سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام تھے۔ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے متحدہ اسرائیل پر 970 قبل از مسیح سے لے کر 931 قبل از مسیح تک حکومت کی۔ ان کے بعد ملک اسرائیل کے دو حصے (شمالی اور جنوبی) ہو گئے۔
سلیمان کا سلسلہ نسب یہودا (اولاد یعقوب) کے واسطے سے یعقوب سے جا ملتا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے۔
سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔
داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کر رکھے تھے۔
آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے،
ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ یعنی صبح اور شام مختلف سمتوں کو ایک ایک ماہ کا فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔
سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ
آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔
سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی۔ جن دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ یہ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔
ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو آزمائش میں ڈال دیا۔ آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر اسم اعظم کندہ تھا، اس انگوٹھی کی بدولت آپ جن و انس پر حکومت کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ انگوٹھی کسی وجہ سے گم ہو گئی اور شیطان کے ہاتھ آگئی۔ چنانچہ آپ تخت و سلطنت سے محروم ہو گئے، ایک مدت کے بعد وہ انگوٹھی شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرپڑی، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا، وہ مچھلی سلیمان علیہ السلام نے پکڑ لی، جب اس کو چیرا گیا تو انگوٹھی اس کے پیٹ سے مل گئی اور اسی طرح آپ کو دوبارہ سلطنت اور حکومت مل گئی۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کہ وہ انگوٹھی کی بدولت حکومت کرتے تھے۔ حکومت ان کو اللہ نے اپنے فضل خاص سے دی تھی۔
نسب
حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں۔ اس لیے ان کا نسب بھی یہودا کے واسطہ سے حضرت یعقوب (اسرائیل) (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔
ان کی والدہ ماجدہ کا نام معلوم نہیں ہو سکا ‘ توراۃ نے بنت سبع نام بتایا ہے لیکن اس طرح کہ وہ اول حتی اور یاہ کی بیوی تھی اور پھر داؤد (علیہ السلام) کی بیوی بنی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس سے پیدا ہوئے۔ مگر اس قصہ کی لغویت واقعہ داؤد علیہ السلام میں واضح ہو چکی ہیں اس لیے یہ نام بھی تاریخی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں صرف اس قدر منقول ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کی والدہ نے ایک دفعہ سلیمان (علیہ السلام) کو یہ نصیحت فرمائی : بیٹا رات بھر نہ سوتے رہا کرو اس لیے کہ رات کے اکثر حصہ کو نیند میں گزارنا انسان کو قیامت کے دن اعمال خیر سے محتاج بنا دیتا ہے۔
قرآن عزیز نے بھی صرف اسی قدر بتایا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے واسطہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں :
{ وَ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَط کُلًّا ھَدَیْنَاج وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ } [1] ” اور ہم نے اس (ابراہیم) کو بخشے اسحاق و یعقوب ‘ ہم نے ہر ایک کو ہدایت دی اور نوح کو ہدایت دی اس (ابراہیم ) سے پہلے اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو ہدایت دی۔ “
{ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَ } [2]
” اور ہم نے داؤد کو سلیمان دیا۔ “
قرآن عزیز اور ذکر سلیمان علیہ السلام
قرآن عزیز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر سترہ جگہ آیا ہے ان میں سے چند جگہ کچھ تفصیل کے ساتھ ذکر ہے اور اکثر جگہ مختصر طور پر ان انعامات اور فضل و کرم کا تذکرہ ہے جو خدا کی جانب سے ان پر اور ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوتے رہے۔
ذیل کا نقشہ اس سلسلہ کے مطالعہ کے لیے مفید ہے :
بقرہ ۔ ١٠٢ ۔ (٢ مرتبہ) ٢
نمل۔ ١٥۔ ١٦۔ ١٧۔ ١٨۔ ٢٠۔ ٣٦۔ ٤٤۔ ٧
نساء۔ ٦٣۔ ١
سبا۔ ١٢۔ ١
انعام۔ ٨٤۔ ١
ص۔ ٣٠۔ ٣٤۔ ٢
انبیا ۔ ٧٨۔ ٧٩۔ ٨١ ۔ ٣
ٹوٹل۔ ١٧
بچپن
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) میں ذکاوت اور فصل مقدمات میں اصابت رائے کا کمال فطرت ہی سے ودیعت کر دیا تھا چنانچہ ان کے بچپن کا وہ واقعہ اس کے لیے روشن برہان ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعات کے ضمن میں قرآن عزیز سے نقل کیا جا چکا ہے۔
حضرت داؤد نے ان کے اس جوہر کو پہچان لیا تھا اس لیے بچپن ہی سے ان کو امور مملکت میں شریک کار رکھتے تھے۔ خصوصاً فصل مقدمات میں ان سے ضرور مشورہ فرما لیا کرتے تھے۔
وراثت داؤد (علیہ السلام)
مورخین کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچ چکے تھے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت اور حکومت دونوں میں داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنادیا اور اس طرح فیضان نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضہ میں آگئی۔ قرآن عزیز نے اسی جانشینی کو وراثت داؤد (علیہ السلام) سے تعبیر کیا ہے :
{ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ } [3]
” اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا۔ “
ابن کثیر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کہتے ہیں کہ یہاں وراثت سے نبوت و سلطنت کی وراثت مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں ہے ورنہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اور بھی بہت سی اولاد تھی وہ کیوں محروم رہتی نیز صحاح ستہ میں متعدد جلیل القدر صحابہ سے یہ روایت منقول ہے :
آیت ” وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمَانِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ “ [4] کی جانب اشارہ ہے۔
( (ان رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال نحن معشر الانبیاء لا نورث ماترکنا فھو صدقۃ۔۔ الحدیث) )
” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم جماعت انبیا کی وراثت مالی کا سلسلہ نہیں چلتا اور ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوجاتا ہے۔ “
یہ روایت صراحت کرتی ہے کہ انبیا (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا بلکہ وہ مساکین اور فقراء کا حق ہے اور خدا کے نام پر صدقہ ہے۔
دراصل نبی کی فطرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مال جیسی حقیر شے پر ان کی وراثت کا انتساب ہو۔ اس لیے کہ جن ہستیوں کا مقصد حیات تبلیغ و ارشاد اور راہ خدا کی دعوت ہو وہ کب یہ گوارا کرسکتی ہیں کہ علوم و فیوض نبوت کے علاوہ ایک ادنیٰ شے ان کی وراثت قرار پائے ‘ اس لیے بربنا بشریت بقائے حیات کے لیے وہ جو کچھ مال کی صورت میں رکھتے تھے پس مردن صرف خدا کی ملکیت ہوجانا چاہیے جو فقراء اور مساکین ہی کا حصہ ہو سکتا ہے نہ کہ اس اولوالعزم ہستی کے نسل و خاندان کا۔
نبوت
جن انبیا ورسل کی صحیح تاریخ منضبط ہے اس سے اور قرآن عزیز کی بعض آیات کی صراحت سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس ہستی کو شرف نبوت سے سرفراز کرتا ہے اس کو یہ منصب جلیل سن رشد کے بعد عطا فرماتا ہے تاکہ وہ دنیوی اسباب کے لحاظ سے بھی عمر طبعی کا وہ حصہ طے کرلے جس میں عقل و تجربہ پختگی اختیار کرلیتے ہیں اور اس حد پر پہنچ کر استعداد کے مطابق انسانوں کے قوائے فکری و عملی میں استواری اور استقامت پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ یہ سنت اللہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حق میں بھی کار فرما رہی اور سن رشد کے بعد ان کو حکومت و خلافت کے ساتھ ساتھ ” منصب نبوت “ بھی منجانب اللہ عطا ہوا :
{ اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ } [5]
” بیشک ہم نے (اے محمد) تیری طرف وحی بھیجی جس طرح ہم نے نوح کی جانب وحی بھیجی اور اس کے بعد دوسرے پیغمبروں کی طرف وحی بھیجی اور ابراہیم کی جانب ‘ اسماعیل کی ‘ اسحاق کی ‘ یعقوب کی اور اس کی اولاد کی جانب ‘ اور عیسیٰ کی اور ایوب کی اور یونس کی اور ہارون کی اور سلیمان کی جانب وحی بھیجی۔ “
{ وَ کُلًّا اتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا } [6]
” اور (داؤد سلیمان) ہر ایک کو ہم نے حکومت دی اور علم (نبوت) دیا۔ “
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا } [7]
” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم (نبوت کا علم) دیا۔ “
خصائصِ سلیمان (علیہ السلام)
پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی بعض خصوصیات اور امتیازات سے نوازا اور اپنی نعمتوں میں سے بعض ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جو ان کی زندگی مبارک کا طغرائے امتیاز بنیں۔
منطق الطیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں کو یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ وہ چرند و پرند کی بولیاں سمجھ لیتے تھے اور دونوں بزرگوں کے لیے ان کی آوازیں ایک ناطق انسان کی گفتگو کی طرح تھیں۔
قرآن عزیز نے سلیمان (علیہ السلام) کے اس شرف کا اس طرح ذکر کیا ہے :
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًاج وَّقَالَا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ ٓیاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ } [8] ” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو ” علم “ دیا اور ان دونوں نے کہا : حمد اللہ کیلئے ہی زیبا ہے جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت عطا فرمائی اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور اس نے کہا : اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہم کو ہر چیز بخشی گئی ہے ‘ بیشک یہ (خدا کا) کھلا ہوا فضل ہے۔ “
اس مقام پر ” منطق الطیر “ کا جس اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھ کر یہ بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ”وہ اپنے قیاس وتخمین کے ذریعہ ان کی مختلف قسم کی آوازوں سے صرف ان کے مقصد اور مراد کو سمجھ لیتے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہ تھا “
اس لیے کہ قیاس وتخمین کا یہ درجہ تو بکثرت لوگوں کو حاصل ہے اور وہ پالتو جانوروں کی بھوک پیاس کے وقت کی آواز ‘ خوشی اور مسرت کی آواز ‘ مالک کو قریب دیکھ کر اظہار وفاداری کی آواز اور دشمن کو دیکھ کر خاص طرح سے پکارنے کی آواز کے درمیان بخوبی فرق سمجھتے اور ان کے ان مقاصد کو بآسانی ادراک کرلیتے ہیں۔ نیز ” منطق الطیر “ سے وہ علم بھی مراد نہیں ہو سکتا جو جدید علمی دور میں ظن وتخمین کی راہ سے بعض جانوروں کی گفتگو کے سلسلہ میں ایجاد ہوا ہے اور جو زولوجی کا ایک شعبہ شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ محض اٹکل کا تیر ہے جو مسطورہ بالا تجربہ کے بعد کمان علم سے نکلا ہے اور اس کو علم بمرتبہ یقین کہنا خود واضعین علم الحیوانات کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایک اکتسابی فن ہے جو ہر شخص کو تھوڑی سی محنت کے ساتھ حاصل ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کے اس علم کے لیے قرآن عزیز کو اس قدر اہم پیرایہ بیان کی ضرورت نہیں تھی۔
قرآن عزیز نے جس انداز میں اس کا ذکر کیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شکریہ کے انداز بیان کو نقل کیا ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے یہ ایسی عظیم الشان نعمت تھی جس کو نشان (معجزہ) کہا جاتا ہے اور وہ بلاشبہ پرندوں کی بولیاں انسان ناطق کی گفتگو کی طرح سمجھتے تھے اور یقیناً ان کا یہ علم اسباب دنیوی سے بالاتر خاص قوانین قدرت کے فیضان کا نتیجہ تھا۔
لہٰذا عقل اس بارے میں صرف یہیں تک جا سکتی ہے کہ اس کے نزدیک یہ محال بات نہیں ہے کیونکہ لغت اور عقل دونوں کے لحاظ سے ” نطق “ کے لیے صرف صوت کا ہونا کافی ہے اور اس کے لیے انسانوں کی طرح گویائی ضروری نہیں ہے اور چرند و پرند کی بولیوں میں صوت اور صوت کا نشیب و فراز دونوں موجود ہیں۔ پس منطق الطیر ایسی بخشش اور موہبت تھی جس کو خدا کا نشان کہنا چاہیے اور جو انھی جیسی پاک ہستیوں کے لیے مخصوص ہے۔
قاضی بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) کے اور ہمارے درمیان ” منطق الطیر “ کی تفسیر سے متعلق اس پر تو اتفاق ہے کہ حضرت سلیمان اور حضرت داؤد (علیہ السلام) حیوانات کی بولیاں جس طریقے سے یقینی طور پر سمجھ لیا کرتے تھے وہ عام علمی تدوین سے جدا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو بطور نشان کے عطا ہوا تھا البتہ اس کی تفصیل میں یہ فرق ہے کہ قاضی بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) کے نزدیک حیوانات کی بولیاں مختلف کیفیات کی صورت میں تخیل کی مدد سے سمجھی جاتی ہیں اور اس کا یقینی درجہ کسب کے ذریعہ سے نہیں بلکہ موہبت الٰہی سے حاصل ہوتا ہے جو حضرت داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو حاصل تھا اور ہمارے نزدیک دونوں اولو العزم پیغمبر ان کی بولیاں اس طرح سنتے تھے جس طرح انسان کی گفتگو خواہ اس لیے کہ یہ صرف معجزہ تھا جو ان کے ہاتھ پر دکھلایا گیا اور عام طور پر ان کی بولیاں محض کیفیات صوت سے پہچانی جاتی ہیں 1 اور خواہ یہ ہو کہ حقیقتاً ان کی صوت بھی ایسا درجہ رکھتی ہے جس سے وہ صاف صاف ایک دوسرے کو اپنا مطلب سمجھاتے اور سمجھتے ہیں لیکن وہ انسانی نطق سے بہت کمزور درجہ کا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ہدہد کے مکالمہ کو جس انداز میں قرآن نے بیان کیا ہے وہ میری توجیہ کی تائید کرتا ہے۔ حاشیہ 1 علما علم الحیوانات کہتے ہیں کہ ٹیلی گراف کی صوتی حرکات کی طرح جانوروں کی بولیاں بھی باہم بولی اور سمجھی جاتی ہیں اور ان میں آواز کے زیرو بم کو بھی دخل ہے اور مکرر سہ کر راداء کو بھی۔ بلکہ کہنا یوں چاہیے کہ تار کے گٹ ‘ گر کے ایجاد کا تخیل حیوانوں کی آواز سے ہی ماخوذ ہے۔
تسخیر ریاح
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت حقہ کے خصوصی امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ہوا “ کو ان کے حق میں مسخر کر دیا تھا اور وہ ان کے زیرفرمان کردی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب چاہتے تو صبح کو ایک مہینہ کی مسافت اور شام کو ایک مہینہ کی مسافت کی مقدار سفر کرلیتے تھے۔
قرآن عزیز نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس شرف کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں : ایک یہ کہ ” ہوا “ کو سلیمان (علیہ السلام) کے حق میں مسخر کر دیا گیا۔ دوسری یہ کہ ” ہوا “ ان کے حکم کے اس طرح تابع تھی کہ شدید اور تیزو تند ہونے کے باوجود ان کے حکم سے ” نرم “ اور آہستہ روی کے باعث ” راحت رساں “ ہوجاتی تھی۔ تیسری بات یہ کہ نرم رفتاری کے باوجود اس کی تیز روی کا یہ عالم تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا صبح و شام کا جدا جدا سفر ایک شہسوار کی مسلسل ایک ماہ کی رفتار مسافت کے مساوی ہوتا تھا۔ گویا تخت سلیمان (علیہ السلام) انجن اور مشین جیسے اسباب ظاہر سے بالاتر صرف خدائے تعالیٰ کے حکم سے ایک بہت تیز رفتار ہوائی جہاز سے بھی زیادہ تیز مگر سبک روی کے ساتھ ہوا کے کاندھے پر اڑا چلا جاتا تھا۔
ایک فطرت پرست انسان کی نگاہ میں یہ بات بہت کھٹکتی ہے ‘مگر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جبکہ عقل و فکر کے نزدیک یہ مسلمات میں سے ہے
کہ انسان کے قوائے فکری و عملی کے درمیان اس درجہ تفاوت ہے کہ ایک شخص جس شے کو اپنی عقل سے کرتا اور اس کا کرنا آسان سمجھتا ہے۔
دوسرا شخص اسی شے کو ناممکن اور محال یقین کرتا ہے تو اسی اصول پر ان کو یہ تسلیم کرنے میں کیوں انکار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عام قوانین قدرت کے پیش نظر کائنات کی اشیاء کو اسباب کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے ‘اسی طرح اس کے کچھ خاص قوانین قدرت اور نوامیس فطرت بھی ہیں جو ایسے امور کے لیے مخصوص ہیں جیسا کہ امر زیر بحث ہے اور نفوس قدسیہ (انبیا (علیہ السلام)) کو ان کا اسی طرح یقینی علم حاصل ہوتا ہے جس طرح اسباب کے ذریعہ مسببات کے وجود کا علم عام عقلاء کو حاصل ہے اور موجودہ دنیوی علوم کی دسترس اس علم تک نہیں ہے لہٰذا جب ایسے امور کے وقوع کی اطلاع علم الیقین (وحی الٰہی) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے تو محض ظن وتخمین اور عقل کے استبعاد کی وجہ سے ایک حقیقت ثابتہ کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے اور اگر ہم کو ایک شے کا علم نہیں ہے تو یہ کیسے لازم آجاتا ہے کہ وہ شے حقیقتاً بھی موجود نہیں ہے ؟
لہٰذا جادہ مستقیم یہ ہے کہ واقعہ تسخیر ریاح اور مسافت رفتار کو بغیر کسی تاویل کے صحیح تسلیم کیا جائے البتہ اس مقام پر تخت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے صبح و شام سفر کے متعلق جو تفصیلات سیرت کی کتابوں اور تفسیروں میں منقول ہیں وہ سب اسرائیلیات کا ذخیرہ ہیں اور لا طائل تفصیلات ہیں اور تعجب ہے ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) جیسے محقق پر کہ اس جگہ وہ بھی ان روایات کو اس طرح نقل فرما رہے ہیں گویا ان کے نزدیک وہ مسلمات میں سے ہیں ‘ حالانکہ تاریخی اعتبار سے ان پر بہت سے صحیح اشکالات وارد ہوتے ہیں۔ قرآن عزیز نے تو اس کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا ہے :
{ وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْئٍ عٰلِمِیْنَ } [9] ” اور مسخر کردیا سلیمان کیلئے تیز و تند ہوا کو کہ اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس کو ہم نے برکت دی تھی اور ہم ہر شئے کے جاننے والے ہیں۔ “
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْرٌ} [10]
” اور سلیمان کے لیے مسخر کر دیا ہوا کو کہ صبح کو ایک مہینہ کی مسافت (طے کراتی) اور شام کو ایک مہینہ کی مسافت۔ “
{ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ } [11]
” اور مسخر کر دیا ہم نے اس (سلیمان) کے لیے ہوا کو کہ چلتی ہے وہ اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ جہاں وہ پہنچنا چاہے۔ “
تسخیر جن و حیوانات
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا ایک بڑا امتیاز جو کائنات میں کسی کو نصیب نہیں ہوا ‘ یہ تھا کہ ان کے زیر نگیں صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور یہ سب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حاکمانہ اقتدار کے تابع اور زیر حکم تھے۔
بعض ملاحدہ نے ” انکار معجزہ “ اور ” انکار جن “ کے شوق میں ان جیسے دیگر مقامات کی طرح یہاں بھی عجیب مضحکہ خیز باتیں کہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو اس زمانہ میں بہت قوی ہیکل اور دیو پیکر تھی اور سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ کسی کے قابو میں نہ آتی تھی اور تسخیر حیوانات کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سلسلہ کا ذکر صرف ہدہد سے متعلق ہے اور یہاں ہدہد پرند مراد نہیں ہے بلکہ ایک شخص کا نام ہدہد تھا جو پانی کی تفتیش پر مقرر تھا اور زمانہ طویل سے لوگوں میں رسم چلی آتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے نام ان حیوانات کے نام پر رکھتے تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ چنانچہ آج اس کو ایک مستقل علم کی حیثیت دے دی گئی ہے جو ٹوٹیزم کے نام سے موسوم ہے۔
اس قسم کی رکیک تاویل کرنے والے یا تو جذبہ الحاد میں قصداً تحریف کے لیے جرأت بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں اور یا قرآن عزیز کی تعلیم سے نا آشنا ہونے کے باوجود دعوی بے دلیل پر اصرار کرتے ہیں۔قرآن عزیز نے ” جن “ کے متعلق جگہ جگہ بصراحت یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بھی انسانوں سے جدا خدا کی ایک مخلوق ہے۔ چنانچہ ہم تفصیل کے ساتھ قصص القرآن جلد اول میں اس پر بحث کر آئے ہیں اور یہاں صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں جو اس بارے میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہے :
{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [12]
” اور ہم نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کے طاعت گزار ثابت ہوں۔ “
اس آیت میں جن کو انسان سے جدا مخلوق ظاہر کر کے دونوں کی تخلیق کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا اس آیت کو پیش نظر رکھنے کے بعد یہ کہنا کہ ” جن “ انسانوں ہی میں سے ایک قوی ہیکل قوم کا نام ہے جہالت ہے علم نہیں ہے۔
اسی طرح جبکہ ہدہد کے واقعہ میں قرآن عزیز نے صاف صاف اس کو پرند کہا ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے خلاف لچر تاویل کی پناہ لے۔ قرآن عزیز میں ہے :
{ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ } [13]
” اور سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا : یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا وہ غائب ہے ؟ “
غرض سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ بے مثل شرف عطا فرمایا کہ ان کی حکومت انسانوں کے علاوہ جن ‘ حیوانات اور ہوا پر بھی تھی اور یہ سب بحکم خدا ان کے حکم کے تابع اور مطیع تھے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ درگاہ الٰہی میں یہ دعا کی :
{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ } [14] ” اے پروردگار مجھ کو بخش دے اور میرے لیے ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کیلئے بھی میسر نہ ہو۔ بیشک تو بہت دینے والا ہے۔ “
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ایک ایسی عجیب و غریب حکومت عطا فرمائی کہ نہ ان سے پہلے کسی کو نصیب ہوئی اور نہ ان کے بعد کسی کو میسر آئے گی۔
