسلام کی تبلیغ کی تو سب سے پہلے اس دعوت کو انہی دونوں نے لبیک کہا۔
یہ اسد الغابہ کی روایت ہے طبقات میں ہے کہ صرف دو شخص گئے تھے ان کو آنحضرتﷺ کی خبر ملی تو خدمت میں حاضر ہوکر مذہب اسلام اختیار کرنے کا شرف حاصل کیا۔
ان دونوں بزرگوں میں بھی جیسا کہ سعد بن عبد الحمید کا قول ہے ،حضرت رافع بن ؓمالک نے پہلے بیعت کی تھی۔
اسلام قبول کرکے پلٹے تو مدینہ میں نہایت سرگرمی سے اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دی،مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں:
فلما قدموا المدينة ذكروا لقومهم الإسلام ودعوهم إليه، فشفا فيهم، فلم تبق دار من دور الأنصار إلا وفيها ذكر من رسول الله صلى الله عليه وسلم
[1] یعنی جب یہ لوگ مدینہ آئے اور اپنی قوم میں اسلام کا چرچا کیا تو اس کی دعوت دی تو اسلام تمام انصار میں پھیل گیا اب کوئی گھر نہ تھا جہاں رسول اللہﷺ کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو۔
دوسرے سال حضرت رافع بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ 12 ، آدمیوں کے ساتھ اور تیسرے سال 70 آدمیوں کے ساتھ مکہ گئے اور اس اخیر بیعت میں بنو زریق کے نقیب منتخب ہوئے۔صحیح بخاری میں رافعؓ بن مالک کے عقبہ میں شریک ہونے کا ذکر آیا ہے،چنانچہ ان کا قول ہے:
مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا بِالْعَقَبَةِ
[2]
یعنی مجھے یہ خوش نہیں آتا کہ عقبہؓ کے مقابلہ میں غزوہ بدر میں شریک ہوتا۔
[3][4]
غزوات
رافع بن مالک رضی اللہ عنہ کی اسلامی زندگی کے دوران میں صرف دو لڑائیاں پیش آئیں، غزوہ بدر اور غزوہ احد، غزوہ بدر میں ان کی شرکت مشکوک ہے،ابن اسحاق نے ان کو اصحاب بدر میں شمار نہیں کیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ وہ شریک تھے،اس باب میں بہترین حکم خود ان کا قول ہو سکتا ہے، بخاری کی جو عبارت ہے کہ "مجھے یہ خوش نہیں آتا کہ بیعت عقبہ کے مقابلہ میں میں بدر میں شریک ہوتا "اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شریک بدر نہ تھے۔
اشاعت اسلام کے علاوہ اور بھی متعدد مذہبی خدمتیں انجام دیں، سورۂ یوسفمدینہ منورہ میں سب سے پیشتر انہی نے پہنچائی ،مسجد بنی زریق میں مدینہ کی تمام مسجدوں سے قبل قرآن مجید پڑھا گیا ،اس کے پڑھنے والے یہی بزرگ تھے،بیعت سے واپسی کے وقت آنحضرتﷺ پر مکہ میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا لکھ کر ساتھ لیتے آئے تھے اور اپنی قوم کو جمع کر کے سنایا تھا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ مکہ میں مقیم ہو گئے تھے، جب سورہ طہ نازل ہوئی تو لکھ کر مدینہ لائے،غرض یہ عظیم الشان کارنامے انصار کے اس جلیل المنزلت بزرگ کے تھے،جس نے دولت ایمان کے لازوال خزانے کو سب سے پہلے اپنے آغوش میں جگہ دی ،فنصر اللہ عبد انصر الاسلام بنفسہ ومالہ ودمہ۔
.[5]