ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ(وفات: 13ھ) صحابی رسول کاتب وحی اور مکہ مکرمہ کے خاندان قریش کی سرکردہ شخصیت تھے۔غزوہ خیبر سے قبل مشرف باسلام ہوئے ، غزوہ خیبر کے بعد تمام غزوات نبوی میں شریک ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔
اسلام لانے کے قبل ابان بھی دوسرے اہل خاندان کی طرح آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھے ؛چنانچہ جب ان کے بھائی خالد اور عمرو مشرف بہ اسلام ہوئے تو انھوں نے اشعار میں اظہار ناراضی کیا، جس کا ایک شعریہ ہے۔
الالیت میتا بالظریبہ شاھد لما یفتری فی الدین عمروخالد
(کاش ظریبہ میں موت کی نیند سونے والا دیکھتا کہ عمرو اور خالد نے دین میں کیا افترا کیا ہے)
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں اپنے بھائی عبیدہ اور عاص کے ساتھ لڑنے نکلے، عبیدہ اور عاص مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے ؛لیکن ابان بچ کر نکل گئے۔[3]صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرتصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قریش کے پاس صلح کی گفت وشنید کے لیے بھیجا تو وہ ابان ہی کے یہاں مہمان ہوئے تھے، کیونکہ یہ عثمان غنیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیز تھے اور انھی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی۔
[4]
راہب سے گفتگو
گو وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف تھے تاہم اصل حقیقت کی جستجو رہتی تھی۔ اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارہ میں واقف کاروں سے پوچھا کرتے تھے، اس وقت شام اصحاب علم وخبر کا مرکز تھا، یہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک راہب سے کہا کہ میں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوں، اس قبیلہ کا ایک شخص اپنے کو خدا کا فرستادہ ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ کو بھی خدا نے عیسی علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی بناکر بھیجا ہے۔ راہب نے نام پوچھا، انھوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، راہب نے صحف آسمانی کی رو سے نبی مبعوث کا سن اور نسب وغیرہ بتایا، ابان نے کہا یہ تمام باتیں تو اس شخص میں موجود ہیں، راہب نے کہا تو خدا کی قسم، وہ شخص عرب پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد تمام دنیا پر چھا جائے گا، تم واپس جانا تو خدا کے اس نیک بندے تک میرا سلام پہنچا دینا؛ چنانچہ ابان جب واپس ہوئے تو رنگ بدل چکا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وہ پرخاش باقی نہ رہی۔[5]
اسلام و ہجرت
آبان بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دنوں تک آبائی مذہب کی لاج اور ہم چشموں کی طعنہ زنی کے خیال سے خاموش رہے لیکن زیادہ دنوں تک جذبہ حق نہ دب سکا اور غزوہ خیبر سے پہلے مشرف بی اسلام ہو گئے اور اسلام کے بعد ہی ہجرت کی سعادت بھی حاصل کی۔، [6]
کاتب وحی
ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، [7][8][9]
غزوات
اسلام لانے کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک سریہ کا امیر بناکر نجد روانہ کیا، وہاں سے کامیاب ہوکر واپس ہوئے تو غزوہ خیبر فتح ہو چکا تھا، اسی وقت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین حبش کے ساتھ واپس ہوئے تھے، دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ خیبر کے مال غنیمت سے کچھ ہم لوگوں کو بھی مرحمت ہو، ان میں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں پہلے سے کچھ چشمک تھی، انھوں نے کہا یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو نہ دیجئے، ابان کو غصہ آ گیا بولے پہاڑ کی بھیڑی اتری » (بلی سے چھوٹا ایک جانور)وہ بھی بولی!آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو خاموش کیا۔[10]
نجد کی مہم کے علاوہ ان کو دوسرے سریوں کی امارت بھی عطا کی گئی۔
بحرین کی امارت
علا بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بحرین کے بری اور بحری دونوں حصوں کا عامل مقرر کیا، آپ کی وفات تک یہ اپنے فرائض ذمہ داری سے انجام دیتے رہے ، وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے۔[11]
خلافت صدیقی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت عام کے بعد قریش کے جو چند افراد کچھ دنوں تک ان کی بیعت سے دست کش رہے تھے، ان میں ایک ابان بھی تھے ؛لیکن جب بنو ہاشم نے بیعت کرلی، تو ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوا، صدیق اکبر نے آنحضرتصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عامل کو معزول نہیں کیا تھا، ابان بھی آپ کے مقرر کردہ عامل تھے، اس لیے ان سے دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی ؛لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں آنحضرتصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کا پیش کردہ عہدہ قبول نہیں کر سکتا، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دنوں تک اس عہد پر قائم نہیں رہے اورخلیفۂ اول کے اصرار پر یمن کی گورنری قبول کرلی۔[12]
وفات
زمانہ وفات میں بہت اختلاف ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر عہدِ خلافت 13ھ میں جنگ اجنادین میں شہادت پائی، ابن اسحق کی روایت ہے کہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے، ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عثمان کے عہدِ خلافت تک زندہ تھے اور مصحف عثمانی انھی کی نگرانی میں زید بن ثابت کاتب وحی نے لکھا تھا۔[13]