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے منقول ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ارشاد فرمایا : گذشتہ شب ایک سرکش جن نے اچانک یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے مگر خدائے تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد آگئی کہ انھوں نے خدائے تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا :
{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ } [15]
یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو ذلیل کر کے چھوڑ دیا۔ ١ ؎ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد : ( (فذکرت دعوۃ اخی سلیمن))
کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خدائے تعالیٰ نے مجھ میں کل انبیا ورسل کے خصائص و امتیازات جمع کر دیے ہیں اور اس لیے تسخیر قوم جن پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن جبکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس اختصاص کو اپنا طغرائے امتیاز قرار دیا ہے تو میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ مناسب نہیں سمجھا۔
بیت المقدس کی تعمیر
حق تعالیٰ نے ” جن “ کو ایسی مخلوق بنایا ہے جو مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت کام انجام دے سکتی ہے۔ اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ ارادہ فرمایا کہ مسجد (ہیکل) کے چہار جانب ایک عظیم الشان شہر آباد کیا جائے اور مسجد کی تعمیر بھی ازسر نو کی جائے ‘ ان کی خواہش یہ تھی کہ مسجد اور شہر کو بیش قیمت پتھروں سے بنوائیں اور اس کے لیے بعید سے بعید اطراف سے حسین اور بڑے بڑے پتھر منگوائیں۔
ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے رسل و رسائل کے محدود اور مختصر وسائل سلیمان (علیہ السلام) کی خواہش کی تکمیل کے لیے کافی نہیں تھے اور یہ کام صرف ” جن “ ہی انجام دے سکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے ” جن “ ہی سے یہ خدمت لی۔ چنانچہ وہ دور دور سے خوبصورت اور بڑے بڑے پتھر جمع کر کے لاتے اور بیت المقدس کی تعمیر کا کام انجام دیتے تھے۔
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئی ہے ‘لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ بخاری اور مسلم کی صحیح مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو زر غفاری (رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا :
یارسول اللہ ! دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام ‘ ابوذر (رضی اللہ عنہ) نے پھر دریافت کیا : اس کے بعد کون سی مسجد عالم وجود میں آئی آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ ۔ ابو زر (رضی اللہ عنہ) نے تیسری مرتبہ سوال کیا کہ ان دونوں کی درمیانی مدت کس قدر ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ حالانکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بانی مسجد حرام کے درمیان ایک ہزار سال سے بھی زیادہ مدت کا فاصلہ ہے۔ اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مسجد حرام کی بنیاد رکھی اور وہ مکہ کی آبادی کا باعث بنی اسی طرح حضرت یعقوب (اسرائیل) (علیہ السلام) نے مسجد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس کی آبادی وجود میں آئی پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر کی تجدید کی گئی اور جنوں کی تسخیر کی وجہ سے بے نظیر اور شاندار تعمیر عالم وجود میں آئی جو آج تک لوگوں کے لیے باعث حیرت ہے کہ ایسے دیو پیکر پتھر کہاں سے لائے گئے ‘ کس طرح لائے گئے اور جر ثقیل کے وہ کون سے آلات تھے جن کے ذریعہ ان کو ایسی بلندیوں پر پہنچا کر باہم اتصال پیدا کیا گیا۔
قوم جن نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے بیت المقدس کے علاوہ اور بھی تعمیرات کیں اور بعض ایسی چیزیں بنائیں جو اس زمانہ کے لحاظ سے عجیب و غریب سمجھی جاتی تھیں۔ چنانچہ قرآن عزیز میں ہے :
{ وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَج وَ کُنَّا لَھُمْ حٰفِظِیْنَ } [16]
” اور شیطانوں (سرکش جنوں) میں سے ہم نے مسخر کر دیے وہ جو اس (سلیمان) کے لیے سمندروں میں غوطے مارتے (یعنی) بیش قیمت بحری اشیاء نکالتے اور اس کے علاوہ اور بہت سے کام انجام دیتے اور ہم ان کے لیے نگران اور نگہبان تھے۔ “
{ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَ مَنْ یَّزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍرّٰسِیٰتٍط اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ۔ } [17]
” اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خدمت انجام دیتے تھے اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کجروی کرے ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا تھا ‘ قلعوں کی تعمیر ‘ ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں اے آل داؤد ! شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔ “
{ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } [18]
” اور اکٹھے کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں میں سے انسانوں میں سے پرندوں میں سے اور وہ درجہ بدرجہ کھڑے کیے جاتے ہیں۔ “
{ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآئٍ وَّغَوَّاصٍ ۔ وَّ اخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ ۔ ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ } [19]
” اور مسخر کر دیے سلیمان کے لیے شیطان (سرکش جن) ہر قسم کے کام کرنے والے ‘ عمارت بنانے والے ‘ دریا میں غوطہ لگانے والے اور وہ (سرکش سے سرکش) جو جکڑے ہوئے ہیں زنجیروں میں۔ یہ ہماری بخشش و عطا ہے ‘ چاہے اس کو بخش دو یا روکے رکھو ‘ تم سے اس کا کوئی مواخذہ نہیں۔ “
حضرت شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایسے عظیم الشان احسانات کیے اور پھر یہاں تک فرمایا کہ اس بے انتہا دولت و ثروت کے صرف وخرچ ‘ داد و دہش اور روک کر رکھنے میں تم سے کوئی بازپرس بھی نہیں ہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس دولت و حکومت کو مخلوق خدا کی خدمت کے لیے ” امانت الٰہی “ سمجھ کر ایک حبہ بھی اپنی ذات پر صرف نہیں فرماتے بلکہ اپنی روزی ٹوکریاں بنا کر حاصل کرتے تھے۔
بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) نے اس مقام پر یہ اسرائیلی روایت نقل کی ہے کہ قوم جن نے تخت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کاریگری سے بنایا تھا کہ تخت کے نیچے دو زبردست اور خونخوار شیر کھڑے تھے اور دوگدھ (نسر) معلق تھے اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) تخت حکومت پر جلوہ افروز ہونے کے لیے تخت کے قریب تشریف لے جاتے تو دونوں شیر اپنے بازو پھیلا کر بیٹھ جاتے اور تخت نیچا ہوجاتا اور وہ بیٹھ جاتے تو شیر پھر کھڑے ہوجاتے اور فوراً ہیبت ناک گدھ اپنے پروں کو پھیلا کر سر مبارک پر سایہ فگن ہوجاتے تھے۔ اسی طرح انھوں نے پتھر سے بڑی اور بھاری دیگیں بنائی تھیں جو چولہوں پر قائم تھیں اور اپنی ضخامت کی وجہ سے حرکت میں نہیں آتی تھیں اور بڑے بڑے حوض پتھر تراش کر بنائے تھے اور شہر بیت المقدس اور ہیکل (مسجد اقصیٰ ) اور ان سب اشیاء کی تعمیر اور کاریگری میں صرف سات سال لگے تھے۔ [20]
توراۃ میں متعدد جگہ ان تعمیری خدمات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے :
” اور یہی باعث ہے جس سے سلیمان بادشاہ نے لوگوں سے بیگارلی کہ خداوند کا گھر (مسجد اور شہر یروشلم) اور اپنا قصر (قصر سلیمان) اور (شہر) ملو اور یروشلم کی شہر پناہ اور (شہر) حاصور اور مجدد اور جاذر بھی بنائے۔۔ سو سلیمان نے جاذر اور بیت حوران اسفل کو پھر تعمیر کیا اور بعلات اور دشت تدمر کو مملکت کے درمیان۔۔ اور خزانے کے سارے شہر جو سلیمان کے تھے اور اس کی گاڑی کے شہر اور اس کے سرداروں کے شہر بنائے اور جو کچھ سلیمان کی تمنا تھی سو یروشلم میں اور لبنان میں اور اپنی مملکت کی ساری زمین میں بنائے۔[21]
اسی طرح توراۃ میں پتھر کے عظیم الشان حوض ‘ بڑی اور بھاری دیگیں اور تصویروں اور ان کے بنانے کے لیے بیش قیمت پتھروں کے متعلق طویل فہرست دی گئی ہے۔ [22]
تانبے کے چشمے
حضرت سلیمان (علیہ السلام) چونکہ عظیم الشان عمارات ‘ پرشوکت وپرہیبت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اور ایسی تعمیرات کے استحکام میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اس لیے ضروری تھا کہ گارے اور چونے کی بجائے پگھلی ہوئی دھات گارے کی طرح استعمال کی جائے۔ لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آئے ؟ یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس مشکل کو اس طرح حل کر دیا کہ ان کو پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے مرحمت فرما دیے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حسب ضرورت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایک ” نشان “ تھا اور اس سے قبل کوئی شخص دھات کا پگھلانا نہیں جانتا تھا۔ اور نجارکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ انعام کیا کہ زمین کے جن حصوں میں ناری مادہ کی وجہ سے تانبا پانی کی طرح پگھل کر بہہ رہا تھا ‘ ان چشموں کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر آشکارا کر دیا اور ان سے قبل کوئی شخص زمین کے اندر دھات کے چشموں سے آگاہ نہ تھا۔ [23]
چنانچہ ابن کثیر بروایت قتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ناقل ہیں کہ پگھلے ہوئے تانبے کے یہ چشمے یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ظاہر کر دیا تھا۔ [24]
قرآن عزیز نے اس حقیقت کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی اور مسطورہ بالا دونوں توجیہات آیت زیر بحث کا مصداق بن سکتی ہیں۔ اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب صاحب مطالعہ کے اپنے ذوق پر ہے۔
توراۃ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس خصوصی امتیاز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور جہاد کے گھوڑوں کا واقعہ
قرآن عزیز نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ایک مختصر واقعہ کا اس طرح تذکرہ کیا ہے :
{ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَط نِعْمَ الْعَبْدُط اِنَّہٗ اَوَّابٌ ۔ اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ ۔ فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْج حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ۔ رُدُّوْہَا عَلَیَّط فَطَفِقَ مَسْحًم بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ۔ } [25] ” اور ہم نے داؤد کو سلیمان (فرزند) عطا کیا وہ اچھا بندہ تھا ‘ بیشک وہ خدا کی جانب بہت رجوع ہونے والا تھا (اس کا واقعہ قابل ذکر ہے ) جب اس کے سامنے شام کے وقت اصیل اور سبک رو گھوڑے پیش کئے گئے تو وہ کہنے لگا بیشک میری محبت مال (جہاد کے گھوڑوں کی محبت) پروردگار کے ذکر ہی میں سے ہے۔ یہاں تک کہ وہ گھوڑے نظر سے اوجھل ہوگئے ( حضرت سلیمان نے فرمایا ) ان کو واپس لاؤ پھر وہ ان کی پنڈلیاں اور گردنیں چھونے اور تھپتھپانے لگا۔ “
اس تفسیر کے مطابق
{ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ } [26]
کے معنی یہ ہوئے کہ بیشک میں پروردگار کے ذکر سے غافل ہو کر مال کی محبت میں لگ گیا اور آیت حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ میں تَوَارَتْ کی ضمیر آفتاب کی جانب راجع ہے جو عبارت میں محذوف ہے یعنی توراۃ الشمس بالحجاب)) اور آیت
{ فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ } [27]
میں ” مسح “ کے معنی ” ضرب “ کے ہیں یعنی ان کی کونچیں اور گردنیں کاٹ ڈالیں۔
ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ اکثر سلف کی بھی یہی رائے ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ عمل قصداً نہیں تھا بلکہ اسی قسم کا معاملہ تھا جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا کہ عصر کی نماز فوت ہو گئی اور آپ نے مع صحابہ غروب آفتاب کے بعد اس کی قضا کی۔
اور جب کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خدا کے ذکر کی محبت میں اپنے بہترین گھوڑوں کو ذبح کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ عظیم الشان انعام فرمایا کہ ” ہوا “ کو ان کے لیے مسخر کر دیا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے مطابق جو حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے منقول ہے حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جہاد کی مہم کے سلسلہ میں جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور وہ پیش کیے گئے اور پھر وہ تمام صورت پیش آئی جو پہلی تفسیر میں ذکر ہو چکی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے واپس منگا کر گھوڑوں کو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہلکے ہلکے مارا اور فرمایا کہ آئندہ تم ذکر اللہ سے غفلت کا باعث نہ بننا۔ [28]
گویا اس روایت کے پیش نظر ” مسح “ کے معنی آہستہ آہستہ مارنے کے ہوئے اور مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ جہاد کی مصروفیت ہی کی بنا پر غفلت کا یہ معاملہ پیش آیا تاہم حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بظاہر اسباب گھوڑوں کو اس کا باعث سمجھ کر ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جس سے فی الجملہ رنج کا اظہار بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حیوان سمجھ کر ان کو اپنے غیظ و غضب کا شکار نہیں بنانا چاہتے بلکہ فی الجملہ اظہار رنج کرنا چاہتے ہیں۔
مسطورہ بالا ہر دو تفاسیر سے جدا حضرت عبد اللہ بن عباس سے بطریق علی بن ابی طلحہ جو تفسیر منقول ہے اس میں نہ نماز فوت ہونے کا ذکر ہے اور نہ سورج غروب ہونے کا مسئلہ ہے اور نہ گھوڑوں کے ذبح کردینے کا واقعہ زیر بحث آیا ہے ‘ بلکہ واقعہ کی صورت اس طرح ذکر کی گئی ہے کہ جہاد کی ایک مہم کے موقع پر ایک شام کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جہاد کے گھوڑوں کو اصطبل سے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پیش کیے گئے تو آپ کو چونکہ گھوڑوں کی نسلوں اور ان کے ذاتی اوصاف کے علم کا کمال حاصل تھا ‘ اس لیے آپ نے جب ان سب کو اصیل ‘ سبک رو ‘ خوش رو اور پھر بہت بڑی تعداد میں پایاتو آپ پر مسرت و انبساط کی کیفیت طاری ہو گئی اور فرمانے لگے ان گھوڑوں سے میری یہ محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو پروردگار کے ذکر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس غور و فکر کے درمیان گھوڑے اصطبل کو روانہ ہو گئے۔ چنانچہ جب انھوں نے نظر اوپر اٹھائی تو وہ نگاہ سے اوجھل ہو چکے تھے۔ آپ نے حکم دیا ان کو واپس لاؤ جب وہ واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے محبت اور آلات جہاد کی حیثیت سے عزت و توقیر کی خاطر ان کی پنڈلیوں اور گردن پر ہاتھ پھیرنا اور تھپتھپانا شروع کر دیا اور ایک ماہر فن کی طرح ان کو مانوس کرنے لگے۔
گویا اس تفسیر کے مطابق آیت اِنِّیْ اَحْبَبْبُ حُبَّ الْخَیْرَ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ [29] کا ترجمہ یہ ہوا ” بلاشبہ میری محبت مال (جہاد کے گھوڑوں کی محبت) ذکر خدا ہی میں سے ہے “ اور تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ میں تَوَارَتْ کی ضمیر الصافنَاتُ الْجِیَادُ ہی کی طرف ہے ‘ یعنی جب گھوڑے آنکھ سے اوجھل ہو گئے اور اس طرح ” شمس “ کے محذوف ماننے کی ضرورت نہیں رہتی اور فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسَّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ [30] ” میں مسح “ کے ” چھونے اور ہاتھ پھیرنے کے “ وہی عام معنی ہیں جو لغت میں بہت مشہور ہیں۔
ابن جریر طبری اور امام رازی رحمہ اللہ علیہما ; اسی تفسیر کو راجح اور قرین صواب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب گھوڑوں کی تعداد ہزاروں تھی اور وہ بھی جہاد کے لیے تیار کیے گئے تھے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نماز فوت ہو گئی تھی تو اس میں ان حیوانوں کا کوئی قصور نہ تھا جو ان کو عذاب دیا جائے پس ان امور کے پیش نظر آیات کی وہ تفسیر صحیح نہیں ہو سکتی جس کی نسبت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی جانب کی جاتی ہے۔
محاکمہ
روایات اور اقوال مفسرین کے مطالعہ کے بعد ہمارے نزدیک ابن جریر اور امام رازی کا پسندیدہ قول ہی قابل ترجیح اور قرین صواب ہے ‘ اس لیے کہ نہ اس میں محذوف ماننے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف ایسے عمل کی نسبت ہوتی ہے جو عقلاً نامناسب معلوم ہوتا ہے اور ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے ابن جریر کے اعتراض کا جو جواب اس سلسلہ میں دیا ہے وہ بھی تاویل بعید سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ‘ کیونکہ ایک اولو العزم پیغمبر کے اس واقعہ میں کوئی ایسی وجہ وجیہ نہیں ہے جس کے پیش نظر دس یا بیس ہزار گھوڑوں کو اس طرح ذبح کر دیا جائے اور یہ کہہ دینا کہ شاید ان کی ملت میں اس قسم کا عمل رائج اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہو بے دلیل بات ہے۔ اسی طرح ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) کا یہ قول کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جب اپنی غفلت کی مکافات میں ہزاروں بہترین گھوڑوں کو ذبح کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کے عوض میں ہوا کو مسخر کر دیا ‘ اگرچہ دلچسپ ضرور ہے لیکن قرآن عزیز کے بیان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ واقعہ زیر بحث ایک جدا واقعہ ہے جس کے ذیل میں قرآن عزیز نے معمولی سا بھی ایسا اشارہ نہیں کیا جس سے تسخیر ہوا کے معاملہ کا اس سے تعلق ظاہر ہوتا ہو۔ حالانکہ قرآن عزیز کے عام طرزبیان کے مطابق آیات زیر بحث میں ہی یہ ذکر آنا چاہیے تھا کہ چونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہماری خوشنودی میں ایسا کیا اس لیے ہم نے اس کے عوض میں اتنا بڑا انعام دیا کہ ہوا کو مسخر کر دیا مگر اس کے برعکس تسخیر ہوا کے مسئلہ کو ایک دوسرے واقعہ کے ساتھ متعلق کیا ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی تو ساتھ ہی یہ دعا بھی مانگی کہ ان کو ایسی حکومت عطا ہو جو ان کے علاوہ پھر کسی کو نصیب نہ ہو اور یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اس طرح قبول فرمائی کہ جن ‘ حیوانات اور ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا۔
غرض ” صافنات الجیاد “ کے واقعہ کے بعد نہ حضرت سلیمان کا گھوڑوں کی سواری کو ترک کردینا اور میدان جہاد میں ان سے کام نہ لینا ثابت ہے اور نہ تسخیر جن و ہوا کا اس معاملہ سے کوئی تعلق ہے اور نہ آیت میں ” شمس “ کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ اتنی کثیر تعداد میں عمدہ گھوڑوں کا بیک وقت ذبح کر ڈالنا کوئی خاص محبوب عمل ہے ‘ اس لیے ان وجوہ کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) ہی کا یہ قول راجح اور قرین صواب ہے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کا واقعہ
سورة ص میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش اور خدائے تعالیٰ کی جانب سے ابتلا کا ایک مجمل واقعہ اس طرح مذکور ہے :
{ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمَانَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ۔ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًالَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ۔ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ ۔ } [31] ” اور بیشک ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ڈال دیا ہم نے اس کی کرسی پر ایک جسم ‘ پھر وہ اللہ کی جانب رجوع ہوا۔ کہا اے پروردگار ! مجھ کو بخش دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو میسر نہ آئے ‘ بلاشبہ تو ہی بخشنے والا ہے۔ تب ہم نے اس کیلئے ہوا کو مسخر کردیا کہ وہ اس کے حکم سے نرم رفتار سے چلتی تھی جہاں وہ پہنچنا چاہتا۔ “
ان آیات میں یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب آزمائش پیش آئی تو وہ کیا تھی صرف اس قدر اشارہ ہے کہ ان کی کرسی پر ایک جسد ڈالا گیا نیز احادیث میں بھی اس سے متعلق کوئی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ لہٰذا ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے دورائیں اختیار کی ہیں :
ایک یہ کہ ہم کو قیاس اور ظن وتخمین سے کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور صرف اسی قدر یقین رکھنا چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرمایا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس نے کسی آزمائش میں مبتلا کیا جس کا تعلق تخت سلیمان اور جسد کا تخت سلیمان پر ڈالا جانا ان دو باتوں سے ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت نامعلوم ہے اور یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اولوا العزم پیغمبروں کی طرح خدا کی درگاہ میں رجوع کیا۔ اول مغفرت طلب کی اور اس کے بعد ایسی حکومت کے لیے دعا مانگی جو بے نظیر اور بے مثال ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کی مقبولیت اور عظمت شان کو سراہا :
{ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ } [32]
” اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس تقرب ہے اور عمدہ مقام۔ “
آیات زیر بحث کی تفسیر میں یہ راہ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) ابن حزم اور بعض دوسرے جلیل القدر محدثین و مفسرین نے اختیار کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس واقعہ کی تفصیل اور آیات کی تشریح کے لیے کوئی صورت پیدا کی جائے اور اس کے اجمال و ابہام کو حل کیا جائے۔
اس سلسلہ میں مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے صرف دو قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک امام رازی (رحمہ اللہ علیہ) کی جانب منسوب ہے اور دوسری بعض محدثین کی جانب۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک مرتبہ سخت علیل ہو گئے اور ان کی حالت اس درجہ نازک ہو گئی کہ جب تخت پر لاکر بٹھائے گئے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جسم ہے بے روح۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی۔ جب وہ تندرست ہو گئے تو خدائے تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اول انھوں نے پیغمبرانہ شان کے مطابق مغفرت طلب کی اور اپنی بیچارگی کا اظہار کیا اور پھر دعا مانگی کہ خدایا مجھ کو لاثانی حکومت عطا فرما۔ [33]
