آثار اثر کی جمع ہے، اس کے متعدد معانی ہیں جن میں سے ایک معنی ہے کسی شے یا خبر کا بقیہ یا باقی ماندہ۔[1]
اصطلاح میں اس سے مراد تبرکات لیے جاتے ہیں اور اکثر سیرت نگاروں نے آثار نبوی کی تعظیم کے عنوان قائم کیے ہیں۔ مثلاً سیرت ابن کثیر میں درج ذیل عنوان سے باب قائم کیا گیا ہے : 《مَا يُذْكَرُ مِنْ آثَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ》[2]
نیز امام بخاری نے ایک باب قائم کیا ہے ۔
《محمدؐ کی زرہ عصا تلوار پیالہ اور انگوٹھی اور آپ کے بعد خلفاء کے عہد میں غیر تقسیم شدہ اشیاء نیز موئے مبارک نعلین شریف اور ان برتنوں کے استعمال کا بیان جن سے آپ کے اصحاب اور دوسرے حضرات آپ کی وفات کے بعد برکت حاصل کرتے تھے۔ 》
حضرت انس نے موئے مبارک، نعلین شریفین اور ایک لکڑی کا پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑاہوا تھاان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔[3]
حوالہ جات
- ↑ موسوعۃ الفقیہ جلد اول،صفحہ 333 اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی انڈیا
- ↑ السيرة النبويہ مؤلف: أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير،ناشر: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزيع بيروت
- ↑ صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،باب ماذکرمن درع النبی