براء بن مالك رضی اللہ تعالیٰ عنہ(وفات:20ھ) بڑے جانباز بہادر تھے،۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت سے قبل مشرف باسلام ہوئے غزوہ بدر کے علاوہ اکثر غزوات میں ایک سو کفار مبارزین کو قتل کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ معرکہ ہنوزیہ میں 20ھ میں شہید ہوئے ۔[1]
نام و نسب
براء نام، انس بن مالک مشہور صحابی کے علاتی بھائی ہیں،ماں کا نام سمحاء تھا،بعض لوگوں نے ان کو انس بن مالک کا حقیقی بھائی قرار دیا ہے، جو صحیح نہیں حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جس قدر اولادیں پیدا ہوئیں، رجال کی کتابوں میں بالتفصیل مذکور ہیں، اس میں برا کا کہیں نام نہیں۔نسب : البراء بن مالک بن النضر بن ضمضم بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم کا تعلق بنو غنم بن عدی بن النجار سے ہے جو خزرج ازدی قبیلے میں سے ایک قبیلہ ہے۔
اسلام
انصار مدینہ منورہ کے سربرآوردہ اشخاص تو مکہ جا کر مسلمان ہو چکے تھے،عام طبقہ ہجرت نبوی سے پیشتر اور بعد تک حلقۂ اسلام میں داخل ہوتا رہا، براء بھی اسی زمانہ میں مسلمان ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے متعلق ایک حدیث میں فرمایا تھا کہ بہت سے پر گندہ مو، غبار آلود جن کی لوگوں میں کوئی وقعت نہیں ہوتی، جب خدا سے قسم کھا بیٹھتے ہیں تو وہ ان کی قسم کو پورا کردیتا ہے اور براء بھی انہی لوگوں میں ہیں، [2] اس بنا پر مسلمانوں کو تستر میں جب ہزیمت ہوئی تو ان کے پاس آئے کہ آج سے قسم کھائیے فرمایا اے خدا میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو فتح دے اور مجھ کو رسول اللہﷺ کی زیارت سے مشرف فرما۔
[3][4]
غزوات
غزوہ بدر میں شریک نہ تھے،غزوہ احد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شرکت کی ، جنگ یمامہ میں جو مسیلمہ کذاب (مدعی نبوت) سے ہوئی تھی، نہایت نمایاں حصہ لیا، حضرت خالدؓ بن ولید سردار لشکر تھے، براء نے کہا کہ تم اٹھو، وہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد مسلمانوں سے کہا مدینہ والو! آج مدینہ کا خیال دل سے نکال دو آج تم کو صرف خدا اور جنت کا خیال رکھنا چاہیے، اس تقریر سے تمام لشکر میں جوش کی ایک لہر پیدا ہو گئی اور لوگ گھوڑوں پر چڑھ چڑھ کر ان کے ساتھ ہو گئے۔
ایک سردار سے براء کا مقابلہ ہوا، وہ بڑے ڈیل ڈول کا آدمی تھا، انھوں نے اس کے پاؤں پر تلوار ماری، وار اگرچہ خالی گیا تھا، لیکن وہ ڈگمگا کر چت گرا انھوں نے اپنی تلوار میان میں رکھی اور لپک کر اس کی تلوار چھین لی اور ایسا صاف ہاتھ مارا کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا۔
اس کے بعد برق وباد کی طرح مرتد ین پر ٹوٹ پڑے اوران کو دھکیل کر باغ کی دیوار تک ہٹادیا، باغ میں مسیلمہ موجود تھا، اہل یمامہ اپنے نام نہاد پیغمبر کے لیے ایک آخری لڑائی لڑے؛ لیکن حقیقی جوش مصنوعی جوش پر غالب رہا، حضرت براء نے مسلمانوں سے کہا لوگو! مجھ کو دشمن کے لشکر میں پھینک دو، وہاں پہنچ کر ایک فیصلہ کن جنگ کی اور باغ کی دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کود گئے، حامیان مسیلمہ آمادہ کار زار ہوئے ،انھوں نے موقع پاکر جلدی سے دروازہ کھول دیا اور اسلامی لشکر فاتحانہ باغ میں داخل ہو گیا اور مسیلمہ کذاب کی جماعت کو شکست فاش دی۔
اس جانبازی سے بدن چھلنی ہو گیا تھا 800 سے زائد تیر اور نیزہ کے زخم لگے تھے، سواری پر خیمہ میں لائے گئے، ایک مہینہ تک علاج ہوتا رہا، اس کے بعد شفا پائی،حضرت خالدؓ بن ولید علالت کے پورے زمانہ تک ان کے ہمراہ رہے۔