امام رازی (رحمہ اللہ علیہ) کی اس تفسیر کے مطابق آیۃ { وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ } میں ” فتنہ “ سے مراد ” مرض شدید “ ہے اور { اَلْقَیْنَا عَلٰی کَرْسِیِّہٖ جَسَدًا } میں ” القائے جسد “ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا شدت مرض میں جسم بے روح کی طرح تخت پر پڑجانا مقصود ہے اور (ثُمَّ اَنَابَ ) سے صحت کی جانب رجوع ہوجانا اور تندرست ہوجانا مراد ہے۔ گویا آزمائش کا مقصد یہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) عین الیقین کے درجہ میں سمجھ لیں کہ اس حاکمانہ شان کے باوجود ان کا نہ صرف اقتدار بلکہ جان تک اپنے قبضہ میں نہیں ہے۔ تاکہ ایک اولوا العزم رسول کی طرح خدا کے سامنے جھک جائیں اور اظہار خشوع و خضوع اور طلب مغفرت کے ذریعہ درگاہ الٰہی سے درجہ رفیع اور مزید سر بلندی حاصل کریں۔ بعض محدثین نے ان آیات کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ سوچا کہ میں اس شب میں اپنے حرم کے ساتھ ازدواجی فریضہ ادا کروں تو میری ہر ایک بیوی سے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ میدان جہاد کا مجاہد بنے گا ‘ مگر اس خیال کے ساتھ ” انشاء اللّٰہ “ کہنا بھول گئے۔ خدائے تعالیٰ کو ایک اولوا العزم پیغمبر کا یہ طرز پسند نہ ہوا اور اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس دعوے کو اس طرح غلط ثابت کر دیا کہ تمام ازواج مطہرات میں سے صرف ایک بیوی کے مردہ بچہ پیدا ہوا جس کو کسی خادم نے ان کے سامنے اس وقت پیش کیا جبکہ وہ تخت پر متمکن تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تنبہ ہوا کہ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ خدا کے سپرد کیے اور انشاء اللّٰہ کہے بغیر میں نے اپنی بات کو زور دار بنایا۔ چنانچہ فوراً ہی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کیا ‘ مغفرت طلب کی اور وہ دعا مانگی جس کا ذکر قرآن عزیز میں بصراحت موجود ہے۔
محدثین اپنی اس تفسیر کی دلیل میں بخاری و مسلم کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو ذیل میں درج ہے اور اسی کو اپنی تفسیر کی سند بناتے ہیں۔ مفسر ابو السعود اور سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ; نے بھی یہی توجیہ اختیار کی ہے۔
( (عن ابوہریرہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال قال سلیمان بن داؤد لاطوفن اللیلۃ علی سبعین امرأۃ تحمل کل امرأۃ فارسا یجاھد فی سبیل اللّٰہ فقال لہ صاحبۃ ان شاء اللّٰہ فلم یقل ولم تحمل شیئاً الا واحدا ساقطا احدی شقیہ فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوقالھا لجاھدوا فی سبیل اللّٰہ) ) ” حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک مرتبہ سلیمان بن داؤد علیہا السلام نے فرمایا آج کی رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا تاکہ ان میں سے ہر ایک بیوی ایک شہ زور لڑکا جنے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وزیر نے ان سے کہا ” ان شاء اللّٰہ “ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس جملہ کو ادا نہ کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بیوی بھی حاملہ نہ ہوئی البتہ ایک بیوی کے ناقص بچہ پیدا ہوا جس کا ایک پہلو ندارد تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) ” ان شاء اللّٰہ “ کہہ دیتے تو ہر ایک حرم کے بطن سے مجاہد پیدا ہوتا۔ “
محاکمہ
مگر یہ دونوں تفسیریں محل نظر ہیں۔ پہلی توجیہ جس کو امام رازی نے پسند فرمایا ہے صرف قیاسی توجیہ ہے اور آیت کے جملوں کی ایسی تاویل ہے جو تاویل بعید کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ تسلیم کہ مقربین بارگاہ الٰہی کے لیے کبھی مرض بھی آزمائش بن جاتا ہے ‘ لیکن کرسی سلیمان پر ” القائے جسد “ سے بحالت نقاہت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تخت پر بیٹھنا مراد لینا متبادر معنی کے خلاف ہے۔آیت سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تخت سلیمان پر کوئی شے ڈالی گئی جس کا سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش سے تعلق تھا نیز ” اناب “ (رجوع ہوا) کے معنی بھی قرآن عزیز میں جگہ جگہ طلب مغفرت اور اظہار عبودیت کے لیے رجوع ہونے کے آئے ہیں۔ لہٰذا یہاں ” صحت کی جانب ہونے “ کے معنی لینا دل لگتی بات نہیں ہے۔
اسی طرح بعض محدثین نے جو تفسیر بیان فرمائی ہے اور جس کو ابو السعود اور سید محمود آلوسی نے اختیار کیا ہے وہ بھی آیات زیر بحث کی تفسیر نہیں ہے ‘ اس لیے کہ بخاری یا دوسری کتب حدیث میں جہاں جہاں یہ حدیث منقول ہے اس کے کسی ایک طریقہ میں بھی ایسا کوئی لفظ یا جملہ نہیں پایا جاتا جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اس واقعہ کو آیت زیر بحث کی تفسیر فرمایا ہو یا اس کی جانب اشارہ تک بھی کیا ہو بلکہ یہ حدیث حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات میں سے ایک مستقل واقعہ کا اسی طرح ذکر کرتی ہے جس طرح امام
بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اسی باب میں بعض دوسرے واقعات کو بیان کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں دو عورتیں ساتھ ساتھ سفر کر
رہی تھیں اور دونوں کے ساتھ ان کے شیر خوار بچے بھی تھے۔ راہ میں ایک عورت کے بچہ کو بھیڑیا اٹھا کرلے گیا اور جو بچہ باقی رہا دونوں اس کے لیے آپس میں جھگڑا کرنے لگیں۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ یہ بچہ میرا ہے اور دوسری کا بچہ بھیڑیا لے گیا۔ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو انھوں نے ” فصل قضایا “ کے اصول پر مقدمہ کی روداد سن کر بڑی کے حق میں فیصلہ دیا اس لیے کہ بظاہر بچہ بڑی کے قبضہ میں تھا اور چھوٹی اس کے قبضہ کے خلاف گواہ نہ پیش کرسکی۔ جب عورتیں واپس ہو کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس سے گزریں تو انھوں نے ان کے قضیہ کی تفصیل دریافت فرمائی اور سن کر حکم دیا کہ ایک چھری لائی جائے اور اس بچہ کے دو ٹکڑے کر کے ایک بڑی کو اور ایک چھوٹی کو دے دیا جائے۔ بڑی خاموش رہی مگر چھوٹی یہ فیصلہ سن کر شوروغوغا کرنے لگی کہ خدارا اس بچہ کے دو ٹکڑے نہ کیجئے ‘ میں بڑی کے حق میں دستبردار ہوتی ہوں۔ تب سب کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ بچہ چھوٹی کا ہے اور بڑی جھوٹا دعویٰ کرتی ہے۔ لہٰذا بچہ چھوٹی کے حوالہ کر دیا گیا۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح یہ واقعہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دانش و عقل کی برتری کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا اسی طرح حضرت سلیمان اور ان کی ازواج مطہرات کا واقعہ اس لیے سنایا کہ امت کو یہ موعظت حاصل ہو کہ اپنے کاموں میں اگر خیرو برکت چاہتے ہیں تو ارادہ و عزم کے اظہار کے وقت ” ان شاء اللّٰہ “ کہنا چاہیے۔ نیز شاید یہ بھی مقصد ہو کہ وہب بن منبہ (رحمہ اللہ علیہ) جب یہ قصہ سنایا کرتے تھے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ازواج مطہرات اور باندیوں کی تعداد ایک ہزار بتایا کرتے تھے اس لیے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے اس تعداد کو ساٹھ یا بعض روایات کے پیش نظر سو تک بتایا جن میں بعض ازواج مطہرات تھیں اور باقی جاریات (باندیاں) تھیں۔
غرض روایت زیر بحث موعظت و عبرت کے سلسلہ میں مستقل حیثیت سے بیان ہوئی ہے ‘ آیات زیر بحث کی تفسیر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے خلاصہ بحث یہ ہے کہ امام رازی اور بعض محدثین کی اختیار کردہ تفسیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش اور کرسی سلیمان پر ” القائے جسد “ کے
واقعات کو حل نہیں کرتیں اور آیات میں اگرچہ ان دونوں باتوں کا مجمل ذکر ہے ‘ تاہم اس واقعہ سے متعلق موعظت اور عبرت کے پہلو کو بہت صاف اور
نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے اور قرآن کا واقعات کے تذکرے سے یہی مقصد ہوتا ہے لہٰذا ہم کو بھی اس کے موعظت کے پہلو کو سامان عبرت و نصیحت
بناتے ہوئے واقعہ کے اجمال پر ہی ایمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی شخص واقعہ کے اس اجمال پر قلب کو مطمئن نہیں پاتا تو پھر امام رازی (رحمہ اللہ علیہ) کی بیان کردہ تفسیر کو اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
ان آیات کی تفسیر میں بیان کردہ تفاسیر کے علاوہ بہت سی ایسی روایات کتب تفاسیر میں درج ہیں جن کا اسلامی روایات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے
اور بلاشبہ وہ تمام تر یہودی قصص اور اسرائیلی خرافات کا مجموعہ ہیں ‘ اس لیے ان کو روایات کہنا بھی روایت کی توہین کرنا ہے۔
ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر شیطان کو قابض کر دیا تھا اور اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک بیوی جس کا نام امینہ تھا بت پرست تھی اور اپنے باپ کا مجسمہ بنا کر اس کی پرستش کیا کرتی تھی ‘ لہٰذا خدائے تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ سزا دی جس مدت تک امینہ نے ان کے گھر میں بت پرستی کی تھی اس مدت تک کے لیے وہ تخت سلطنت سے محروم کر دیے گئے اور ان کی انگشتری جس میں اسم اعظم کندہ تھا وہ ان کی باندی جرادہ کے ذریعہ شیطان کے ہاتھ پڑ گئی اور وہ بصورت سلیمان ان کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرنے لگا اور پھر مدت ختم ہونے کے بعد انگشتری شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرگئی اور مچھلی اس کو نگل گئی اور وہ مچھلی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس شکار ہو کر آئی اور اس طرح اس کے پیٹ میں سے انگشتری نکال کر انھوں نے اپنا ملک واپس لے لیا۔
تورات سلاطین (1) باب 11 میں بھی اس روایت سے ملتا جلتا ایک قصہ مذکور ہے اور اس میں بیویوں کی خاطر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بت پرستی کرنا تک موجود ہے۔ (العیاذ باللّٰہ)
اس روایت میں ایک اولوالعزم پیغمبر کی جانب جس قدر خرافات اور ذلیل واقعات کی نسبت کی گئی ہے ‘ ایک عامی بھی بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ
ایسی روایات کا اسلام کی تعلیم سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے محدث ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے ان روایات کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے :
( (ذکر ابن جریر و ابن ابی حاتم وغیرھما من المفسرین ھھنا اثارا کثیرۃ عن جماعۃ من السلف و اکثرھا او کلھا متلقاۃ من الاسرائیلیات وفی کثیر منھا نکارۃ شدیدۃ و قد نبھنا علی ذلک فی کتابنا التفسیر واقتصرنا ھھنا علی مجرد التلاوۃ)) [34] ” ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ان دونوں کے علاوہ دوسرے مفسرین نے اس مقام پر جماعت سلف سے بہت سے آثار کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے اکثر یا سب کے سب اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں اور ان میں سے اکثر آثار میں سخت ناروا باتیں مذکور ہیں اور ہم نے اپنی تفسیر میں اس پر تنبیہ کردی ہے اور اس جگہ صرف قرآن میں بیان کردہ واقعہ کو تلاوت کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ “
( (ولکن الظاھر انہ انما تلقاہ ابن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ان صح عنہ من اھل الکتاب و فیھم طائفۃ لا یعتقدون نبوۃ سلیمان (علیہ السلام) فالظاھر انھم یکذبون علیہ و ھذا کان فی ھذا السیاق منکرات)) [35] ” لیکن ظاہر یہ ہے کہ اگر اس روایت کی نسبت حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی جانب صحیح بھی ثابت ہوجائے تب بھی یہ اہل کتاب سے انھوں نے لی ہے اور ان میں ایک گروہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتا تو یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر جھوٹ تراشتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس روایت کے بیان میں نار وا باتیں پائی جاتی ہیں۔ “
( (وقد رویت ھذہ القصۃ مطولۃ عن جماعۃ من السلف کسعید بن المسیب وزید بن اسلم و جماعۃ آخرین وکلھا متلقاۃ من قصص اھل الکتاب))[36] ” اور یہ طول طویل قصہ سلف کی ایک جماعت کی نسبت کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ مثلاً سعید بن مسیب اور زید بن اسلم اور ان کے علاوہ ایک جماعت سے منقول ہے اور یہ پورا قصہ از اول تا آخر اہل کتاب کی کہانیوں سے لیا گیا ہے۔ “
ابن کثیر کے علاوہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں ‘ ابن حزم نے الفصل میں ‘ قاضی عیاض نے شفاء میں ‘ شیخ بدر الدین عینی نے شرح بخاری میں ‘ ابن
حبان نے اپنی تفسیر میں اور دوسرے جلیل القدر محققین ‘ محدثین اور مفسرین رحمہم اللہ نے اس قصہ سے متعلق روایات کو خرافات اور اہل کتاب کی ہزلیات ظاہر کر کے اسلامی روایات کے دامن کو اس نجاست سے پاک کیا ہے۔
لشکر سلیمان اور وادی نملہ
گذشتہ صفحات میں ” منطق الطیر “ کی بحث میں یہ مسئلہ واضح ہو چکا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حیوانات کی بولیاں سمجھنے کا علم عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ قرآن عزیز میں وادی نملہ (چیونٹیوں کی بستی) سے متعلق اس طرح مذکور ہے :
ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جن وانس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے جلوس میں کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے۔ لشکر کی کثرت کے باوجود کسی طبقہ کے افراد کی بھی یہ مجال نہ تھی کہ وہ اپنے درجہ اور رتبہ کے خلاف آگے پیچھے ہونے کی بے ترتیبی کا مرتکب ہو سکے۔ سب فرمان برار لشکریوں کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ہیبت سے اپنے اپنے قرینہ سے فوج در فوج چل رہے تھے کہ لشکر چلتے چلتے ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بیشمار تھیں اور پوری وادی ان کا مسکن بنی ہوئی تھی۔ چیونٹیوں کی ملکہ نے لشکر کے اس کثیر انبوہ کو دیکھ کر اپنی امت سے کہا کہ تم فوراً اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ‘ سلیمان اور سلیمان کے لشکر کو کیا معلوم کہ تم اس کثرت کے ساتھ وادی کی زمین پر رینگ رہی ہو ‘ نہ معلوم ان کے گھوڑوں اور پیادوں کے نیچے تم میں سے کتنی تعداد بیخبری میں روندی جائے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کی ملکہ کی یہ باتیں سنیں تو ان کو ہنسی آگئی اور اس کے عاقلانہ حکم کی داد دینے لگے اب اس واقعہ کو خود قرآن عزیز سے سنیے :
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًاج وَّقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ ٓیاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍط اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِی النَّمْلِلا قَالَتْ نَمْلَۃٌ ٓیاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْج لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُہٗلا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ۔ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ ۔ } [37]
” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم (علم نبوت) بخشا اور ان دونوں نے کہا ‘ تعریف ہے اللہ کے لیے جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر
فضیلت دی اور داؤد کا وارث سلیمان ہوا۔ اس نے کہا : اے لوگو ! ہم کو پرندوں (حیوانات) کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہمارے لیے ہر شے مہیا کردی گئی ہے۔ بیشک یہ (خدا کا) کھلا ہوا فضل ہے اور جمع ہوا لشکر سلیمان کے لیے جن ‘ انسان اور پرندوں (حیوانات) سے اور وہ درجہ بدرجہ قرینہ کے ساتھ آگے پیچھے چل رہے تھے ‘ حتیٰ کہ وہ وادی نملہ پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا : اے چیونٹیو ! اپنے گھروں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ بیخبری میں سلیمان اور ان کا لشکر تم کو پیس ڈالے۔ چیونٹی کی یہ بات سن کر سلیمان ہنس پڑا اور کہنے لگا : اے پروردگار ! مجھ کو یہ توفیق دے کہ میں تیرا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جو تجھ کو پسند آئے اور مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔ “
ہم نے حکم دینے والی چیونٹی کو چیونٹیوں کی ملکہ کہا ہے اور یہ صرف اس لیے کہ قدیم و جدید عقلائے زمانہ کا اس پر اتفاق ہے کہ حیوانات میں شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں کا اس قدر بہترین نظام ہے کہ اس کو ” نظام حکومت “ کہنا مبالغہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ بعض عقلائے دہر نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ انسان نے بھی اپنا نظام انھی دو نظاموں کو دیکھ کر مرتب کیا ہے۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ کتنا ہی محل نظر کیوں نہ ہو مگر اس سے ان
دونوں کے نظام کی خوبی بہرحال مسلم ہوجاتی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکم دینے والی نملہ وادی نملہ کی ملکہ یا سردار ہی ہوگی۔
وادی نملہ کس جگہ واقع ہے ؟ اس سوال کے جواب میں اگرچہ بہت سے مقامات کا نام لیا گیا ہے مگر مورخین کی زیادہ رائے اس طرف ہے کہ عسقلان کے قریب ہے جیسا کہ ابن بطوطہ نے بیان کیا ہے یا بیت حبرون و عسقلان کے درمیان جیسا کہ یا قوت حموی سے منقول ہے۔ عام مفسرین شام میں بتلاتے ہیں۔
اس سوال کے علاوہ اس مقام پر اور بھی چند سوالات پیدا کیے گئے ہیں۔ مثلاً حکم دینے والی چیونٹی کا نام کیا تھا ؟ وہ چیونٹیوں کے قبائل میں سے کس قبیلہ سے تھی ؟ اس کی جسامت کس قدر تھی ؟ وغیرہ وغیرہ اور پھر اسرائیلی داستانوں اور یہودی خرافات سے ان کے جوابات دینے کی سعی کی گئی ہے۔ مگر یہ سب بحثیں دور از کار ‘ بے سند بلکہ لا طائل ہیں اور قرآن عزیز اور احادیث رسول اس قسم کی لغویات سے مبرا ہیں۔
مثلاً نوف بکالی کہتا ہے کہ ان چیونٹیوں کا قد بھیڑ ئیے کے برابر تھا۔ ١ ؎ حالانکہ قرآن عزیز نے واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس قدر حقیر جسم
رکھتی تھیں کہ نملہ کو یہ کہنا پڑا : ” ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تم کو پیس ڈالے اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ “ کیونکہ یہ بات جبھی صحیح ہو سکتی ہے کہ وہ چیونٹیاں اپنی ہم جنسوں کی طرح حقیر جسم رکھتی ہوں کہ پیر سے روندنے والے کو ان کا علم بھی نہ ہو سکے۔
اس واقعہ کے ذکر سے قرآن عزیز کا مقصد یہ ہے کہ جب آیت بالا سے قبل اس نے یہ بیان کیا کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ” علم منطق الطیر “ عطا فرمایا اور یہ ان کی عظمت شان کا ایک نشان ہے تو اس نے مناسب سمجھا کہ ایک دو واقعات اس سلسلہ کے ایسے بیان
کر دیے جائیں جس سے مخاطب کو اس مسئلہ میں کسی قسم کا تردد اور شک باقی نہ رہے اور اس کو علم الیقین حاصل ہوجائے کہ قرآن عزیز نے جس
حیثیت سے اس کا ذکر کیا ہے اس کے پیش نظریہ علم عام دنیوی علوم کی طرح کا نہیں تھا ‘ بلکہ خدائے تعالیٰ کی جانب سے ان دونوں عظیم المرتبت
پیغمبروں کے لیے خاص موہبت (عطاء و بخشش) اور نشان (معجزہ) تھا۔ چنانچہ اسی کے متصل پہلا واقعہ وادی نملہ کا بیان کیا کہ کس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک حقیر جسم کے حیوان کی باتوں کو اس طرح سن لیا جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی گفتگو بے تکلف سن لیتا ہے اور
ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ جب اس حیرت زا علم کے متعلق حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ” عین الیقین اور حق الیقین “ کا درجہ حاصل ہو گیا تو انھوں نے ایک اولوالعزم پیغمبر کی شان کے مناسب خدا کے اس عطا کردہ نشان پر اظہار تشکر و امتنان کیا۔
اس واقعہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے جس سورة میں اس کا ذکر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ہی ” سورة نمل “ رکھا ہے۔
احمد زکی پاشا مصری نے اپنے ایک مقالہ میں آیت زیر بحث کے متعلق یہ کہا ہے کہ اس جگہ نملہ سے انسانوں کا انبوہ کثیر مراد ہے یعنی وہ وادی میں
چیونٹیوں کی طرح بیشمار تھے اور خوف تھا کہ کہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر ان کو نہ روند ڈالے ‘ مگر زکی پاشا کی یہ تفسیر آیت کی
تفسیر نہیں ہے بلکہ اس کی مراد کی تحریف ہے۔ اس لیے کہ آیت میں جب کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر کے متعلق یہ مقولہ منقول
ہے وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو پیس ڈالیں اور ان کو یہ خبر بھی نہ ہو کہ تمھاری جانوں پر کیا حادثہ گذر گیا ‘ تو نملہ سے کس طرح انسانوں کا کثیر گروہ مراد لیا جا سکتا ہے۔ نیز قرآن عزیز کا سیاق وسباق اس تاویل کو مردود قرار دیتا ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا تعلق نہ اس ” علم “ سے رہتا ہے جس کا پہلی آیت میں بڑی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور نہ انسانوں کے اس تحفظ خود اختیاری کے مقولہ میں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی متعجبانہ ہنسی کا سبب بن سکے اور نہ یہ کوئی ایسا اہم واقعہ تھا جس کے متعلق حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس احساس شکر گزاری کی اہمیت کو واضح کیا جاتا جس کو بعد کی آیت میں واضح کیا گیا ہے اور پھر ان تمام باتوں کے علاوہ اگر یہ معاملہ انسانوں کے انبوہ کثیر سے متعلق ہوتا تو قرآن عزیز کو ایسے صاف اور سادہ معاملہ کو ایسے پیچیدہ کنایہ اور اشارہ میں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی جس کی مراد سمجھنے میں خواہ مخواہ مغالطہ پیدا ہو اس لیے کہ اگر کہیں بیشمار انسانوں اور حیوانوں کا مثلاً اجتماع ہو تو مختلف زبانوں کے محاورہ میں یہ تو بیشک کہا جاتا ہے کہ چیونٹیوں کی طرح بیشمار تھے ‘ مگر جس مقام پر نہ کسی انسانی جماعت کا پہلے کوئی ذکر ہو رہا ہو اور نہ اس کی کثرت و قلت کی کوئی بحث ہو رہی ہو اس جگہ کلام کی ابتدا اگر یوں کی جائے کہ ” جب لشکر وادی نملہ پر پہنچا تو نملہ نے کہا “ تو کسی زبان کے محاورہ میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے انسانوں کا انبوہ کثیر مراد ہے۔
