شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ (وفات: 3ھ) بڑے خوبصورت مہاجر صحابی غزوہ بدر میں شریک تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی میں مشرف باسلام ہو گئے تھے ۔حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے۔پھر مدینہ کی ہجرت شامل ہوئے ۔غزوہ بدر لڑی اور غزوہ احد میں شہادت نوش فرمائی۔
نام و نسب
شماس نام ، والد کا نام عثمان اور والدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے:
شماس بن عثمان بن الشرید بن ہرمی بن عامر بن مخزوم القرشی المخزومی
ان کا اصلی نام عثمان تھا، شماس اس لیے نام پڑا کہ ایک دفعہ ایام جاہلیت میں ایک نہایت حسین وجمیل نصرانی جس کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا تھا مکہ آیا، لوگ اس کے غیر معمولی حسن وجمال پر سخت متعجب تھے، عتبہ بن ربیعہ نے(جو شماس کا ماموں تھا دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اس سے بہتر شماس یعنی رخ تاباں موجود ہے اور مقابلہ میں ابن عثمان کو پیش کیا، چنانچہ اس دن سے ان کا نام ہی شماس ہو گیا۔
[1]
اسلام
شماس بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ صفیہ بنت ربیعہ نے بھی ابتدا ہی میں دعوتِ توحید پر صدائے لبیک بلند کیا تھا۔
[2]
غزوۂ بدر و غزوہ اُحد میں جانبازی سے لڑے معرکہ احد میں جب کہ اتفاقاً جنگ کا پانسا پلٹ گیا، غازیانِ اسلام کی فتح شکست سے بدل گئی اور صرف چند جان نثار میدان میں رہ گئے تو شماس بھی انھی پروانوں میں تھے جو شمع نبوت کے ارد گرد فداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے، آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں شماس کے لیے "سپر" کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا، آپ چپ وراست جس طرف دیکھتے شماس ہی سربکف نظر آتے، غرض انھوں نے اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کے لیے سپر بنادیا، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر گئے، اختتامِ جنگ کے بعد دیکھا گیا تو دمِ واپسیں کے چند انفاس باقی تھے، آنحضرتﷺ کے حکم سے مدینہ اٹھاکر لائے گئے، ام سلمہ ان کی تیمار داری پر مامور ہوئیں، چند دنوں بعد فوت ہوئے آنحضرتﷺ نے ان کو اسی خونیں پیراہن کے ساتھ بغیر جنازہ اُحد کے گورِ شہیداں میں دفن کرنے کا حکم دیا،[4] غرض چونتیس برس کی عمر میں سپرد خاک ہوئے ،[5][6][7][8]
حلیہ
حضرت شماسؓ بن عثمان نہایت حسین وخوبرو تھے، چنانچہ اس تابانی رخ نے ان کو شماسؓ کے نام سے مشہور کیا۔
[9]
اولاد
حضرت شماس بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک لڑکا عبد اللہ اور ایک لڑکی ام حبیب یاد گار چھوڑی، لیکن یہ دونوں لاولد فوت ہوئے اس لیے سلسلہ نسل منقطع ہو گیا۔
[10][11]