حریق کے معرکہ میں جو عراق میں ہوا تھا، نہایت جانبازی دکھائی، شہر کے ایک قلعہ پر حملہ کرنا تھا، دشمنوں نے آگ میں تپی ہوئی کانٹے دار زنجیریں دیوار پر ڈال رکھی تھیں جب کوئی مسلمان دیوار کے قریب پہنچتا تو اس کو زنجیر کے ذریعہ اوپر اٹھا لیتے تھے،حضرت انسؓ دیوار پر چڑھنے کے لیے پہنچے، تو قلعہ والوں نے ان کو بھی زنجیر سے اٹھانا چاہا، وہ اوپر کھینچ رہے تھے کہ براء کی نظر پڑ گئی، فوارً دیوار کے پاس آئے اور زنجیر کو اس زور سے جھٹکا دیا کہ اوپر کی رسی ٹوٹ گئی اور حضرت انسؓ نیچے گرے، زنجیر پکڑنے سے حضرت براءؓ بن مالک کے ہاتھ کا تمام گوشت نچ گیا تھا اور ہڈیاں نکل آئی تھیں۔
تستر(فارس) کے معرکہ میں وہ میمنہ کے افسر تھے، انھوں نے تنہا 100 آدمی قتل کیے اور جو شرکت میں مارے گئے ان کا حدو شمار نہیں۔
[5][6]
وفات
ہنوزیہ معرکہ جاری تھا اور قلعہ فتح نہ ہوا تھا کہ ایک دن حضرت انسؓ ان کے پاس گئے، وہ گانے میں مشغول تھے، کہا کہ خدا نے آپ کو اس سے اچھی چیز عطا فرمائی ہے (یعنی قرآن) اس کو لحن سے پڑھیے فرمایا شاید آپ کو یہ خوف ہے کہ کہیں بستر پر میرا دم نہ نکل جائے، لیکن خدا کی قسم ایسا نہ ہوگا، میں جب مروں گا تو میدان میں مروں گا ۔
آنحضرتﷺ نے ان کے متعلق ایک حدیث میں فرمایا تھا کہ بہت سے پر گندہ مو، غبار آلود جن کی لوگوں میں کوئی وقعت نہیں ہوتی، جب خدا سے قسم کھا بیٹھتے ہیں تو وہ ان کی قسم کو پورا کردیتا ہے اور براء بھی انہی لوگوں میں ہیں، اس بنا پر مسلمانوں کو تستر میں جب ہزیمت ہوئی تو ان کے پاس آئے کہ آج سے قسم کھائیے فرمایا اے خدا میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو فتح دے اور مجھ کو رسول اللہﷺ کی زیارت سے مشرف فرما۔
اس کے بعد فوج لے کر خود حملہ کیا،زرارہ کامرزبان کہ سلطنت فارس کے چیدہ امرا میں تھا، مقابلہ پر آیا، انھوں نے اس کو قتل کرکے سامان پر قبضہ کر لیا اور نہایت جوش سے مارتے دھاڑتے پھاٹک تک پہنچے، عین پھاٹک پر ہرمزان کا سامنا ہوا، دونوں میں پر زور مقابلہ ہوا اور براء شہید ہوئے،لیکن میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا 20ھ کا واقعہ ہے۔
اخلاق و عادات
براء بن مالک انتہا درجہ کے جری اور بہادر تھے، عمر فاروقرضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وجہ سے ان کو کسی فوج کا افسر نہیں بناتے تھے اور افسران کو لکھتے کہ خبردار!براء کو امیر نہ بنانا ،وہ آدمی نہیں بلا ہیں سامنے ہی جائیں گے۔
گانے کا بہت شوق تھا اور آواز اچھی پائی تھی،ایک سفر میں رجز پڑھ رہے تھے آنحضرتﷺ نے فرمایا ،ذرا عورتوں کا خیال کرو ، اس پر انھوں نے سکوت اختیار کر لیا۔[7]
فضل و کمال
حضرت براءؓ آنحضرتﷺ کے مخصوص صحابہ میں تھے وہ برسوں بساطِ نبوت کے حاشیہ نشیں رہے،سینکڑوں ہزاروں حدیثیں سنی ہوں گی ،لیکن تعجب یہ ہے کہ ان کی روایت کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا، مصنف استیعاب لکھتے ہیں:
کان البراء بن مالک احدا الفضلاء (براء فضلأ صحابہ میں تھے)
[8]
شاید جہاد کی مصروفیت بیان کرنے سے مانع رہی ہو۔
[6][9] كما عُرف عن البراء حُسن صوته،[10] فكان يحدو جمل النبي[5] يرجز لها في بعض أسفاره،[11]
حوالہ جات
↑مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ486نعیمی کتب خانہ گجرات
↑أبو نعيم الأصبهاني۔ معرفة الصحابة۔ الأول۔ دار الوطن۔ صفحہ: 380الوسيط |المجلد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مؤلف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحة= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |عنوان= تم تجاهله (معاونت)