آج کے علمی دور میں جبکہ ” ماہرین علم السنہ حیوانات “ کی تحقیق اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ید قدرت نے حیوانات میں بھی نفس ناطقہ اور اس کے لیے لغات مخصوصہ و دیعت کیے ہیں اگرچہ وہ ” نفوس “ انسان کے نفس ناطقہ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ضعیف اور کمزور ہیں اور جبکہ حیوانات کی فہم و فراست پر فلسفیانہ مباحث مہیا کیے جا رہے ہیں اور ان کی بولیوں اور زبانوں کی اقسام اور ان کی جدا جدا ابجد کو حقائق ثابتہ کی طرح نمایاں کیا جارہا ہے۔ 1 ایسے دور میں اگر ” وحی الٰہی “ کے ذریعہ یہ یقین دلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خاص بندے (پیغمبر) کو دنیوی اسباب سے بالا تر ہو کر حیوانات کی بول چال کا علم عطا فرمایا تو سخت حیرت ہے کہ اس کو کیوں عقلاً محال سمجھا جاتا اور اس میں رکیک تاویل بلکہ تحریف کی سعی کی جاتی ہے۔ حاشیہ 1 دائرۃ المعارف للبستانی جلد ٧ ص ٢٨٧۔ ٢٨٨
بعض روایات میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں بارش نہیں ہوئی۔ قحط کی حالت دیکھ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی امت کے ساتھ استسقاء کے لیے میدان میں نکلے۔ راہ میں دیکھا کہ ایک چیونٹی اگلے قدم اٹھائے آسمان کی جانب نظر کیے یہ دعا مانگ رہی ہے : ” خدا یا ہم بھی تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور تیرے فضل کے محتاج ‘ ہم کو بارش سے محروم رکھ کر ہلاک نہ کر۔ “ حضرت سلیمان نے قوم سے فرمایا : واپس چلو ایک حیوان کی دعا نے ہمارا کام کر دیا ‘ اب تمھاری طلب کے بغیر ہی بارش ہوگی۔
یہ روایت موقوف اور مرفوع دونوں طریقوں سے ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے۔ [38]
لیکن محدثین کے نزدیک اس روایت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب نسبت کرنا محل نظر ہے۔
البتہ چیونٹی کے بارہ میں صحیح مسلم میں ایک مرفوع حدیث یہ ضرور موجود ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ کسی ” نبی “ کے ایک چیونٹی نے کاٹ کھایا۔ پیغمبر نے غصہ میں اس سوراخ کو جلا دینے کا حکم دے دیاجس میں سے اس چیونٹی نے نکل کر ان کے کاٹا تھا۔ فوراً ان پر خدا کی وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایک چیونٹی کے کاٹنے پر گھر کو جلا دینے کا حکم تم نے کیوں دیا ؟ تم کو کیا معلوم کہ اس میں کس قدر بے خطا چیونٹیاں موجود تھیں۔ صرف اس ایک چیونٹی ہی کو ہلاک کردینے پر کیوں اکتفا نہیں کیا۔
آیت زیر بحث میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ مقولہ مذکور ہے۔
{ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ } [39]
” ہم کو سب کچھ دیا گیا ہے “
اس کے معنی صاف اور متبادر یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہم کو ایسا نوازا ہے کہ اپنی نعمتوں کی ہم پر بارش کردی ہے اور یہ کہ گویا کائنات کی ہر چیز ہم کو میسر ہے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا
قرآن عزیز نے سورة نمل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کا ایک واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو اپنے تفصیلی اور جزئی واقعات کے لحاظ سے بہت دلچسپ اور پیدا شدہ نتائج و بصائر کے پیش نظر بہت اہم تاریخی واقعہ ہے۔
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی درباری خدمات کے لیے فوج درفوج حاضر رہتے تھے اور اپنے اپنے مراتب اور مفوضہ خدمات پر بغیر چون و چراتا بع فرمان۔ ایک مرتبہ دربار سلیمانی اپنے پورے جاہ و حشم کے ساتھ منعقد تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جائزہ لیا تو ہدہد کو اپنی جگہ پر غیر حاضر پایا۔ ارشاد فرمایا ‘ میں ہدہد کو موجود نہیں پاتا اگر واقعی وہ غیر حاضر ہے تو اس کی یہ بے وجہ غیر حاضری سخت قابل سزا ہے اس لیے میں اس کو یا تو سخت عذاب دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا ورنہ یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بتائے۔ ابھی زیادہ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ ہدہد حاضر ہو گیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بازپرس پر کہنے لگا کہ میں ایک ایسی یقینی اطلاع لایا ہوں جس کی خبر آپ کو پہلے سے نہیں ہے وہ یہ کہ یمن کے علاقہ میں سبا کی ایک ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اس کو سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت سلطنت اپنی خاص خوبیوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے۔
ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے اور شیطان نے ان کو گمراہ کر رکھا ہے اور وہ مالک کائنات ‘پروردگار عالم ‘ وحدہ لا شریک لہ کی پرستش نہیں کرتے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : اچھا تیرے سچ جھوٹ کا امتحان ابھی ہوجائے گا تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔ملکہ کی گود میں جب خط گرا تو اس نے اس کو پڑھا اور پھر اپنے درباریوں سے کہنے لگی کہ ابھی میرے پاس ایک معزز مکتوب آیا ہے جس میں یہ درج ہے : ” یہ خط سلیمان کی جانب سے اور اللہ کے نام سے شروع ہے جو بڑا مہربان ‘ رحم والا ہے ‘ تم کو ہم پر سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا کے فرمان بردار (مسلم) ہو کر آؤ۔ “
ملکہ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا : اے میرے ارکان دولت ! تم جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمھارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں
کرتی۔ اس لیے اب تم مشورہ دو کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ ارکان دولت نے کہا کہ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے تو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں۔ رہا مشورہ کا معاملہ تو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو مناسب ہو اس کے لیے حکم کیجئے۔
ملکہ نے کہا بیشک ہم طاقتور اور صاحب شوکت ضرور ہیں ‘ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کے معاملہ میں ہم کو عجلت نہیں کرنی چاہیے۔ پہلے ہم کو اس
کی قوت و طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جس عجیب طریقہ سے ہم تک یہ پیغام پہنچا ہے وہ اس کا سبق دیتا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے
معاملہ میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں اور وہ سلیمان (علیہ السلام) کے لیے عمدہ اور بیش بہا تحائف لے جائیں اس بہانہ سے وہ اس کی شوکت و عظمت کا اندازہ لگاسکیں گے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اگر واقعی وہ زبردست قوت و شوکت کا مالک اور شہنشاہ ہے تو پھر اس سے ہمارا لڑنا فضول ہے ‘ اس لیے کہ صاحب طاقت و شوکت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں اس لیے بلاوجہ بربادی مول لینی کیا ضروری ہے ؟
جب ملکہ سبا کے قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے فرمایا : تم نے اور تمھاری ملکہ نے میرے
پیغام کا مقصد غلط سمجھا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ان ہدایا کے ذریعہ جن کو تم بیش بہا سمجھ کر بہت مسرور ہو مجھ کو پھسلاؤ ‘ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو جو کچھ مرحمت فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں تمھاری یہ بیش بہا دولت قطعاً ہیچ ہے۔ لہٰذا تم اپنے ہدایا واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر اس نے میرے پیغام کی تعمیل نہیں کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچوں گا کہ تم اس کی مدافعت اور مقابلہ سے عاجز رہو گے اور پھر میں تم کو ذلیل و رسوا کر کے شہر بدر کردوں گا۔
قاصدوں نے واپس جا کر ملکہ سبا کے سامنے تمام روداد سنائی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شوکت و عظمت کا جو کچھ مشاہدہ کیا تھا حرف
بحرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں ہی پر نہیں ہے بلکہ جن اور حیوانات بھی ان کے تابع فرمان اور مسخر ہیں۔
ملکہ سبا نے جب یہ سنا تو طے کر لیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے لڑنا اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس کی دعوت پر لبیک کہا جائے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکتوب گرامی میں یہ جملہ بھی تھا۔
{ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } [40]
چونکہ ملکہ سبا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دین و مذہب سے ناواقف تھی اس لیے اس نے لفظ مسلم کو لغوی معنی پر محمول کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ قاہر بادشاہوں کی طرح سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد بھی یہ ہے کہ میں اس کی فرمان برداری اور شان حکومت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے ماتحت ہوجانا قبول کرلوں۔ لہٰذا اس نے یہ طے کر کے سفر شروع کر دیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں روانہ ہو گئی۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ” وحی “ کے ذریعہ معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہو رہی ہے ‘ تب آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے فرمایا :
میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اٹھا کر یہاں لے آیا جائے تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے ؟ یہ سن کر ایک دیو پیکر جن نے کہا کہ آپ کے دربار برخاست کرنے سے پہلے میں تخت کو لاسکتا ہوں ‘ مجھ کو یہ طاقت حاصل ہے اور یہ کہ میں اس کے بیش بہا سامان کے لیے امین ہوں ‘ ہرگز خیانت نہیں کروں گا۔
دیو پیکر جن کا یہ دعویٰ سن کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وزیر نے کہا کہ میں آنکھ جھپکتے اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے رخ پھیر کر دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت موجود پایا۔ فرمانے لگے ‘ یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے ‘ وہ مجھ کو آزماتا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بنتا ہوں یا نافرمان اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص اس کا شکر گزار ہوتا ہے وہ دراصل اپنی ذات ہی کو نفع پہنچاتا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے تو خدا اس کی نافرمانی سے بے پروا اور بزرگ تر ہے اور اس کا وبال خود نافرمانی کرنے والے ہی پر پڑتا ہے۔
خدائے تعالیٰ کے ادائے شکر کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ اس تخت کی ہیئت میں کچھ تبدیلی کردی جائے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا یہ دیکھ کر حقیقت کی طرف راہ یاب ہوتی ہے یا نہیں۔
کچھ عرصے کے بعد ملکہ سبا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ گئی اور جب دربار میں حاضر ہوئی تو اس سے دریافت کیا گیا : کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ عقلمند ملکہ نے جواب دیا : ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہی ہے ‘ یعنی تخت کی ساخت اور مجموعی ہیئت تو یہ بتارہی ہے کہ یہ میرا ہی تخت ہے اور قدرے ہیئت کی تبدیلی اس یقین میں تردد پیدا کر رہی ہے۔ اس لیے یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ یقیناً میرا ہی تخت ہے۔
ملکہ سبا نے ساتھ ہی یہ بھی کہا : مجھ کو آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت و طاقت کا پہلے سے علم ہو چکا ہے ‘ اسی لیے میں مطیع اور فرمان بردار بن کر حاضر خدمت ہوئی ہوں اور اب تخت کا یہ محیر العقول معاملہ تو آپ کی لاثانی طاقت کا تازہ مظاہرہ ہے اور ہماری اطاعت وانقیاد کے لیے مزید
تازیانہ ‘ اس لیے ہم پھر ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں اظہار وفاداری و فرمان برداری کرتے ہیں۔
ملکہ نے یقین کر لیا کہ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ (ہم فرمان بردار ہیں) کہہ کر ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے پیغام کی تعمیل کردی اور اس کے مقصد کو پورا کر دیا اور ملکہ کی مشرکانہ زندگی اور آفتاب پرستی مانع آئی کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پیغام کی حقیقت سمجھ سکے اور ہدایت کی جانب راہ یاب ہو سکے اس لیے اب حضرت سلیمان نے اظہار مقصد کے لیے دوسرا لطیف طریقہ اختیار فرمایا اور اس کی ذکاوت و فطانت کو مہمیز کیا وہ یہ کہ انھوں نے جنوں کی مدد سے ایک عالیشان شیش محل تیار کرایا تھا جو آبگینہ کی چمک ‘ قصر کی رفعت اور عجیب و غریب صنعت کاری کے لحاظ سے بے نظیر تھا اور اس میں داخل ہونے کے لیے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس میں بہت بڑا حوض کھدوا کر پانی سے لبریز کر دیا تھا اور پھر شفاف آبگینوں اور بلور کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنایا گیا تھا کہ دیکھنے والے کی نگاہ دھوکا کھا کر یہ یقین کرلیتی تھی کہ صحن میں صاف و شفاف پانی بہہ رہا ہے۔
ملکہ سبا سے کہا گیا کہ قصر شاہی میں قیام کرے ‘ ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو شفاف پانی بہتا ہوا پایا ‘ یہ دیکھ کر ملکہ نے پانی میں اترنے کے لیے کپڑوں کو ساق سے اوپر چڑھا یا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں یہ پانی نہیں ہے سارے کا سارا محل اور اس کا خوبصورت صحن چمکتے ہوئے آبگینہ کا ہے۔
ملکہ کی ذکاوت و فطانت پر یہ سخت چوٹ تھی جس نے حقیقت حال سمجھنے کے لیے اس کے قوائے عقلی کو بیدار کر دیا اور اس نے اب سمجھا کہ اس وقت تک یہ جو کچھ ہوتا رہا ہے ایک زبردست بادشاہ کی قاہرانہ طاقتوں کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ مجھ پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کو یہ بے نظیر طاقت اور یہ معجزانہ قدرت کسی ایسی ہستی کی عطا کردہ ہے جو شمس و قمر بلکہ کل کائنات کا تنہا مالک ہے اور اس لیے سلیمان
(علیہ السلام) مجھ سے اپنی تابعداری اور فرمان برداری کا طالب نہیں بلکہ اسی ” یکتا ذات “ کی اطاعت وانقیاد کی دعوت دینا اس کا مقصد ہے۔
ملکہ کے دماغ میں یہ خیال آنا تھا کہ اس نے فوراً حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے ایک شرمسار اور نادم انسان کی طرح درگاہ الٰہی میں یہ
اقرار کیا ” پروردگار ! آج تک ماسویٰ اللہ کی پرستش کر کے میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا۔ مگر اب میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ ہو کر صرف ایک خدا ہی پر ایمان لاتی ہوں جو تمام کائنات کا پروردگار ہے “ اور اس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پیغام وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ کی حقیقی مراد تک پہنچ کر اس نے دین اسلام اختیار کر لیا :
قرآن عزیز نے ملکہ سبا کے اس واقعہ کو ایسے معجزانہ اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے کہ واقعہ کے بیان کرنے سے جو حقیقی مقصد ہے یعنی ” تذکیر “ وہ بھی نمایاں رہے اور واقعہ کے اہم اور ضروری حصے بھی ذکر میں آجائیں اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم ” منطق الطیر “ عطا ہونے کا جو پہلی آیات میں ذکر ہے اس کی شہادت کے لیے یہ دوسرا واقعہ ہے جو ہدہد (پرند) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکالمے سے شروع ہوتا ہے :
{ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا اَرَی الْہُدْہُدَز صلے اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ ۔ لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لاَذْبَحَنَّہٗ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ ۔ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍِ بِنَبَاٍِ یَّقِیْنٍ ۔ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ ۔ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ ۔ اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ۔ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ۔ قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ ۔ اذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ ۔ قَالَتْ ٓیاَیُّہَا الْمَـلَاُ اِنِّیْ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیْمٌ ۔ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ قَالَتْ ٓیاَیُّہَا الْمَـلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ اَمْرِیج مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ ۔ قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّۃٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ ٥ لا وَّالْاَمْرُ اِلَیْکِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ ۔ قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَا اَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ۔ وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌم بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ ۔ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍز فَمَا اتَانِ اللّٰہُ خَیْرٌ مِّمَّا اتَاکُمْج بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ ۔ اِرْجِعْ اِلَیْہِمْ فَلَنَاْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ ۔ قَالَ ٓیاَیُّہَا الْمَـلَاُ اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔قَالَ عِفْریْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اتِیکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَج وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ۔ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اتِیکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَط فَلَمَّا رَ اہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف صلے لِیَبْلُوَنِیْ أَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ ۔ قَالَ نَکِّرُوْا لَہَا عَرْشَہَا نَنْظُرْ اَتَہْتَدِیْ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُوْنَ ۔ فَلَمَّا جَائَتْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَج وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ ۔ وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط اِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ۔ قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَاط قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَاریْرَ ٥ ط قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ } [41]
” اور پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگا : کیا وجہ ہے میں ہدہد کو نہیں پاتا ؟ کیا واقعی وہ غائب ہے ؟ ایسا ہے تو ضرور میں اس کو سخت عذاب میں ڈالوں گا یا ضرور اس کو ذبح کروں گا اور یا میرے پاس غیر حاضری کی معقول وجہ بیان کرے۔ بہت دیر نہیں لگی کہ (ہد ہد نے حاضر ہو کر) کہا : میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا۔ میں سبا کی ایک یقینی خبر لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ میں نے ایک عورت کو ملکہ دیکھا جو اہل سبا پر حکومت کرتی ہے اور اس کے پاس سب کچھ مہیا ہے اور اس کا ایک عظیم الشان تخت ہے میں نے اس کو اس حال میں پایا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے سوا آفتاب کی پرستش کرتی اور اس کے سامنے سربسجدہ ہوتی ہے اور شیطان نے ان کے ان کاموں کو بھلا اور اچھا دکھا رکھا ہے اور راہ مستقیم سے ہٹا رکھا ہے ‘ لہٰذا وہ راہ یاب نہیں ہوتے (تعجب ہے کہ) وہ کیوں اس اللہ کو سجدہ نہیں کرتے جو نکالتا ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں اور جو تم ظاہر کر کے کرتے اور جو چھپا کر کرتے ہو ان سب کا جاننے والا ہے ‘ اللہ ہے اس کے ماسوا کوئی معبود نہیں وہ پروردگار ہے عرش عظیم کا۔ سلیمان نے کہا : ہم اب دیکھتے ہیں کہ تو اپنے قول میں سچا ہے یا جھوٹا ہے ‘ لے یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ کر دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں (ملکہ) کہنے لگی : اے درباریو ! میرے پاس ایک معزز خط ڈالا گیا ہے ( اس میں تحریر ہے) ” یہ خط ہے سلیمان کی طرف سے اور وہ یہ ہے کہ اس اللہ کے نام سے شروع جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے ‘ تم کو چاہیے کہ مجھ پر برتری کا اظہار نہ کرو اور میرے مقابلہ میں قوت کا مظاہرہ نہ کرو اور چلے آؤ میرے پاس مسلمان ہو کر “ کہنے لگی اے میری جماعت ! مجھ کو میرے معاملہ میں مشورہ دو (کیونکہ ) میں تمھارے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ انھوں نے جواب دیا : ہم بہت قوت والے اور سخت جنگجو ہیں ‘ آگے تیرے اختیار میں ہے تو غور کرلے کہ تیرا کیا حکم ہے (ملکہ نے) کہا : بادشاہ جب (فاتحانہ) کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کرتے اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ سلاطین ایسا ہی کرتے ہیں اور میں ان کی جانب کچھ ہدایا بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں۔ قاصد جب سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کہ کیا تم میری مالی اعانت کرنا چاہتے ہو (جو یہ بیش بہا ہدایا لے کر آئے ہو) مجھے نہیں چاہئیں تم ہی اپنے ان تحفوں سے خوش رہو۔ تو واپس جا (اگر میرے پیغام کا یہی جواب ہے) تو ہم ان پر آ پہنچتے ہیں ‘ ایسا لشکر لے کر جن کا مقابلہ ان سے نہ ہو سکے اور ہم ان کو ذلیل کرکے ان بستیوں سے نکال دیں گے (قاصد نے جواب سنایا تو ملکہ نے فوراً ارادہ کر لیا کہ سلیمان تک پہنچے سلیمان کو یہ معلوم ہوا تو) سلیمان نے کہا : اے درباریو ! تم میں کوئی ایسا ہے جو اس کا تخت لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمان بردار ہو کر آپہنچے۔ ان میں سے ایک دیو پیکر جن نے کہا : میں اس کو مجلس برخاست ہونے سے پہلے لاسکتا ہوں اور مجھ کو یہ قدرت حاصل ہے اور میں اس کے بارے میں امین ہوں اور جس کے پاس کتاب (الٰہی ) کا علم تھا ‘ اس نے کہا : میں تیری پلک جھپکتے اس کو حاضر کرسکتا ہوں۔ پھر جب سلیمان نے (پلک جھپکتے ہی) اس کو اپنے پاس موجود پایا تو کہا : یہ میرے پروردگار کا فضل ہے میری آزمائش کے لیے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے نفس کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بے پروا ہے کرم والا ہے۔ سلیمان نے کہا اس تخت کی ہیئت بدل کر اس کو عورت کے سامنے پیش کرو ہم دیکھیں گے کہ وہ سمجھ پاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جن کو سمجھ نہیں۔ جب وہ آپہنچی تو اس سے کہا گیا : کیا ایسا ہی ہے تیرا تخت ؟ اس نے کہا :
گویا یہ وہی ہے اور ہم کو (سلیمان کی بے نظیر طاقت کا) پہلے سے علم ہو چکا ہے اور ہم اس کے فرمان بردار ہیں اور اس کو (ایمان لانے سے) روکے رکھا اس چیز نے جس کو وہ خدا کے ماسوا پوجتی تھی۔ بلاشبہ وہ قوم کافرین میں سے تھی (اب) اس سے کہا گیا محل میں چلو ‘ اس نے محل (کی ساخت) کو دیکھا تو سمجھی کہ گہرا پانی بہہ رہا ہے اور (یہ سوچ کر پار ہونے کے لیے) اپنی پنڈلیاں کھولیں (کسی نے کہا) یہ تو ایک محل ہے جس میں جڑے گئے ہیں آبگینے۔ کہنے لگی : اے پروردگار ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور میں اب سلیمان کے ساتھ ایمان لاتی ہوں اس اللہ پر جو پروردگار ہے جہانوں کا۔ “
چند قابل تحقیق مسائل
حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کے واقعہ سے متعلق چند مسائل قابل تحقیق ہیں جن کا حل ہونا ازبس ضروری ہے اور وہ ترتیب وار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :
سبا کی تحقیق
سبا کے متعلق مفصل تحقیق تو ” سیل عرم “ کی بحث میں آئے گی ‘ یہاں صرف اس قدر معلوم ہوجانا کافی ہے کہ قحطانی نسل کی ایک مشہور شاخ سبا ہے۔ یہ اپنے قبیلہ کا جد اعلیٰ تھا اور اس کا نام عمر یا عبد شمس تھا اور سبا اس کا لقب ‘ یہ عرب مورخین اور جدید مورخین کی تحقیق ہے اور توراۃ کا بیان ہے کہ اس کا نام ہی سبا تھا۔ یہ شخص بہت جری اور صاحب ہمت تھا اور اس نے زبردست فتوحات کے ذریعہ حکومت سبا کی بنیاد ڈالی۔ سبا کا زمانہ عروج محققین کے نزدیک تقریباً 1100 ق م سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ تقریباً 1000 ق م اس کی حکومت و طاقت اور عروج کا ذکر داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
” اے خدا بادشاہ کو اپنی عدالتیں عطا کر اور بادشاہ کے بیٹے کو اپنی صداقت دے۔ وہ تیرے لوگوں میں صداقت سے حکم کرے گا۔۔ ترسیس اور جزیروں کے سلاطین نذر دیں گے اور سبا اور شیبا کے بادشاہ ہدیے گزاریں گے۔ وہ جیتا رہے گا سبا کا سونا اسے دیا جائے گا اس کے حق میں سدا دعا ہوگی۔ “ [42]
چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی یہ دعا قبول ہوئی اور تقریباً 950 ق م میں ملکہ سبا نے حاضر ہو کر سبا کا سونا اور جواہرات نذر گزارنے بلکہ مسلمان ہو کر حکومت سبا کو ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیر فرمان کر دیا۔
سبا کی حکومت کا اصل مرکز عرب کے جنوبی حصہ یمن کے مشرقی علاقہ میں تھا اور دار الحکومت کا نام مآرب تھا ‘ اس کو شہر سبا بھی کہتے تھے اور آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع ہو کر مغرب میں حضرموت تک وسیع ہو گیا تھا ‘ اور دوسری جانب افریقہ تک بھی اس کا اثر پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ حبشہ میں اذنیہ کا علاقہ سبا کے ماتحت تھا جس پر معافر ایک سبائی گورنر حکومت کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ معین کی حکومت زوال پزیر تھی اور سبا نے یمن اور اطراف یمن میں اپنے مشہور قلعے تعمیر کر لیے تھے اور معین کے قلعے کھنڈر کی صورت میں بدلتے جا رہے تھے۔ سبا کی مختلف شاخیں تھیں اور عرصہ دراز کے بعد ان میں سے متعدد شاخوں نے یمن کو مرکز حکومت بنا کر عظیم الشان تمدن اور حکومت کی بنیادیں قائم کرلی تھیں ان میں سے حمیر اور تبابعہ مشہور حکمراں شاخیں ہیں اور ان سے قبل کے سبا کے حکمراں ملوک سبا کے لقب سے مشہور ہیں اور ملوک سبا کا آخری دور حکومت 550 ق م بتایا جاتا ہے۔ [43]
ملکہ سبا کا نام
قرآن عزیز نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کے واقعہ میں نہ یہ بتایا کہ اس ملکہ کا نام کیا تھا اور نہ یہ تعیین کی کہ وہ سبا کے دائرہ حکومت کے تین مراکز یمن ‘ حبشہ ‘ شمالی عرب میں سے کس حصہ سے آئی تھی ؟ کیونکہ اس کے مقصد کے لیے یہ دونوں باتیں غیر ضروری ہیں مگر عرب یہود کی اسرائیلی داستانوں میں اس کا نام بلقیس مذکور ہے اور اہل حبشہ جن کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملکہ سبا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اپنی زبان میں ملکہ کا نام ماکدہ بیان کرتے ہیں۔
جہت کے متعلق ترگوم میں ہے کہ اس کا ملک فلسطین سے مشرق میں ہے اور انجیل میں ہے کہ فلسطین کے جنوب میں ہے۔ یوسیفوس کی تاریخ میں ہے کہ وہ مصر و حبشہ کی ملکہ تھی اور اہل حبش اس کو حبشی نژاد سمجھتے اور شاہان حبش آج تک فخریہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ملکہ سبا (بلقیس ) کی نسل سے ہیں۔
[44][45][46]
ان روایات میں اہل تحقیق یوسیفوس کی روایت کو غلط کہتے ہیں اور باقی دونوں روایتوں کا حاصل ایک ہی ظاہر کرتے ہیں اس لیے کہ یہ دونوں حصے یمن ہی کی حکومت کے حصے تھے اور انجیل کے بیان کو زیادہ صحیح مانتے ہیں۔ ماہرین اثریات (Archaedagists ) کہتے ہیں کہ خاص یمن کے علاقہ میں کتبات اور دیگر حفریات سے کسی عورت کا حکمراں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا ‘ البتہ شمالی عرب متصل عراق میں چار قدیم حکمراں عورتوں کے نام
ضرور ملتے ہیں ‘ لہٰذا زیادہ امکان یہ ہے کہ ملکہ سبا اسی حصہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچی ہے۔
ہد ہد
قرآن عزیز نے بہت صاف اور واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قاصد ہد ہدپرندہ تھا ‘ لیکن قانون قدرت اور نیچر کا نام لے کر آج کل کے بعض اہل علم اس قسم کے اعجاز نما واقعات سے بھڑکتے اور ان کو خلاف عقل کہہ کر آیات قرآنی کے انکار پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اگر
مذہب پر بہت احسان فرماتے ہیں تو آیات کی معنوی تحریف کر کے رکیک تاویلات اور قرآن کی مراد کے خلاف خود ساختہ توجیہات بیان کردیتے ہیں۔ چنانچہ اس مقام پر بھی یہی پیش آیا کہ اول پرندہ کا بات چیت کرنا خلاف عقل قرار دیا گیا اور پھر واقعہ زیر بحث سے متعلق آیات کے معنی بیان کیے
گئے اور کہا گیا کہ پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ مشرکین اکثر اپنی اولاد کے نام دیوتاؤں اور دیویوں کے نام پر رکھ لیا کرتے تھے جن میں حیوانات کے نام بھی ہوتے تھے ‘ لہٰذا اس جگہ بھی ہدہد سے پرندہ مراد نہیں ہے بلکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قاصد ” انسان “ مراد ہے جس کا نام غالباً ہدہد ہوگا۔
لیکن جب ان پر یہ اعتراض وارد ہوا کہ قرآن عزیز نے جبکہ صاف الفاظ میں یہ کہا ہے وَتَفَقَّدَ الطَّیْرُ (اور پرندوں کا جائزہ لیا) تو ہدہد کو انسان کہنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ تب مولوی چراغ علی نے اس کی یہ توجیہ بیان کی کہ اس جگہ طیر کے معنی ” فوج “ کے ہیں ‘ یعنی جب سلیمان (علیہ السلام) نے فوج کا جائزہ لیا۔ مگر افسوس کہ ان کے یہ معنی بے سند اور عربی لغت کے پیش نظر باطل ہیں اور یہ مسلم ہے کہ لغت میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے بلکہ وہ اہل زبان کے استعمال کے تابع ہے اور اہل عرب حقیقی اور مجازی کسی معنی کے اعتبار سے بھی ” طیر “ بمعنی ” فوج “ نہیں استعمال کرتے بلکہ ” الطیر “ اور ” طیر “ متعلقات و اضافات سے مجرد ہونے کی صورت میں صرف ” پرندہ “ کے معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔
قرآن عزیز اس زندہ زبان میں نازل کیا گیا ہے جس کو { لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ} (نحل ١٦/١٠٣) کہا گیا ہے ‘ یہ کسی مردہ زبان میں نہیں اتارا گیا کہ ہر شخص اپنی مرضی کے ماتحت جس لفظ کے جو چاہے معنی بیان کر دے۔ ایک شخص ” اصحاب فیل “ کے اصل واقعہ کا انکار کرنا چاہے تو طَیْرًا اَبَابِیْلَ میں ” طیر “ کے معنی بدشگونی کے اختیار کرلے اور دوسرا شخص اگر ہدہد سلیمان کو پرندہ تسلیم کرنے سے منکر ہو تو وہ تَفَقَّدَ الطَّیْرُ میں ” طیر “ کے معنی ” فوج “ کے بیان کر دے خواہ دونوں معنی اپنے اپنے مقام پر لغت عربی کے لحاظ سے قطعاً غلط اور محاورہ عرب کے اعتبار سے باطل ہی کیوں نہ ہوں۔
سخت تعجب ہے مولانا سید سلیمان ندوی سے کہ اس مقام پر مولوی چراغ علی کی تاویل باطل کا رد کرنے کے باوجود اس مسئلہ کو عقلی بنانے کے خیال میں یہ تحریر فرما رہے ہیں :
” اور اگر پرندوں کا بولنا اب بھی کھٹکتا ہے تو فرض کرلو کہ نامہ بر کبوتروں کی طرح تربیت یافتہ نامہ بر ہدہد ہوگا اور اس کے بولنے سے مقصود اس مضمون کا خط اس کے پاس ہونا سمجھ لو جیسا کہ خود اسی موقع پر قرآن مجید میں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط دے کر اس کو ملکہ سبا کے پاس بھیجا۔ اسی طرح پہلے بھی خط لے کر آیا ہوگا۔ “ [47]
تعجب اس لیے ہے کہ جبکہ قرآن عزیز ” منطق الطیر “ کو اور ” نملہ “ اور ” ہدہد “ کے واقعات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے عظیم الشان نعمت اور بے غایت احسان ظاہر کر رہا ہے اور قرآن عزیز کا سیاق اور سباق ان واقعات کو ایسے انداز میں بیان کرتا ہے جس سے ہدہد کا پرندہ ہو کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے باتیں کرنا صاف اور صریح معلوم ہوتا ہے تو چند فطرت پرستوں کے بلادلیل انکار اور حقائق ثابتہ کو اپنے ناقص علم میں محدود مان کر وحی کے دیے ہوئے علم کے انکار پر اصرار کی خاطر سید صاحب نے کیوں ایسی تاویل بیان کی کہ جو قرآن عزیز کے بیان کردہ مقصد کے خلاف ہے۔ نیز کسی واقعہ کا توراۃ یا اسرائیلی روایات میں منقول ہونا اس کے باطل اور لغو ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ جب قرآن عزیز یا احادیث صحیحہ بدلائل اس کے باطل ہونے کو واضح کریں یا قرآن و حدیث کے روشن اصول و مسلمات کے خلاف وہ کوئی بات بیان کریں یا ایسی تفصیلات نقل کریں کہ جو قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہیں اور عقل و درایت کی نگاہ میں لغو و فضول ہیں تو بلاشبہ اس قسم کی تمام اسرائیلی روایات قابل رد ہیں لیکن ایک واقعہ بصراحت قرآن یا حدیث میں موجود ہے اور توراۃ یا اسرائیلی ادبیات بھی اسی طرح کا واقعہ نقل کرتی ہیں تو محض اس لیے کہ یہ واقعہ اسرائیلی روایات میں بھی مذکور ہے اس کو غلط قرار دے کر قرآن کے صاف اور صریح مطالب میں تحریف یا رکیک تاویلات کا باب کھول دینا ہرگز جائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی ادبیات میں منقول شدہ واقعہ کو قرآن اور حدیث کے مصر حہ واقعہ کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے منقول ہے کہ ہدہد (پرندہ) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا پانی کے لیے انجینئر تھا۔ زمین کے اندر جس جگہ بھی پانی ہوتا اور لشکر کو ضرورت پیش آتی تو ہدہد بتا دیتا کہ اس جگہ اس قدر گہرائی پر پانی ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنوں سے کھدائی کرا کر پانی کو کام میں لاتے۔ [48]
ملکہ سبا کا تخت
ملکہ سبا کے تخت کی تعریف ہدہد کی زبانی ہم سن چکے ہیں اور اس سلسلہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ بھی قرآن میں مذکور ہے کہ ان کے حکم سے نگاہ پلٹتے ہی وہ تخت سبا کے ملک سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں پیش کر دیا گیا۔ اس کے متعلق قرآن عزیز کی چند تصریحات کو سامنے رکھنا ضروری ہے :
ملکہ نے اپنے قاصدوں کے ہاتھ جو ہدایا بھیجے تھے ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا :
{ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍز فَمَا اتَانِییَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِّمَّا اتَاکُمْج بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ ۔ اِرْجِعْ اِلَیْہِمْ ۔ } [49] 1- جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ ملکہ سبا ( حضرت سلیمان کے ملک کی جانب)
روانہ ہو گئی تو درباریوں سے کہا گیا کہ اس کے یہاں آنے سے قبل کون اس تخت کو میرے پاس لاسکتا ہے :
{ قَالَ یٰٓـاَیُّہَا الْمَـلَاُ اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } [50] 2- اول ایک دیو پیکر جن نے کہا کہ میں آپ کے دربار برخاست ہونے سے پہلے اس کو حاضر کرسکتا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ کہا کہ میں بہت قوی ہوں اور اس تخت کے بیش قیمت سامان کے لیے امین بھی ہوں :
{ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَج وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ} [51] 3- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وزیر نے کہا کہ میں آپ کی نگاہ پلٹتے ہی اس کو پیش کرسکتا ہوں :
{ اَنَا اتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ } [52] 4- جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے رخ پھیر کر دیکھا تو تخت کو اپنے نزدیک موجود پایا یہ دیکھ کر انھوں نے خدائے تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل میری اس آزمائش کے لیے ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ ہوں یا نافرمان :
{ فَلَمَّا رَ اہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف صلے لِیَبْلُوَنِیْ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ } [53] 5- حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اب حکم دیا کہ اس کی ہیئت تبدیل کردو :
{ قَالَ نَکِّرُوْا لَہَا عَرْشَہَا نَنظُرْ اَتَہْتَدِیْ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُوْنَ } [54] 6- جب ملکہ سبا سفر کر کے دربار سلیمان میں پہنچ گئی تو اب اس سے یہ دریافت کیا گیا کہ یہ تخت ایسا ہی ہے جیسا کہ تیرا ؟ اور اس نے عاقلانہ جواب دیا ‘ گویا یہ وہی ہے :
{ فَلَمَّا جَائَتْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِط قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ } [55]
تخت سے متعلق اس تفصیل اور پھر اس کی ترتیب کو پیش نظر رکھیے تو معلوم ہوگا کہ قرآن ایک ایسے تخت کا ذکر کر رہا ہے جس کی خبر ہدہد نے سلسلہ پیغام سے پہلے دی تھی۔ وہ سلیمان (علیہ السلام) کے لیے بنایا نہیں گیا تھا۔ اس لیے کہ قاصد کی معرفت جو ہدایا بھیجے گئے ‘ ان میں تخت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور وہ واپس بھی گئے مگر ملکہ کے آنے کی خبر سن کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کا شاہی تخت اس کے پہنچنے سے قبل اپنے دربار میں منگانا چاہتے ہیں اور اس کا لانا ایسا عجیب و غریب ہے کہ جنوں میں سے بھی ایک بہت بڑا دیو پیکر جن یہ وعدہ کرتا ہے کہ دربار برخاست ہونے سے پہلے اٹھا کر لاسکتا ہوں ‘ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معتمد کہتا ہے کہ میں پلک جھپکتے حاضر کر دوں گا اور حاضر کردیتا ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) خدا کے عطا کردہ اس اعجاز کو دیکھ کر اس کو خدا کا عظیم الشان فضل قرار دیتے ہیں اس کے بعد تخت کی ہیئت تبدیل کرنے کا حکم فرماتے ہیں اور ان تمام مراحل کے بعد اب ملکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں پہنچتی ہے اور تخت سے متعلق سوال و جواب ہوتے ہیں اور اس جگہ بھی قرآن ملکہ سبا کے کسی تحفہ کا ذکر نہیں کرتا۔
اس پوری تفصیل میں نہ اپنی جانب سے کوئی تاویل اور توجیہ ہے اور نہ توڑ مروڑ کر اس کو اپنی خواہش کے مطابق کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس تخت کا معاملہ بیشک و شبہ اعجاز اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کا ” نشان “ ہے اور جن حضرات نے اس کے علاوہ دوسرے معانی یا تفاسیر بیان کی ہیں وہ سب باطل ہیں اس لیے کہ وہ یا تو قرآن کے صاف اور سادہ بعض حصوں کو نظر انداز کر کے بیان کی گئی ہیں جیسا کہ مولانا سید سلیمان صاحب ندوی نے کیا ہے یا اس کے بعض الفاظ سے غلط فائدہ اٹھا کر باقی پورے واقعہ کی حقیقت کو مسخ کر دیا گیا ہے۔
علامہ ندوی نے جو تاویل ان آیات کی فرمائی ہے اس کو مطالعہ کرنے کے بعد ارباب نظر خود انصاف فرما سکتے ہیں کہ قرآن عزیز کے زیر بحث واقعہ کا مضمون ان کی تاویل کے ساتھ کس درجہ مطابقت رکھتا ہے ؟ فرماتے ہیں :
” ہماری رائے یہ ہے کہ ملکہ سبا نے تحفہ کے طور پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اپنے ملک کی صنعت کاری کی ایک چیز تیار کرائی تھی اور چونکہ یہ تحفہ تھا ضرور ہے کہ ملکہ اپنے ساتھ شام لائی ہوگی۔ تحفہ کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ قرآن نے سبا کی پہلی سفارت میں تحفہ کا ذکر کیا اور نبی یم میں بھی سبا کے تحائف کا ذکر ہے۔
قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک درباری نے جو کتاب سے واقف تھا عرض کی کہ میں نگاہ پلٹنے سے پہلے ملکہ کا تخت اٹھالاتا ہوں۔ نگاہ پلٹنے سے پہلے تخت اٹھالانے سے مقصود جیسا کہ ہماری زبان میں سرعت اور جلدی سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح عربی زبان میں قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ سے یہی سمجھنا چاہیے۔ بعض تابعین اور مفسرین کبار نے بھی اس لفظ کے یہی معنی لیے ہیں اور یہ کہنا تو درحقیقت محاورات زبان سے نادانی کا ثبوت ہے کہ واقعتا اس سے نگاہ پلٹنے کے ساتھ کام کا ہوجانا مقصود ہے۔ “ [56]
کاش کہ سید صاحب ان تابعین اور مفسرین کبار کا نام بھی ظاہر فرما دیتے جنھوں نے سید صاحب کی تاویل کے مطابق معنی بیان کیے ہیں ورنہ اس جملہ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ سے سرعت اور جلدی کے معنی لینے کا تو کسی کو بھی انکار نہیں ‘ فرق یہ ہے کہ سید صاحب اس سرعت کو محاورہ کی حدود میں محدود رکھنا چاہتے ہیں اور قرآن اس مقام پر ان حدود سے بالاتر ہو کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ” نشان “ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس کو { قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ } [57] کہنے والے کے مقابلہ میں ترجیح دی گئی ورنہ یہ تقابل فضول ہوجاتا ہے کیونکہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد یہ ٹھہرا کہ وہ توشہ خانے سے دربار میں ملکہ کی آمد سے قبل آجائے تو قوی امین کی پیش کش اس کے لیے کافی تھی اور نہ یہ کوئی ایسا اہم معاملہ رہ جاتا جس پر مذاکرہ ہوتا اور قرآن اس کی تفصیل کو اتنی اہمیت دیتا۔
نجار نے اس موقع پر بہت عمدہ بات تحریر فرمائی ہے : ” حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کا تخت اس شخص کے ذریعہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا ‘ جس خاص طریقہ سے منگایا وہ ایسا طریقہ ہے جس کو موجودہ علوم ابھی تک نہیں پاسکے اور تخت کا یہ واقعہ صریح نص سے ثابت ہے جو یقینی الثبوت والدلالت ہے اور ان مفسرین کی تاویل انتہائی رکیک اور قابل افسوس ہے جنہوں نے عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ کے یہ معنی بیان کئے کہ اس کے پاس مملکت سلیمان کا خریطہ رہتا تھا ‘ لہٰذا اسے معلوم تھا کہ یہ ” تخت “ سلیمان (علیہ السلام) کے کس توشہ خانہ میں رکھا ہے اور خارق عادات معجزات کا جب ثبوت موجود ہو تو انکار اور بےدلیل انکار سے کیا فائدہ اس لیے کہ قوانین قدرت کا جو خالق ہے اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ قدرت کے کسی عمل کو توڑ پھوڑ دے اور یہ کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس قسم کے معجزانہ اعمال کیلئے عام قوانین قدرت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے خاص قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کار فرما ہیں جن کو ابھی تک ” علم “ معلوم نہیں کرسکا اور جن پر صرف وہی پاک نفوس مطلع ہوتے ہیں جن کے ہاتھ پر وہ نوامیس کے ذریعہ معجزات کا ظہور کراتا ہے۔ “ ((وَاللّٰہُ تَعَالٰی یَخْلُقُ مَا یَشَائُ وَ یَخْتَارُ )) [58]
عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبْ کی شخصیت
مفسرین کہتے ہیں کہ جس شخص کے متعلق قرآن عزیز نے یہ کہا ہے کہ اس کے پاس کتاب کا ” علم “ تھا اس کا نام آصف بن برخیا تھا اور یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معتمد خاص اور کاتب (وزیر) تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے یہی منقول ہے اور بعض مفسرین نے کچھ اور نام بھی ذکر کیے ہیں ‘ مگر زیادہ پہلے قول ہی کو راجح تسلیم کرتے ہیں۔ [59]
مفسرین نے اس مسئلہ پر بھی بحث کی ہے کہ یہ شخص انسانوں میں سے تھا یا قوم جن سے۔ ضحاک ‘ قتادہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ وہ انسانوں میں ہی سے تھا۔ [60]
اس شخص کے متعلق تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیت کے جملہ { عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ } [61] میں
علم کتاب سے کیا مراد ہے ؟ وہب بن منبہ ‘ مجاہد اور محمد بن اسحاق (رحمہ اللہ علیہما) کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسم اعظم سے واقف تھا اور بعض جدید اہل قلم کہتے ہیں کہ اس سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا درباری رجسٹر اور سرکاری دفتر مراد ہے۔ یعنی اس کو ہدایا کے رجسٹر کے امین ہونے کی وجہ سے یہ علم تھا کہ وہ ” تخت “ توشہ خانہ کے کس حصہ میں محفوظ ہے اور سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں :
” میری رائے یہ ہے کہ کتاب سے خط مراد ہے۔ لفظ ” کتاب “ اسی قصہ میں اس سے پہلے دو بار اسی معنی میں قرآن مجید میں آچکا ہے : { اِذْھَبْ بِکِتَابِیْ ھٰذا } [62] ” میری یہ کتاب (خط) لے جا ! “ { اِنَّہٗ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ} [63] ” میرے پاس ایک کتاب (خط) آئی ہے۔ “ اس کے علاوہ لفظ کتاب کا بمعنی ” خط “ عام طور سے استعمال ہے۔ بلکہ فصحاء اس کے سوا خط کے لیے کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ میری تاویل کے مطابق آیت کا مقصود یہ ہے کہ درباریوں میں سے ملکہ سبا کے مضمون خط کا جس کو علم تھا کہ وہ بطور تحفہ اپنے ساتھ ایک تخت لائی ہے ‘ اس نے کہا ” میں ابھی لاتا ہوں “ [64] ہمارے نزدیک آخر کے دونوں قول غلط اور قرآن کی تصریحات کے خلاف ہیں۔ اس لیے کہ زیر بحث تخت کا یہ معاملہ ملکہ سبا کے دربار سلیمانی میں پہنچنے سے قبل کا ہے تعجب ہے کہ فطرت پرستوں کی مرعوبیت میں اس صاف اور واضح بات کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا اسی طرح رجسٹر اور دفتر سے بھی اس معاملہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابھی تو ملکہ اور اس کے رفقا یا اس کے ہدایا دربار سلیمانی میں پہنچے ہی نہیں اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ کے آنے کی خبر وحی کے ذریعہ نہیں بلکہ ہدہد یا ملکہ سبا کے کسی قاصد کے ذریعہ ہوئی جو ملکہ کا خط لے کر ملکہ کے آگے روانہ ہوا تب بھی کسی جگہ نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلیات میں یہ مذکور ہے کہ ملکہ سے پہلے اس کے تحفہ کا تخت حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچ چکا تھا ‘ اس لیے اٹکل کے یہ تیر ٹھیک ٹھکانے پر نہیں بیٹھتے اور صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ یہ شخص آصف ہو یا کسی اور نام سے موسوم ‘ درحقیقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا صحابی اور ان کا بہت مقرب تھا اور جس طرح صدیق اکبر کی شخصیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں نمایاں تھی اسی طرح یہ حضرت سلیمان کا رفیق تھا اور ان کے شرف صحبت سے اس کو توراۃ ‘ زبور اور اسماء وصفات الٰہی سے متعلق اسرار و حقائق کا زبردست علم حاصل تھا اس لیے کہ جب جنوں میں سے ایک ” عفریت “ نے تخت سبا کو حاضر کرنے کا دعویٰ کیا تو اگرچہ مقصد کے حاصل ہونے کے لیے یہ مدت بھی کافی
تھی مگر سلیمان (علیہ السلام) کا گوشہ خاطر یہ رہا کہ یہ عمل عِفْرْیْتٌ مِّنَ الْجْنِّ کے ذریعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ خدا کے کسی خاص بندے کے ہاتھ پر ہونا چاہیے تاکہ ان کی پیغمبرانہ توجہ سے وہ ” معجزہ “ اور ” نشان “ بن کر ملکہ سبا کے سامنے پیش ہو۔
آصف نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس گوشہ التفات کو سمجھ کر فوراً خود کو پیش کیا اور عفریت کی بیان کردہ مدت سے بھی قلیل مدت میں حاضر کرنے کا وعدہ کر لیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مبارک توجہ اس اعجاز کو پورا کر دکھائے گی اور چونکہ معجزہ خدا تعالیٰ کا اپنا فعل ہوتا ہے جو نبی کے ہاتھ پر ظاہر کیا جاتا ہے تو حضرت سلیمان نے اپنی صداقت و نبوت اور عظمت رسالت کے اس نشان کو دیکھ کر ان الفاظ میں خدائے تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا : ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ یعنی جو کچھ بھی ہوا ‘ اس میں آصف کی یا میری سعی اور قوت کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ محض خدا کا فضل ہے جس نے یہ کام کر دکھایا : { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } [65]
ملکہ سبا کا قبول اسلام
حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کا واقعہ اس حد پر جا کر ختم ہوجاتا ہے کہ ملکہ نے پیغمبرانہ جاہ و جلال کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا :
{ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [66]
اور اس مکمل واقعہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی یہی ایک غرض تھی جس کا اظہار انھوں نے اپنے پہلے مکتوب ہی میں کر دیا تھا مگر ملکہ اس غرض کو نہ پاسکی تھی۔
عام مفسرین کی نگاہوں میں یہ سوال حل طلب رہا ہے کہ اس مقصد کے لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ کو اپنے دربار میں بلانا تو بیشک اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن تخت کو اس طرح منگوانا اور آبگینہ کے محل کے سامنے ملکہ کے ساتھ پیش آمدہ معاملہ ہونا اس مقصد سے کیا تعلق رکھتا ہے ؟ اور پھر خود ہی یہ جواب دیا ہے کہ اس سے ملکہ سبا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھا کہ وہ یہ یقین کرلے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بلانے کی غرض دنیوی لالچ اور دولت و حکومت میں اضافہ نہیں ہے بلکہ اس سے بلند وبالا دوسرا مقصد ہے۔ نیز وہ یہ سمجھ جائے کہ یہ دونوں واقعات شاہانہ
اقتدار اور قاہرانہ قوت و طاقت سے بالاتر اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ صداقت کا نشان ہیں۔ اسی لیے مفسرین نے ملکہ سبا کے قول کُنَّا مُسْلِمِیْنَ میں اسلام بمعنی ایمان مراد لیا ہے۔
یعنی ملکہ نے حقیقی معنی میں اسلام قبول کر لیا۔
لیکن مفسرین کی حکمت و مصلحت کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ان کی اس دلیل پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ کہہ کر ملکہ نے اسلام قبول کر لیا تھا تو اس کے بعد کی آیات کے ان دو جملوں کے کیا معنی ہوں گے :
{ وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط اِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ } [67]
” اور اس کو ایمان لانے سے ماسوی اللہ (آفتاب) کی عبادت نے باز رکھا ‘ کیونکہ بلاشبہ وہ قوم کافرین میں سے تھی۔ “
{ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [68]
یعنی آبگینہ کے محل کے واقعہ سے متاثر ہو کر ملکہ نے یہ کہا کہ اب تک میں نے شرک کر کے نفس پر ظلم کیا اور اب میں رب العٰلمین پر ایمان لاتی ہوں۔
ان دونوں جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ کہتے وقت وہ مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد دوسرے واقعہ سے متاثر ہو کر پھر دین اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ‘ حالانکہ دونوں باتوں کا مظاہرہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار ہی میں ہو رہا تھا۔ چنانچہ مجاہد ‘ سعید بن مسیب اور ابن جریر نے اس اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے زیر بحث
آیات کی یہ تفسیر کی ہے کہ جملہ وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ سے مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ تک سب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقولہ ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم کو ملکہ سبا کی آمد سے قبل ہی یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ملکہ کافروں میں سے ہے اور ہم بہرحال مسلمان ہیں اور ملکہ کو آفتاب پرستی نے ماسوی اللہ کی پرستش کا عادی بنا کر خدائے واحد کی عبادت سے روگرداں کر دیا ہے۔
اور ابن کثیر نے مجاہد کی اس تفسیر کو نقل کر کے کہا ہے کہ یہ قول راجح ہے اس لیے کہ ملکہ سبا ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی تھی بلکہ بصراحت قرآن وہ { صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ } [69] کے واقعہ کے بعد ایمان لائی ہے لہٰذا کُنَّا مُسْلِمِیْنَ اس کا مقولہ نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس تفسیر میں یہ سقم ہے کہ ضمائر کے مرجع میں بے ترتیبی اور خلل واقع ہوتا ہے یعنی جبکہ جملہ قَالَتْ کَاَنَہٗ ھُوَ میں قَالَتْ کی قائل ملکہ سبا ہے اور اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کوئی ذکر نہیں ہے تو بعد کے جملہ وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ کو جو پہلے جملہ کے متصل ہے ‘ کس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقولہ کہا جا سکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان دونوں جملوں کے درمیان ” قَالَ سُلَیْمٰنُ “ یا فقط ” قَالَ “ مقدر ہے تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے اور جبکہ مرجع کے اختلال کے بغیر ہی آیات کی صحیح تفسیر ہو سکتی ہے تو بے وجہ مقدر ماننے کی ضرورت ہی کیا باقی رہتی ہے۔ چنانچہ آیات زیر بحث کی ایسی تفسیر جس میں یہ دونوں سقم بھی باقی نہ رہیں اور ہر دو واقعات کی حکمت و مصلحت بھی روشن اور نمایاں ہوجائے۔ شیخ الہند (رحمہ اللہ علیہ) سے بواسطہ علامہ سید حسین احمد مدنی منقول ہے ‘ فرماتے ہیں :
حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد کی معرفت جو پیغام بھیجا تھا اس میں یہ لکھ کر وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ملکہ سبا کو صریح الفاظ میں دعوت اسلام دی تھی مگر ملکہ سبا چونکہ حقیقت توحید اور دین اسلام سے نا آشنا تھی ‘ اس لیے وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مطلب کو نہ سمجھ سکی اور مکتوب گرامی میں اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ کے بعد اس نے جب وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ کو پڑھا تو وہ شاہوں کی خط کتابت کے پیش نظریہ سمجھی کہ سلیمان (علیہ السلام) اپنے قاہرانہ اقتدار کے زور پر مجھ کو اور میری حکومت کو اپنا تابع فرمان اور زیر نگیں بنانا چاہتے ہیں اسی لیے اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کے بعد دریافت حال کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا جس کا ذکر قرآن کر رہا ہے اور جب اس کو یہ یقین ہو گیا کہ درحقیقت سلیمان (علیہ السلام) کی شاہانہ عظمت اور قاہرانہ سطوت شہنشاہوں سے بھی زیادہ بلند ہے تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ سلیمان (علیہ السلام) سے جنگ مناسب نہیں اور ان کی اطاعت وانقیاد ہی میں نجات ہے ‘ اس لیے ملکہ شام کی جانب روانہ ہو گئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب یہ اطلاع ملی کہ ملکہ سبا ان کی خدمت میں حاضری کے لیے روانہ ہو چکی ہے تو سوچا کہ ایسا کوئی لطیف طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ملکہ سبا خود یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے کہ آفتاب پرستی یقیناً گمراہی ہے اور سیدھی اور سچی راہ یہ ہے کہ صرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے۔
قوم سبا کا مذہب آفتاب پرستی تھا اور وہ اس فلسفہ کی قائل تھی کہ کائنات میں خیر و شر کی قدرت و طاقت کواکب کے ہاتھ میں ہے اور چونکہ آفتاب ان میں سب سے بڑا اور کائنات پر اثر انداز ہے اس لیے وہی اس قابل ہے کہ اس کی پرستش کی جائے۔ اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ملکہ کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ کائنات کی ان چھوٹی اور بڑی تمام اشیاء پر صرف ایک ” حقیقت “ کا تسلط ہے اور وہ خدائے کائنات ہے اور آفتاب و ماہتاب ‘ کواکب و سیارگان یہ سب اس کی مخلوق اور اس کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا انسان کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ وہ حقیقت کو چھوڑ کر مظاہر کی پرستش وجود اور اس کی ہستی کے لیے دلیل ہیں نہ کہ بجائے خود ” حقیقت “ اسی لیے تغیر و تبدل ‘ وجود و فنا ‘ طلوع و غروب ‘ ناپائیداری و بے ثباتی مظاہر کے رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہوئے ہے اور حقیقت (ذات
واحد) ان تمام تغیرات سے پاک اور بالاتر ہے یہ سوچ کر انھوں نے ملکہ کے شاہی تخت کو یمن سے اٹھا منگایا تاکہ اس کے نزدیک سے ایک مثال دے کر اس کو بتائیں اور اس پر یہ واضح اور ثابت کریں کہ دیکھ میرے اس دعوے کی دلیل خود تیرا یہ تخت شاہی ہے۔ غور کر کہ یہ تیری حکومت و سطوت کا مظہر ہے اور اسی لیے ” تخت شاہی “ کہلاتا ہے ‘ مگر جوں ہی تو اپنے ملک سے غائب ہوئی یہ ” مظہر “ بے حقیقت ہو کر رہ گیا اور کل جو تیری سطوت کا مظہر تھا ‘ آج وہ میرے دربار کی زینت بنا ہوا ہے اور یہاں بھی تبدیلی ہیئت و صورت کے ساتھ تجھ کو اپنی بے ثباتی اور ناپائیداری کا درس دے رہا ہے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس ارادہ کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جب انھوں نے ملکہ کا تخت اپنے دربار میں منگا لیا تو اس میں تغیر کا حکم دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:
{ نَنْظُرْ اَتَہْتَدِیْ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُوْنَ } [70]
” ہم یہ اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ دیکھیں کہ وہ اس واقعہ سے متاثر ہو کر ہدایت قبول کرتی ہے یا گمراہ ہی رہتی ہے۔ “
اس اعتبار سے یہاں ” ہدایت “ سے خاص اسلام کی ہدایت مراد ہے نہ کہ محض ” راہ یاب “ ہونا جو ہر معاملہ کی حقیقت پر آگاہ ہوجانے کے لیے عام ہے۔
اس اسلوب بیان سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ان کا جلال و جبروت صرف شاہانہ اقتدار اور حاکمانہ قوت و سطوت کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر خدائے تعالیٰ کی وہ طاقت کار فرما ہے جو شہنشاہوں کی قاہرانہ جبروت کی دسترس سے بھی بالاتر پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ ” نشان الٰہی “
کے نام سے وابستہ رہتی ہے اور ساتھ ہی تبلیغ و دعوت کے مسطورہ بالا طریقہ خصوصی کے ذریعہ یہ بھی واضح کر دیا کہ سبا کی آفتاب پرستی حقیقت کو چھوڑ کر مظہر کی ‘ باقی سے منہ موڑ کر فانی کی ‘ قدیم سے روگرداں ہو کر حادث کی ‘ صمد سے رخ بدل کر محتاج کی اور خالق سے نگاہ پھیر کر مخلوق کی پرستش ہے اور یہ سخت گمراہی اور ضلالت کی راہ ہے اور صراط مستقیم یہ ہے کہ صرف ” حقیقت “ (خدائے واحد) ہی کو نفع و ضرر اور خیر و شر کا مالک سمجھا جائے اور فقط اس کی ہی عبادت کی جائے۔
لیکن قوم سبا چونکہ صدیوں سے غیر اللہ کی پرستش میں اعتقاد رکھتی تھی اس لیے ملکہ اس لطیف دلیل کے سمجھنے سے قاصر رہی اور اس کی عقل و خرد حقیقت کی معرفت تک نہ پہنچ سکی اور ” تخت “ کے اس پورے واقعہ سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ سلیمان (علیہ السلام) اس محیر العقول طریقہ سے اپنی بے مثال شان و شوکت کا مظاہرہ کر کے مجھ کو اپنی اطاعت و فرمان برداری کے لیے متاثر کر رہے ہیں ‘ چنانچہ ملکہ نے یہی سوچ کر یہ جواب دیا ” آپ اگر یہ زبردست مظاہرہ نہ بھی کرتے تب بھی ہم کو پہلے سے آپ کے جلال و جبروت کا حال معلوم ہو چکا ہے اور ہم آپ کے تابع اور حکم بردار ہو چکے ہیں “ اور ملکہ کے اس جواب کو نقل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے درمیان میں اس کی صدیوں کی گمراہی اور معاملہ کی اصل حقیقت کے متعلق قصور فہم کی وجہ بھی یہ بیان فرما دی کہ آفتاب پرستی کی مداومت نے اب بھی اس کو قبول اسلام سے باز رکھا اور وہ کافر ہی رہی۔
یہی دو باتیں ہیں جو آیات ذیل میں بغیر کسی تاویل کے صاف اور واضح طور پر بیان کی گئی ہیں :
{ قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَج وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ ۔ وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط اِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ ۔ } [71]
اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرا مظاہرہ کیا جو اس بارے میں پہلے سے زیادہ واضح اور روشن تھا اور یہ آبگینہ کے محل کا واقعہ تھا۔ ملکہ نے جب یہ سمجھ کر کہ صاف شفاف پانی بہہ رہا ہے اپنے کپڑے سمیٹے اور پانی میں اترنے کا ارادہ کیا تو اس کو بتایا گیا کہ جس کو تو پانی سمجھ رہی ہے وہ آبگینہ کا عکس ہے پانی نہیں ہے۔ ملکہ پر جب اس حقیقت کا انکشاف ہوا تو اب اس کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ان مظاہروں سے کیا مقصد ہے ؟ اور اب اس کی عقل و دانش کی اس حقیقت تک رسائی ہوئی کہ جس طرح میں نے یہ غلطی کی ہے کہ ایک شے کے پر تو ‘ عکس اور مظہر کو ” حقیقت “ جان کر اس کے ساتھ حقیقت کا سا معاملہ کرنا چاہا تو اسی طرح بلاشبہ میں اور میری قوم اس گمراہی میں مبتلا ہیں کہ آفتاب کی پرستش کر رہے ہیں ‘ حالانکہ وہ حقیقت (خدائے واحد) کی قدرت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہو سکتا ہے کہ حقیقت کو چھوڑ کر مظہر کی پرستش کی جائے اور اب وہ یہ سمجھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکتوب گرامی میں جملہ { وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } کا کیا مطلب تھا ‘ چنانچہ ملکہ کے قلب میں یہ خیال آنا تھا کہ وہ فوراً پکار اٹھی :
{ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [72]
شیخ الہند نور اللہ مرقدہ کی اس تفسیر سے آیات کے انسجام اور ان کے مرجعوں کی ترتیب میں بھی کوئی خلل واقع نہیں ہوتا اور حذف و تقدیر کلام کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی اور ہر دو واقعات سے متعلق حکمت و مصلحت اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ دعوت و ارشاد اور جاہ و جلال کی عظمت کا اظہار بھی حسن و خوبی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔
ملکہ سبا کے پہلے مقولہ { وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ } میں ” اسلام “ بمعنی انقیاد و اطاعت کی نظیر سورة حجرات کی وہ آیت ہے جو اعراب مدینہ کے دعویٰ ایمان پر نازل ہوئی :
{ قَالَتِ الْاَعْرَابُ امَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا } [73]
” اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ آپ کہہ دیجئے تم ایمان تو نہیں لائے البتہ یہ کہو کہ ہم تابع دار اور منقاد ہو گئے ہیں۔ “
اور اس جملہ { وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ } میں ” اسلام “ بمعنی انقیاد و اطاعت اور جملہ { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } (نمل : ٢٧/٤٤) میں ” اسلام “ بمعنی دین اسلام کا فرق اور دونوں معانی کا تفاوت خود قرآن عزیز کی ان آیات سے ہی ظاہر ہے کہ پہلے جملہ میں ملکہ سبا نے کوئی ایسی تفصیل نہیں بیان کی جس میں شرک سے بیزاری اور توحید کے قبول کا ذکر ہو اور اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اس جملہ کے بعد بھی یہی ظاہر فرمایا کہ آفتاب پرستی اس کو اسلام سے باز رکھے ہوئے ہے اور وہ کافروں میں سے ہے لیکن آخری جملہ میں ملکہ نے صراحت کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ اب اس کا اسلام لغوی نہیں بلکہ دین اسلام کا اصطلاحی اسلام ہے اور جو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے نہیں بلکہ سلیمان (علیہ السلام) کی رفاقت میں ” رب العٰلمین “ کے لیے ہے اور غالباً اسی تفاوت کے پیش نظر پہلے جملہ میں ملکہ نے اپنے ساتھ ارکان سلطنت اور رعایا کو شامل کر کے جمع کی تعبیر اختیار کی کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شاہانہ اقتدار کی اطاعت کا مسئلہ ملکہ اور ملکہ کے اراکین دولت کے درمیان مشورہ کے بعد باتفاق طے شدہ تھا اور دین اسلام کے قبول کا مسئلہ اس کے اپنے ذاتی یقین پر مبنی تھا ‘ اس لیے اس کے اظہار میں اس نے انفرادیت اختیار کی اگرچہ اس زمانے کے عام دستور کے مطابق بادشاہ کا مذہب خود بخود رعایا کا مقبول مذہب ہوجاتا تھا اور غالباً اس کی قوم نے بھی دین اسلام قبول کر لیا ہوگا۔ غرض یہ تفسیر بہت لطیف اور ہر حیثیت سے راجح اور قابل قبول ہے۔
توراۃ میں ملکہ سبا کا ذکر
توراۃ میں بھی ملکہ سبا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ملاقات کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ سلاطین حصہ اول میں ہے :
” اور جب کہ خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سبا کی ملکہ تک پہنچی تو وہ مشکل سوالوں سے اسے آزمانے آئی اور بڑے جلو کے ساتھ اونٹوں کے ساتھ جن پر خوشبوئیں لدی ہوئی تھیں اور بہت سا سونا اور انمول جواہرات ساتھ لے کے یروشلم میں آئی اور اس نے سلیمان کے پاس آکے جو کچھ اس کے دل میں تھا سب کی بابت اس سے گفتگو کی۔ سلیمان نے اس کے سب سوالوں کا جواب دیا۔
بادشاہ سے کوئی بات پوشیدہ نہ تھی جو اس کے کسی سوال کا جواب نہ دیتا اور جبکہ سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری دانشمندی کا حال اور اس گھر کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دستر خوان کی نعمتوں کو اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور اس کے ساقیوں اور اس سیڑھی کو کہ جس سے وہ خداوند کے مسکن کو جاتا تھا دیکھا تو اس کے حواس نہ رہے اس نے بادشاہ سے کہا یہ تحقیقی خبر تھی جو میں نے تیری کر امتوں اور تیری دانش کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔۔ وہ خبر جو میں نے سنی تھی سو آدھی بھی نہ تھی کیونکہ تیری دانش اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی تھی کہیں زیادہ ہے۔ نیک بخت ہیں تیرے لوگ اور
نیک بخت ہیں تیرے خواص جو تیرے حضور کھڑے رہتے ہیں اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے راضی ہے اور تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا اس لیے کہ خداوند نے اسرائیلیوں کو سدا پیار کیا۔ “
[74]
توراۃ کے بیان میں اگرچہ ملکہ کے مسلمان ہونے کا ذکر نہیں ہے لیکن آخر کے جملے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خدا پر ایمان لے آئی تھی تبھی تو اس کا ذکر اس عقیدت مندی سے کرتی ہے۔ مگر قرآن اور توراۃ کے بیان میں یہ فرق نمایاں ہے کہ قرآن عزیز کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے بایں جاہ و جلال ملکہ سبا کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ ایک اولوا العزم پیغمبر کی طرح کا تھا اور قرآن کے بیان سے بات بات میں تبلیغ و دعوت اور پیغمبرانہ شان نظر آتی ہے۔ لیکن توراۃ کے بیان میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دانشمندی اور شاہانہ اقتدار کے ماسوا اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ بنی اسرائیل کے اس غلط عقیدہ کا نتیجہ ہے جو انھوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق اختراع کر لیا تھا کہ وہ پیغمبر نہیں ہیں صرف بادشاہ ہیں۔
اور قرآن عزیز جبکہ اصلاح عقائد و اعمال کے ساتھ ساتھ امم سابقہ اور ان کے انبیا و رسل سے متعلق واقعات میں بنی اسرائیل کی تحریف و تبدیل اور ان کے غلط اور فضول اختراعات کی اصلاح کا بھی مدعی ہے ‘ اس لیے اس نے اس مقام پر بھی واقعہ سے متعلق صحیح حقائق کو بیان اور ان غلطیوں کو واضح کر دیا جو کتب سابقہ میں پائی جاتی ہیں۔
ملکہ سبا کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ نکاح کتب تفاسیر میں منقول ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا (بلقیس) سے نکاح کر لیا اور اس کو اپنے ملک میں جانے کی اجازت دی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) گاہے گاہے اس سے ملاقات فرماتے رہتے تھے۔حاشیہ لیکن قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ میں نفی
یا اثبات دونوں حیثیتوں میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اسرائیلیات
ملکہ سبا (بلقیس) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متعلق بیان کردہ تفصیلات کے علاوہ اور بھی عجیب و غریب اور دور از کار باتیں کتب سیر میں مذکور ہیں جو اول سے آخر تک اسرائیلیات اور یہودی روایات سے ماخوذ ہیں۔
چنانچہ ان کے متعلق ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے :
” اس سلسلہ میں ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے ایک عجیب روایت منقول ہے جس کو ابن السائب کی سند سے ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور ابن ابی شیبہ نے اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ کیسا دل خوش کن واقعہ ہے مگر میں کہتا ہوں کہ ابن ابی شیبہ کو یہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ روایت قابل انکار ہے اور بلاشبہ اس کے بیان کرنے میں عطا بن سائب کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ وہ اس روایت کو ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ اس قسم کا طرز روایت دراصل اہل کتاب کے صحیفوں سے ماخوذ ہے اور واقعہ کی یہ تفصیلات اسی طرح کی ہیں جیسا کہ کعب احبار اور وہب بن منبہ ; بنی اسرائیل کے قصے ان کی کتابوں سے نقل کر کے اس امت کو سنایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرے کہ وہ ان قصوں میں عجیب و غریب اور قابل انکار باتیں اور واقعی و غیر واقعی اور تحریف شدہ و مسخ شدہ ہر قسم کے واقعات نقل کر دیا کرتے تھے۔ حالانکہ اللہ سبحانہ نے ہم کو ان فضول اور لغو باتوں سے قطعی غنی اور بے پروا کر دیا ہے اور ہم کو ایسا علم (قرآن ) عطا کیا ہے جو واقعات کی صحت ‘ نیک مقصد کی افادیت ‘ مطالب کی وضاحت اور کلام کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہت برتر اور بلند ہے۔ “
[75]
قصص القرآن میں واقعات کی تحقیق کے سلسلہ میں بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ فلاں روایت صحیح ہے اور فلاں اسرائیلی روایت ہے تو اسرائیلیات سے کیا مراد ہے یہ بات قابل وضاحت ہے۔
بنی اسرائیل کی روایات کا مدار بیشتر توراۃ پر ہے ‘ عبرانی زبان میں توراۃ کے معنی ” شریعت “ کے ہیں۔ اس لیے اس کا عمومی اطلاق سفر تکوین (کتابِ پیدائش) سفر خروج ‘ سفر احبار ‘ سفر عدد ‘ (کتابِ گنتی) سفر استثناء پر ہوتا ہے۔ توراۃ کے علاوہ دوسرا سلسلہ نبی یم ہے۔ یہ عبرانی قاعدہ لغت کے اعتبار سے ” نبی “ کی جمع ہے۔ عبرانی میں ” ی “ اور ” م “ اضافہ کر کے جمع بناتے ہیں۔ یہ بنی اسرائیل کے انبیا کے مواعظ ‘ مراثی اور بنی اسرائیل کے کلام اور مختصر تاریخ کا ذخیرہ ہے ‘ جن میں سفر یوشع (کتاب یشوع) ‘ سفر القضاۃ ‘ سفر سموئیل ‘ سفر ایام (کتاب تواریخ) ‘ سفر ملوک (کتاب سلاطین) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ آج کل نبی یم بھی توراۃ کا ہی حصہ شمار ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ ترگوم ہے۔ عربی زبان میں ” ترجمہ “ کو کہتے ہیں۔ یہودی علما نے توراۃ اور نبی یم کی آرامی زبان میں تفسیر کی ہے جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ تفسیر انبیا (علیہم السلام) سے سنی ہے۔ چوتھا حصہ مدراش ہے۔ اس کی حیثیت یہود کے یہاں وہ ہے جو اسلام میں حدیث کا درجہ ہے۔
پانچواں حصہ تلمود ہے یہ بنی اسرائیل کی فقہ ہے اور ان سب کے علاوہ بعض وہ قصص و حکایات ہیں جن کو یہود سینہ بہ سینہ اپنی یادداشت سے مذہبی نقول کی طرح نقل اور بیان کرتے چلے آتے ہیں۔ یہود کے سلسلہ روایات کی یہ تمام اقسام وہ ہیں جو اسرائیلیات کہلاتی ہیں اور ان میں سے بعض روایات ان علمائے یہود کے ذریعہ جو مشرف باسلام ہو گئے تھے مسلمانوں میں بھی نقل ہو کر مشہور ہوگئیں اور اس لیے ہمیشہ علمائے محققین کا مقدس گروہ ان پر تنبیہ کرتا اور ان سے اسلامی روایات کو پاک کرتا چلا آتا ہے اور صرف انہی روایات کے ذکر سے چشم پوشی کرتا ہے جو قرآن عزیز اور صحیح احادیث کے مضامین کی تائید کرتی ہیں۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مکتوب کا اعجاز
ماہرین ادبیات کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو جو خط دعوت اسلام کے سلسلہ میں بھیجا وہ دنیا کے ان خطوط میں جو آج تک تحریر کیے گئے ہیں یکتا اور بے مثال ہے اور یہ دعویٰ حسن عقیدت کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ دعوے کی بنیاد اس دلیل پر قائم ہے کہ اس قدر اہم اور نازک مسئلہ پر نہایت مختصر مگر مقصد کے لحاظ سے بہت واضح ‘ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے نہایت رفیع ‘ ادائے بیان اور طرزادا کے پیش نظر بے حد لطیف و شیریں ‘ پرشوکت و دلنشیں غرض مجموعہ صفات سے متصف کوئی خط کسی بڑے
انسان کا کتب تاریخ میں اس کے علاوہ ایسا موجود نہیں ہے جو اس کا مقابلہ کرسکے۔
مضمونِ خط میں خلل انداز نہ ہونے والے انتہائی اختصار کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی ربوبیت ‘ خالقیت ومالک یت عام کا اظہار ‘ پیغمبرانہ پیغام حق کا اعلان ‘ حاکمانہ و قاہرانہ اقتدار کا مظاہرہ اور اپنا ذاتی تعارف ‘ جیسے اہم امور کو جس خوبی سے ادا کیا گیا ہے اس پر یہ مثال صادق آتی ہے ” گویا دریا کو زہ میں بند ہے۔ “
خط کی عبارت کو مطالعہ کیجئے اور پھر مسطورہ بالا خصوصیات و امتیازات کا اندازہ کیجئے اور بتائیے کہ مجموعہ الفاظ و معنی کے لحاظ سے یہ خط ” اعجاز “ نہیں تو اور کیا ہے :
{ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۔ } [76]
” یہ خط ہے سلیمان کی جانب سے اور یہ شروع ہے اللہ کے نام سے جو بڑ مہربان نہایت رحیم ہے۔ مجھ
پر اپنی دھاک نہ بٹھاؤ اور نہ برتری کا مظاہرہ کرو اور خدا کے فرمان بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو۔ “
حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا بہتان
گذشتہ صفحات میں تاریخی نقول سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی الہامی کتابوں میں تحریف کردی تھی اور اپنی اغراض دنیوی کی خاطر ان میں ہر قسم کا ردو بدل کر دیا تھا۔ چنانچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے معاملہ میں تو اس درجہ جسارت اختیار کی کہ ان کی نبوت و رسالت سے بھی انکار کر کے ان پر طرح طرح کے الزام اور بے ہودہ بہتان لگائے۔ منجملہ دوسرے الزامات کے ایک الزام حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ بھی لگایا کہ وہ جادو کے حامل اور اسی کے زور پر ” کنگ سلیمان “ تھے اور جن وانس اور وحوش و طیور کو مسخر کیے ہوئے تھے۔
قرآن عزیز نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے لگائے ہوئے اس بہتان کی مدلل تردید کی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ عظمت کو نمایاں اور روشن کیا۔ اس نے بتایا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا دامن جادو کی نجاست سے پاک ہے اور اصل حقیقت یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کے لیے شیاطین (انس و جن) نے سحر کو سکھایا اور اس کو مدون کیا اور بنی اسرائیل نے کتاب اللّٰہ ( توراۃ و زبور) کو پس پشت ڈال کر اس کو الہامی قانون سمجھا اور جادو سیکھنے سکھانے لگے اور جب بنی اسرائیل میں سے مخصوص اہل حق نے ان کو سمجھایا اور بتایا کہ یہ سخت گمراہی اور کفر ہے تم اس سے باز آجاؤ تو شیطان کے بہکانے پر انھوں نے یہ کہناشروع کر دیا کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) کا سکھایا ہوا علم ہے اور سلیمان (علیہ السلام) اسی کے ذریعہ سے اتنی بڑی حکومت کے مالک تھے اور یہ کہہ کر اپنی گمراہی پر قائم رہے۔ مگر وہ اس قول میں جھوٹ بولتے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر بہتان طرازی کرتے ہیں۔
سدی کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی کی زندگی میں بنی اسرائیل میں یہ گمراہی شروع ہو گئی تھی اور ان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ” جن “ علم غیب جانتے ہیں۔ چنانچہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے شیاطین کے ان تمام نوشتوں کو حاصل کر کے اپنے تخت کے نیچے دفن کر دیا تاکہ جن و انس کسی کو وہاں تک پہنچنے کی جرأت نہ ہو سکے اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کر دیا کہ جو شخص سحر کرے گا یا جنوں کے متعلق علم غیب کا عقیدہ رکھے گا تو اس کو قتل کی سزا دی جائے گی۔ لیکن جب سلیمان (علیہ السلام) کا انتقال ہو گیا تو شیاطین نے اس مدفون ذخیرہ کو نکال لیا اور بنی اسرائیل میں یہ عقیدہ پیدا کر دیا کہ جادو کا یہ علم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے اور وہ اسی قوت سے جن و انس ‘ وحوش و طیور اور ہوا پر حکومت کرتے تھے اور اس طرح جادو کو پھر بنی اسرائیل میں رائج کر دیا۔ [77]
قرآن عزیز نے اس تاریخی حقیقت کو اس ضمن میں بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل باوجود اس یقین رکھنے کے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے پیغمبر ہیں اور ان کی نبوت کی بشارت کثرت سے کتب عہد قدیم میں موجود ہیں ‘ پھر بھی ضد اور ہٹ کی راہ سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں اور کتب الٰہیہ کو پس پشت ڈال کر اسی طرح شیطان کی پیروی کرتے ہیں جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو کے متعلق کرچکے ہیں ‘ اور آج تک بے جا جسارت کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب کفر (جادو) کی نسبت کرتے چلے آتے ہیں۔ چنانچہ قرآن عزیز کا سیاق وسباق اس حقیقت کو بخوبی واضح کر رہا ہے :
{ وَ لَمَّا جَآئَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَق لا کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ کَاَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَط وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ } [78]
” اور جب ان (بنی اسرائیل) کے پاس اللہ کی جانب سے رسول آیا جو تصدیق کررہا ہے ان الہامی کتابوں کی جو ان کے پاس ہیں تو جو لوگ (بنی اسرائیل ) کتاب ( توراۃ ) دیے گئے تھے انھوں نے اللہ کی کتاب ( توراۃ ) کو پس پشت ڈال دیا اور (آپ کی صداقت کی بشارت کے متعلق) ایسے ہو گئے گویا وہ جانتے ہی نہیں اور (یہ تو وہ لوگ ہیں کہ) انھوں نے سلیمان کے زمانہ میں اس چیز کی پیروی اختیار کرلی تھی جو شیاطین پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیاطین نے کفر کیا تھا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ (علم) جو بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر نازل کیا گیا اور جس کو کہ وہ دونوں جب کسی کو سکھاتے تھے تو یہ کہہ کر سکھاتے تھے کہ ہم (تمھارے لیے) سخت آزمائش ہیں ‘ لہٰذا تم (اب) کفر نہ کرنا مگر وہ (بنی اسرائیل) ان دونوں سے بھی ایسی بات سیکھتے جس کے ذریعہ سے زن و شو کے درمیان تفریق پیدا ہوجائے حالانکہ وہ اس کے ذریعہ سے خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے (البتہ) وہ ایسی شے سیکھتے ہیں جو (انجام کار) ان کو نقصان پہنچانے والی ہے اور ان کو ہرگز نفع نہیں دے گی اور بے شبہ وہ جانتے ہیں جس شخص نے اس شے (جادو) کو خریدا ‘ اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور ضرور وہ شے بہت بری ہے جس کے عوض میں انھوں نے اپنی جان فروخت کر ڈالی کاش کہ وہ سمجھتے (یعنی سمجھنے کے بعد اس سے بچتے) اور وہ کام نہ کرتے جس کا نتیجہ برا ہے۔ “
مسطورہ بالا آیات میں جن حقائق کو واضح کیا گیا ہے ‘ ان کی تفسیر میں مفسرین مختلف ذوق رکھتے ہیں ‘اس لیے کہ ان تین باتوں کے علاوہ جن کا گذشتہ سطور میں ذکر آچکا ہے واقعہ کی باقی تفصیلات کے بارے میں قرآن عزیز خاموش ہے۔کیونکہ وہ تفصیلات اس مقصد کے لیے ضروری نہیں ہیں چنانچہ اس سلسلے کی تفاسیر میں سے ہم نے ترجمہ میں عام تفسیر سے جدا راہ اختیار کی ہے جو آیۃ من آیات اللہ محقق عصر علامہ محمد انور شاہ نور اللہ مرقدہ کی تحقیق سے ماخوذ ہے حضرت استاذ کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے :
” جب بنی اسرائیل کو شیاطین نے سحر سکھا کر گمراہ کر دیا اور شیاطین کو غیب داں یقین کرنے لگے اور یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)
کی وفات ہو چکی تھی اور اس وقت ان کے درمیان خدا کا کوئی نبی موجود نہ تھا اور بنی اسرائیل کو راہ ہدایت دکھانے اور سنبھالنے کے لیے اس معجزانہ طریقے کے مطابق جو صدیوں سے ان کے لیے حق تعالیٰ کی جانب سے سنت متوارثہ بنا ہوا تھا ‘ ہاروت و ماروت دو فرشتے آسمان سے نازل کیے گئے اور
انھوں نے بنی اسرائیل کو توراۃ سے ماخوذ اسماء وصفات الٰہی کے اسرارکا ایسا علم سکھایا جو ” سحر “ کے مقابلے میں ممتاز اور سحر کے ناپاک اثرات سے پاک تھا اور اس کی وجہ سے ایک اسرائیلی بآسانی یہ سمجھ سکتا تھا کہ یہ ” سحر “ ہے اور یہ ” علوی علم الاسرار “ ہے اور جب فرشتے بنی اسرائیل کو یہ علم سکھاتے تو پھر ان کو نصیحت کرتے کہ اب جب کہ تم پر اصل حقیقت منکشف ہو گئی اور تم نے حق و باطل کے درمیان چشم دید مشاہدہ کر لیا تو اب کتاب اللہ کے علم کو پس پشت ڈال کر پھر بھی سحر کی طرف رجوع کرو گے تو تم بلاشبہ کافر ہوجاؤ گے کیونکہ خدا کی حجت تم پر تمام ہو گئی اور اب تمھارے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا ‘ گویا ہمارا وجود تمھارے لیے ایک آزمائش ہے کہ تم ہماری تعلیم کے بعد شیاطین کے تابع ہو کر ” سحر “ ہی کے شیدائی رہتے ہو یا اس سے زیادہ زبردست اور امر حق کتاب اللہ کے علم کی پیروی کرتے ہو ؟ لیکن بنی اسرائیل کی کج فطرت نے اس موقع پر بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا اور انھوں نے اس پاک ” علوی علم “ کو بھی ناجائز اور حرام خواہشات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ‘ مثلاً زن و شوہر کے درمیان ناحق تفریق وغیرہ ‘ اور اس طرح حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کر کے اس کو بھی ایک کر شمہ بنادیا۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط کرنے یا کسی پاک جملہ کے خواص و اثرات کو ناجائز اور حرام کاموں میں استعمال کرنے کے متعلق علمائے حق کی تصریحات موجود ہیں کہ یہ بھی ساحرانہ عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اسی لیے حرام اور کفر ہے۔ “ [79]
حضرت شاہ صاحب (رحمہ اللہ علیہ) کی اس تفسیر کے مطابق آیت { وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ } [80] میں مَا نافیہ نہیں ہے بلکہ بمعنی اَلَّذِیْ ہے۔
اس لیے کہ آیت میں سحر اور مَا اُنْزِلَ کے درمیان معطوف اور معطوف علیہ کی نسبت ہے اور عربیت کے قاعدہ سے عطف ‘ مغائرت کلام کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا آیات زیر بحث میں ” سحر “ الگ شے ہے جو شیاطین کے ذریعہ سے وجود پزیر ہوتا ہے اور فرشتوں کا لایا ہوا علم دوسری شے ہے جو پاک مقصد کے لیے تعلیم کیا گیا ‘ لہٰذا فرشتوں کی جانب سحر کی نسبت صحیح نہیں ہو سکتی۔ یہ تفسیر معانی کی ترتیب ‘ سیاق وسباق کی مطابقت اور حقائق و وقائع کی وضاحت کے لحاظ سے بہت وقیع ہے اور اس لیے ہم اسی کو راجح سمجھتے ہیں۔
اس تفسیر کے علاوہ دوسری تفسیر مشہور نحوی فراء سے منقول ہے۔ وہ مَا اُنْزِلَ میں مَا کو نافیہ تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سحر کی تعلیم شیاطین کے ذریعہ پھیلی اور ان کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے اور یہ بھی غلط کہ بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتے نازل ہوئے اور وہ بنی اسرائیل کو جادو سکھاتے اور سکھاتے وقت یہ تنبیہ کرتے کہ ہم آزمائش بنا کر تمھارے پاس بھیجے گئے ہیں۔ تم اگر سیکھو گے تو ہم ضرور سکھا دیں گے ‘ مگر تم کافر ہو جاؤ گے ‘ اس لیے تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ کفر اختیار نہ کرو اور جب بنی اسرائیل اصرار کرتے تو وہ زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سکھا دیتے۔ یہ سارا قصہ جو ان کے درمیان مشہور ہے سب غلط ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
تیسری تفسیر امام قرطبی (رحمہ اللہ علیہ) کی جانب منسوب ہے اور ابن جریر بھی اسی کو راجح تسلیم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آیت مَا اُنْزِلَ میں ” مَا “ نافیہ ہے اور ہاروت و ماروت ” شیاطین “ سے بدل ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے آسمان کے فرشتے سحرکا علم لے کر آئے تھے بلکہ شیاطین سحر سکھاتے تھے جن میں سے بابل میں دو مشہور شخصیتیں ہاروت و ماروت کی تھیں اور وہ جادو سکھاتے تو بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی پر طعن کرتے ہوئے یہ کہتے جاتے کہ دیکھو ! اگر تم نے ہم سے یہ ” سحر “ سیکھا تو تم کافر ہو جاؤ گے مگر بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان سے زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سیکھتے اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔
ہمارے خیال میں یہ دونوں تفسیریں بھی عام تفسیر سے بہتر ہیں کیونکہ عام تفسیر کے مطابق ما کو بمعنی اَلَّذِیْ تسلیم کر کے یہ مطلب لینا کہ بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتے بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے خدائے تعالیٰ کی جانب سے نازل ہو کر سحر سکھاتے اور ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کرتے جاتے تھے کہ ہم سے یہ علم نہ سیکھو ورنہ کافر ہو جاؤ گے ‘ بے وجہ متعدد اشکالات کو دعوت دینا اور ” سحر “ اور ” مَا اُنْزِلَ “ کو بے دلیل ایک ہی شے تسلیم کرنا ہے۔
ان تفاسیر کے علاوہ آیات زیر بحث کے سلسلہ میں بعض عجیب و غریب آثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) و رضوا عنہ اور ایک مرفوع روایت کتب تفسیر میں منقول ہیں۔
حالانکہ یہ حقیقتاًنہ آثار صحابہ ہیں اور نہ مرفوع حدیث ‘ بلکہ کعب احبار اور دوسرے علمائے یہود کے وہ بیان کردہ قصے ہیں جو بنی اسرائیل کا ذخیرہ خرافات کہے جانے کے مستحق ہیں۔ ان قصوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاروت و ماروت فرشتوں نے ایک مرتبہ خدائے تعالیٰ کے حضور میں انسانوں کی معصیتوں کا مذاق اڑایا کہ یہ کیسی ذلیل مخلوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ قسم کے انعامات کے باوجود اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔ یہ طنز اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اور ان سے فرمایا کہ اگر تم دنیا کے ماحول میں محصور ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ فرشتوں نے اپنی عصمت اور پاکدامنی پر اعتماد کا اظہار کیا ‘ تب بطور آزمائش ان دونوں کو زمین پر اتار دیا گیا۔ یہاں رہتے رہتے ایک مرتبہ ان کی نگاہ ایک بے حد حسین عورت زہرہ پڑی اور دونوں اس کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور زہرہ سے قربت کے طلبگار ہوئے۔ اس نے کہا جب تک تم شراب نہ پیو گے ‘ قتل نہیں کرو گے اور بت کو سجدہ نہیں کرو گے ‘ مجھے حاصل نہیں کرسکتے۔ چنانچہ زہرہ کے عشق میں انھوں نے یہ تینوں کام کیے۔ زہرہ نے بحالت مقاربت ان سے دریافت کیا کہ وہ آسمان پر کس طرح جاتے ہیں۔ فرشتوں نے اس کو اسم اعظم سکھا دیا اور زہرہ اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلی گئی اور یہ دونوں فرشتے خدا کے غضب میں مبتلا ہو گئے اور بابل کے کنویں میں قید کر دیے گئے۔ اب جو شخص ان کو آواز دے کر ان سے جادو سیکھنا چاہتا ہے ‘ وہ اول تو اس کو منع کرتے اور کافر ہوجانے کا خوف دلاتے ہیں ‘ لیکن جب وہ اصرار کرتا ہے تو اس کو جادو سکھا دیتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھ کو کچھ نظر آیا۔ وہ شخص کہتا ہے کہ ایک نورانی شکل کا انسان گھوڑے پر جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرا ایمان تھا جو تجھ سے جدا ہو گیا اور اب تو جادو گر بن گیا۔ یہ فرشتے قیامت تک خدا کے عذاب کی وجہ سے اسی طرح کنویں میں الٹے لٹکے رہیں گے۔ [81]
اس روایت کا لغو ہونا خود بخود واضح ہے ‘ اس لیے محققین نے اس کی لغویت اور خرافت پر متنبہ کر کے اسلامی روایات کے دامن کو اس سے پاک اور محفوظ ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اول مرفوع روایت پر بحث کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے :
((واقرب ما یکون فی ھذا انہ من روایۃ عبد اللّٰہ بن عمر عن کعب الاحبار لا عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فدارالحدیث و رجع الی نقل کعب الاحبار عن کتب بنی اسرائیل)) [82] ” اور اس سلسلہ میں قریب تر بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جو روایت مسند احمد میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے منقول ہے ‘ وہ دراصل عبداللہ بن عمر نے کعب احبار سے اسرائیلی قصہ نقل کیا ہے ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب اس کی نسبت ہرگز صحیح نہیں ہے۔ (بیان کردہ تصریحات کے بعد) نتیجہ یہ نکلا کہ جس حدیث کو مرفوع کہا جاتا تھا ‘ وہ آخر کار کعب احبار کی روایت ثابت ہوئی جو انھوں نے بنی اسرائیل کی کتابوں سے نقل کر کے بیان کی ہے۔ “
اور اس فیصلہ کے بعد ان تمام آثار پر تنقید کرتے ہوئے جو اس سلسلہ میں صحابہ (رضی اللہ عنہم) اور تابعین (رحمہ اللہ علیہم) کی جانب منسوب کیے جاتے ہیں ‘ جو محاکمہ کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے :
” ہاروت و ماروت کا یہ قصہ (زہرہ اور چاہ بابل کا قصہ) تابعین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے نقل کیا ہے ‘ مثلاً مجاہد ‘ سدی ‘ حسن بصری ‘ قتادہ ‘ ابو العالیہ ‘ زہری ‘ ربیع بن انس ‘ مقاتل ‘ ابن حبان (رحمہ اللہ علیہم اجمعین) وغیرہ اور پھر ان سے نقل کر کے متقدمین اور متاخرین نے کثرت سے بیان کیا ہے ‘ مگر ان تمام نقول کا حال یہ ہے کہ ان میں جس قدر تفصیلات بھی منقول ہیں وہ سب بنی اسرائیل کے قصوں سے لی گئی ہیں ‘ اس لیے کہ صادق و مصدوق پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (کہ جن کی شان مبارک یہ ہے کہ وہ اپنے ہوائے نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے جو کچھ فرماتے ہیں وحی الٰہی سے فرماتے ہیں) اس بارے میں کوئی صحیح روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ہے اور قرآن کا ظاہر سیاق واقعہ کو مجمل رکھتا ہے اور کوئی تفصیل اور تشریح نہیں کرتا اس لیے ہمارا ایمان یہ ہے کہ قرآن عزیز نے جس قدر اس سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی تفصیل و تشریح کیا ہے ‘ وہ اسی کے سپرد ہے۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ “ [83]
یعنی قرآن عزیزنے اس واقعہ کو جس غرض سے بیان کیا ہے وہ تو صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب جادو (کفر ) کی نسبت کرنا بہتان اور افتراء ہے ‘ یہ کام شیاطین کا تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دامن اس سے پاک ہے اور یہ کہ بنی اسرائیل نے شیاطین کی پیروی اختیار کی اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور باقی تفصیلات کو اس نے نظر انداز کر کے صرف اجمال پر اکتفا کیا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کے اجمال پر ایمان لے آنا ہی کافی ہے اور اس کی شرح و بسط کو خدا کے حوالہ کرنا ہی اسلم طریقہ ہے۔ کیونکہ ان تفصیلات سے دین و ملت کا کوئی مسئلہ وابستہ نہیں ہے۔
ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) کے اس مسلک کی تائید بعض دوسرے محققین نے بھی کی ہے ‘ جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابوحیان اندلسی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ [84]
ازواج
سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک سو زوجات تھیں جس کا ثبوت صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حديث سے ملتا ہے :
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں :
”
سلیمان بن داود علیہم السلام نے کہا کہ آج رات میں سو عورتوں کے پاس جاؤں گا، ہرعورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرے گا، تو فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ لو، تو انہوں نے نہ کہا اور ان شاء اللہ کہنا بھول گئے تواس رات سب کے پاس گئے تو ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہ جنا صرف ایک نے آدھا بچہ جنا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ایسا نہ ہوتا اور ان کی ضرورت کو پورا کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ [85]
“
اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر (1654) میں نوے عورتوں کا ذکر ہے اور ایک اور روایت جسے امام بخاری نے جہاد کے لیے اولاد طلب کرنے کے باب میں تعلیقا ذکر کیا ہے جس میں ننانوے عورتوں کا ذکر ہے۔
نبوت
داؤد علیہ السلام کے انتقال کے وقت، ایک روایت کے مطابق سلیمان علیہ السلام کی عمر پچیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت دونوں میں سلیمان علیہ السلام کو داؤد علیہ السلام کا جانشین بنایا۔ یوں نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضے میں آ گئی۔
ترجمہ:
”
اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔
“
تفسیر
یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حکومت و سلطنت نہیں ہے، کیونکہ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کی واحد اولاد نہ تھے۔ ان کی سو بیویاں تھیں ان سے اولادیں بھی تھیں اور داؤد علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے انیس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس کے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور سلیمان علیہ السلام کی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونکہ یہاں وارث ہونے میں سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی کی وراثت ہو سکتی ہے۔ (وان العلماء ورثۃ الأنبیاء) بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہوا کرتے ہیں (علم کے ) پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ انبیا کی وفات کے بعد ان کی اولاد ان کے مال و دولت کی وارث نہیں ہوتی بلکہ تمام مال و اسباب مساکین و فقرا کا حق سمجھتے ہوئے خدا کے نام پر صدقہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انبیا کے مال کی میراث تقسیم نہیں ہوا کرتی۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
”
ہم جماعت انبیا ہیں۔ ہمارے ورثے بٹا نہیں کرتے۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں، صدقہ ہے۔
“
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات
قرآن عزیز نے سورة سبا میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا جو واقعہ بیان کیا ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)
کے حکم سے جنوں کی ایک بہت بڑی جماعت عظیم الشان عمارات بنانے میں مصروف تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) کو پیغام اجل آپہنچا مگر جنوں کو ان کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنی مفوضہ خدمات میں مصروف رہے اور عرصہ کے بعد جب دیمک نے ان کی لاٹھی کو چاٹ کر اس توازن کو خراب کر دیا جس کی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) لاٹھی سے ٹیک لگائے کھڑے نظر آتے تھے اور وہ گرگئے تب جنوں کو علم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عرصہ ہوا انتقال ہو گیا تھا مگر افسوس کہ ہم نہ معلوم کرسکے کاش کہ ہم علم غیب رکھتے تو عرصہ تک اس مشقت و محنت میں نہ پڑے رہتے جس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خوف سے مبتلا رہے۔
{ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗج فَلَمَّاخَرَّتَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ } [86]
” اور جب ہم نے اس (سلیمان) کی موت کا فیصلہ کر دیا تو ان (جنوں) کو اس کی موت کی کسی نے اطلاع نہیں دی مگر دیمک نے جو سلیمان کی لاٹھی چاٹ رہی تھی اور جب سلیمان (لاٹھی کے توازن خراب ہوجانے سے ) گرپڑا تو جنوں پر یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہوتے تو اس سخت مصیبت میں مبتلا نہ رہتے۔ “
کہتے ہیں کہ جنوں پر یہ راز جب کھلا تو تعمیر مکمل ہو چکی تھی ‘ اس لیے جنوں کو افسوس رہا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس سے بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے۔
اس مقام پر قرآن عزیز کا مقصد جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے واقعہ کا اظہار ہے ‘ اسی طرح بنی اسرائیل کو ان کی حماقت پر متنبہ کرنا بھی اس کا مقصد ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اگر جن غیب داں ہوتے تو وہ عرصہ تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خوف سے تعمیر بیت المقدس یا کسی دوسرے شہر کی تعمیر کی صعوبتوں میں مبتلا نہ رہتے۔ چنانچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا جس صورت سے ان کو علم ہوا اس کے بعد خود شیاطین (جنوں) کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ہمارا دعویٰ غیب دانی قطعاً غلط ثابت ہوا۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے متعلق قرآن عزیز نے اسی قدر بتایا ‘ اس سے زیادہ تفصیل نہیں بیان کی اور نہ اس کے مقصد تبلیغ کے پیش نظر اس کی کوئی ضرورت تھی۔ لہٰذا ہم کو بھی ان تفصیلات میں کنج وکاؤ کی حاجت نہیں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کتنی مدت لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے ؟ کس حالت میں کھڑے رہے ؟ انس وجن دونوں ہی کو اس کا علم نہیں تھا یا فقط ان جنوں کو ہی علم نہیں ہوا جو بیت المقدس سے بہت فاصلہ پر کسی شہر کی تعمیر میں مشغول تھے وغیرہ وغیرہ۔
البتہ اسرائیلی روایات سے ماخوذ ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں فرشتہ اجل نے حاضر ہو کر یہ پیغام سنایا کہ ان کی موت میں چند ساعتیں باقی ہیں تو انھوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں ” جن “ تعمیر کو ناقص نہ چھوڑ دیں ‘ فوراً جنوں سے آبگینہ کا ایک حجرہ بنوایا اور اس میں دروازہ نہیں رکھا اور خود اس کے اندر بند اور لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو کر مشغول عبادت ہو گئے اور اسی حالت میں موت کے فرشتے نے اپنا کام پورا کر لیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) اسی طرح کھڑے رہے اور ” جن “ مشغول تعمیر رہے ‘ لیکن جب وہ تعمیر کو مکمل کر کے فارغ ہو گئے تو اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لاٹھی میں دیمک پیدا ہو گئی اور اس نے لاٹھی کو چاٹ کر بے جان کر دیا اور وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بوجھ برداشت نہ کرسکی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) زمین پر گرگئے۔ تب جن سمجھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عرصہ ہوا کہ انتقال ہو گیا اور اپنی نادانی پر افسوس کرنے لگے۔ [87]
غرض یہ اور اسی قسم کی روایات ہیں جو اسرائیلیات سے نقل ہو کر اس سلسلہ میں کتب تفاسیر میں بیان کی گئی ہیں اور نقل کرنے کے بعد محققین نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ توراۃ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا واقعہ اس طرح ہے :
” غرض ساری مدت کہ سلیمان نے یروشلم میں سارے اسرائیل پر سلطنت کی ‘ چالیس برس کی تھی اور سلیمان اپنے باپ دادوں کے ساتھ سو رہا اور اپنے باپ دادوں کے شہر صیہوں میں گاڑ دیا گیا اور اس کا بیٹا رحبعام اس کی جگہ بادشاہ ہوا۔ “[88]
اور قاضی بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) نے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر ابھی تیرہ سال ہی کی تھی کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہو گیا اور وہ سر یر آرائے سلطنت ہوئے اور تریپن سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔
بیضاوی کا یہ قول غالباً توراۃ ہی سے ماخوذ ہے۔
ہیکل سلیمانی
ہیکل سلیمانی کی تعمیر حضرت داود نے شروع کی تھی جن کی وفات کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اسے مکمل کیا۔ اس کی تعمیر کے لیے بیرون ملک سے معمار بلواے گئے تھے جو سلیمان علیہ السلام کے غلام نہیں تھے اور اس وجہ سے فری میسن کہلاتے تھے۔[89] ہیکل سلیمانی میں انھوں نے سلیمان علیہ السلام کے خزانے کے خفیہ تہ خانے بھی تعمیر کیے۔ ہیکل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ ملک سے چلے گئے لیکن یہ راز نسل در نسل اپنی اولادوں کو منتقل کرتے رہے۔
کوئی دو ہزار سال بعد کچھ مہم جو یروشلم کی اس مقدس عبادت گاہ کے باقی ماندہ کھنڈر تک آئے بادشاہ وقت سے اجازت نامہ حاصل کیا اور یورپ سے زائرین کے آنے جانے کی حفاظت کے انتظامات سنبھالے۔ انھوں نے اپنے آباواجداد کی فراہم کردہ نشانیوں کی مدد سے ان مقامات کو ڈھونڈھ نکالا اور بہت بڑی مقدار میں سونا نکال کر Knights Templar کی تنظیم بنائی[90] جس کا ایک حصہ بینکنگ کرتا تھا اور دوسرا حصہ فوجی امور سر انجام دیتا تھا۔ یہ دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کارپوریشن تھی۔
بینکنگ کے امور میں مداخلت کی وجہ سے رومن چرچ ان کا شدید دشمن بن گیا اور پورے یورپ میں Knights Templar کے خلاف اقدامات کیے جانے لگے۔ اور 1312ء کے بعد ان کا خاتمہ ہو گیا۔
دیوار گریہ کے پاس زیر زمین تہ خانوں تک جانے والا کنواں آج بھی موجود ہے جسے مضبوط اور شفاف شیشے کی چادر سے ڈھک دیا گیا ہے۔[91]
اقتباس
روایت ہے کہ یروشلم کے شمال میں بحیرہ روم کے ساحل پر ٹائر (Tyre) نامی ایک بڑا تجارتی شہر تھا۔ وہاں کے بادشاہ نے اپنا سفیر بادشاہ سلیمان کے پاس بھیجا اور اپنے شہر میں امن و امان اور لوٹ مار کی بگڑتی صورت حال پر مشورہ مانگا۔ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ اگر اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اپنے بادشاہ کو کہو کہ اپنی سب سے چہیتی اور خوبصورت بیٹی کی مجھ سے شادی کر دے۔ جب شادی ہو گئی تو بادشاہ سلیمان نے سفیر سے مسئلے کی تفصیلات پوچھیں۔ سفیر نے بتایا کہ شہر کے مزدور روٹی نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوٹ مار کرتے ہیں اور پولیس انھیں اس جرم میں قتل کرتی ہے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے بادشاہ کا خیال ہے کہ عوام ہی ہماری اصل دولت ہیں۔
بادشاہ سلیمان اس نتیجے پر پہنچے کہ جب شہر میں گندم کی بہتات ہوتی ہے اور قیمتیں بہت گری ہوئی ہوتی ہیں تو بھی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ مزدور گندم خرید نہیں سکتے۔ اس کے برعکس جب گندم کی شدید قلت ہوتی ہے اور قیمت زیادہ ہوتی ہے تو تنخواہ بڑھنے کے باوجود گندم مزدوروں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔
بادشاہ سلیمان نے سفیر کو خط دیا اور کہا کہ تمھاری زندگی اس خط کی رازداری سے مشروط ہے۔ اپنے بادشاہ کو میرا مشورہ دو کہ اپنے شہر میں امپورٹ اور ایکسپورٹ پر سے کسٹم ڈیوٹی بالکل ختم کر دے۔ اور دو سال بعد دوبارہ میرے پاس آنا۔
بادشاہ سلیمان اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ٹائر کے شہر میں کسٹم کے حکام رشوت خور ہیں۔ جب وہاں کسٹم کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا تو تاجروں کو درآمد برآمد کی بڑی آزادی مل گئی ورنہ پہلے انھیں 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتانوں اور کاروانوں نے ٹائر شہر کا رخ کیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہاں حکومتی کرپشن سے آزاد تجارت کی وجہ سے بڑی خوش حالی آ گئی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر دوبارہ بادشاہ سلیمان کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سلیمان نے اس سے کہا کہ تمھیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے یہودی بینکاروں کی مدد سے تمھاری خوش حالی سے واقف ہوں۔ اپنے بادشاہ کو میرا دوسرا مشورہ دو کہ کسٹم کا محکمہ دوبارہ بحال کر دے مگر اس دفعہ کسٹم کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا ہو گا، ڈیوٹی وصول کرنا نہیں ہو گا۔ اب پھر دو سال بعد آنا۔
دو تین سال بعد جب سفیر پھر حاضر ہوا تو بادشاہ سلیمان نے تیسرا خط دیا اور سفیر کو دو سال بعد بلایا۔ خط میں لکھا تھا کہ اپنے شہر میں بڑی ضیافت کا اہتمام کرو جس میں شہر کے سارے بینکروں کا آنا لازمی ہو اور نہ آنے والے بینکر کو فوراً شہربدر کر دیا جائے۔ ضیافت کے اختتام پر ٹائر کے بادشاہ نے کہا کہ ہمارے پاس درست ترین اعداد و شمار ہیں کہ کس نے کتنی درآمد اور برآمد کی ہے اور ان اعداد و شمار پر تم بھی مکمل اعتبار کرتے ہو۔ آج سے ہر بینکر اپنی ہر درآمد اور برآمد پر ماہانہ 10 فیصد ٹیکس دے گا۔ بینکروں نے بڑا شور مچایا مگر بادشاہ نے ایک نہ سنی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر پھر بادشاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اب اس کا شہر انتہائی خوش حال ہو چکا تھا۔ بادشاہ سلیمان نے اسے آخری خط دیا اور کہا کہ اب واپس یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس خط میں ٹائر کے بادشاہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ دوبارہ بینکاروں کو ضیافت پر بلاو اور جو بینکار نہ آئے اسے قتل کر کے اس کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیا جائے۔ اور انھیں حکم دو کہ اگر شہر ٹائر میں قیمتیں 10 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 11 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 15 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 13 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 20 فیصد بڑھ جائیں تو ٹیکس 15 فیصد ہو جائے گا۔ اس زمانے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائر کے شہر میں اگلے 70 سالوں تک قیمتیں مستحکم رہی تھیں۔[92]
بصائر
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات کو جس ترتیب اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے وہ صاحب بصیرت کو خود دعوت بصیرت دیتے ‘ پیغام عبرت سناتے اور ایک حقیقت بیں نگاہ کے سامنے اہم حقائق کے پردے چاک کرتے ہیں۔ تاہم ان میں سے یہ چند امور خصوصیت کے ساتھ قابل مطالعہ ہیں :
امم سابقہ نے خدا کے سچے دین میں اپنی خواہشات نفس کے زیر اثر جہاں اور بہت سی تحریفات کی ہیں ‘ ان میں سے ایک شرمناک تحریف خدا کے سچے پیغمبروں اور اولوا العزم رسولوں پر بہتان طرازی اور ان کی جانب بے ہودہ اور فحش انتسابات کے لیے بے جا اقدام بھی ہے۔
اور اس معاملہ میں بنی اسرائیل کا قدم سب سے آگے ہے۔ وہ ایک جانب خدا کی ایک برگزیدہ ہستی کو نبی اور رسول بھی تسلیم کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی جھجک کے شرمناک اور غیر اخلاقی امور کا انتساب بھی ان کے ساتھ وابستہ رکھتے ہیں۔ مثلاً حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیوں کا معاملہ نیز بعض انبیا ورسل اور خدا کے جلیل القدر پیغمبروں کی رسالت و نبوت سے انکار کر کے ان پر مختلف قسم کے بہتان اور جھوٹے الزامات لگانا قابل فخر بات سمجھتے ہیں۔ مثلاً حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معاملہ۔
قرآن عزیز نے دین کے بارے میں سچائی اور اعلان حق کا جو بیڑا اٹھایا اور اصلاح ادیان کے ساتھ دین حق (اسلام) کی جو حقیقی روشنی عطا کی ‘ اس کے ان احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ جن انبیا ورسل کا اس نے ذکر کیا ہے ‘ ان سے متعلق بنی اسرائیل کی خرافات و ہزلیات کو مدلل رد کیا اور ان کے مقدس دامن کو عائد کردہ آلودگیوں
سے پاک ظاہر کیا اور اس طرح اصل حقیقت کو آشکارا کر کے کو رباطوفں کی خباثت نفس کا پردہ چاک کر دیا۔ 1- صد ہزار قابل عبرت یہ بات ہے کہ جس گمراہی کو بنی اسرائیل نے اختیار کیا اور قرآن عزیز نے جس کو روشن اور واضح دلائل کے ساتھ مردود قرار دیا تھا اس آلودگی سے ہمارا دامن بھی محفوظ نہ رہ سکا اور قرآن عزیز کی صاف اور روشن راہ کو چھوڑ کر ہم نے تحریف شدہ روایات بنی اسرائیل کو اسلامی روایات میں جگہ دینی شروع کردی۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ صرف یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اہل کتاب کی جو روایات قرآن اور تعلیم اسلام کے منافی نہ ہوں ان کو نقل کرنا درست ہے لیکن ہم نے اس ارشاد مبارک کی بنیادی شرط ” کہ وہ قرآن اور تعلیم اسلام کے خلاف نہ ہو “ کو نظر انداز کر کے ہمہ قسم کی اسرائیلی روایات کو نہ صرف نقل کیا بلکہ قرآن عزیز کی تفسیر و توجیہ کے لیے ان کو دلیل بنالیا اور جگہ جگہ تاویل و تفسیر قرآن میں ان کو پیش کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف تو غیر مسلموں نے ان روایات کو اسلامی روایات ظاہر کیا اور ان میں آب و رنگ پیدا کر کے اسلام کی بے لوث اور پاک تعلیم پر حملے شروع کر دیے اور ان کو اپنے ناپاک مقاصد کے لیے بہانہ اور حیلہ بنالیا اور دوسری جانب خود مسلمانوں میں الحادو زند قہ کے علم برداروں نے ان روایات کی آڑ لے کر قرآن عزیز اور صحیح احادیث سے ثابت اور علم یقین (وحی الٰہی ) سے حاصل شدہ حقائق (معجزات) حشر ونشر کے واقعات ‘ جنت و جہنم کی تفصیلات سے انکار کے لیے راہ بنالی اور ہر ایسے مقام پر بے سند یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو ہمارے مفسرین نے عادت کے مطابق اسرائیلی اعتقادات سے اخذ کر لیا ہے۔ حالانکہ اس واقعہ کے لیے خود قرآن عزیز یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نص قطعی (یقینی صراحت) موجود ہوتی ہے۔
چنانچہ سر سید ‘ مولوی محمد حسن امروہوی ‘ مولوی چراغ علی ‘ غلام احمد قادیانی ‘ محمد علی لاہوری کی تفاسیر قرآن اور تفسیری مضامین کی اساس اسی الحاد پر قائم ہے۔
غرض یہ دونوں راہیں غلط ہیں۔ اسلام کی تعلیم کے خلاف اسرائیلی روایات کو اسلامیات خصوصاً تفسیر قرآن میں جگہ دینا بھی غلط راہ اور سخت مہلک قدم ہے ‘ خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ اٹھایا گیا ہو اور اسی طرح الحاد کی دعوت کے لیے اس نقل روایات کی آڑ لے کر نصوص قرآن و حدیث سے انکاریا تفسیر کے نام سے معنوی تحریف کا اقدام بھی اسلامی تعلیم کو برباد کرنا اور اس کے خدو خال کو مسخ کردینا ہے۔
صحیح اور صاف راہ (راہ مستقیم) صرف وہ ہے جو علمائے محققین نے اختیار کی ہے کہ وہ ایک طرف نصوص قرآن و حدیث کو اپنا ایمان یقین کرتے اور ان میں ملحدانہ تاویلات کو تحریف سمجھتے ہیں اور دوسری جانب قرآن و حدیث کے دامن کو اسرائیلیات سے پاک ثابت کر کے حقیقت کی روشنی کو سامنے لاتے ہیں۔ 2- صاحب حکومت انبیا ورسل اور دنیوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی زندگی میں ہمیشہ بین اور واضح امتیاز رہا اور رہتا ہے۔ اول الذکر حضرات کی زندگی کے ہر ایک پہلو اور ہر ایک گوشہ میں خدا کا خوف ‘ اس کی خشیت ‘ عدل و انصاف ‘ دعوت و ارشاد ‘ خدمت خلق نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ کسی جائز موقع پر حاکمانہ اقتدار کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اس میں نخوت وتکبر کی جگہ بغض فی اللہ نظر آتا ہے۔
یعنی ان کا غصہ اپنے لیے نہیں ‘ اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ خدائے برتر کے کلمہ کی بلندی کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت یوسف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ۔ کی حیات طیبہ کا پورا دور اس کا شاہد عدل ہے اور موخر الذکر کی زندگی اور حیات کے ہر شعبہ میں ذاتی وقار ‘ شخصی یا جماعتی (پارٹی) تفوق و برتری کا مظاہرہ ‘ زیر دستوں پر ظلم ‘ اساس و بنیاد کی طرح کار فرما نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ اول فرعون کے اس اعلان پر غور فرمائیے { اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی } [93] ”
میں تمھارا سب سے بڑا پروردگار ہوں دوسرا کوئی نہیں “ اور پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس خطاب پر نظر کیجئے
{ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } [94]
” مجھ پر بلندی ظاہر نہ کر اور مسلمان ہو کر میرے پاس حاضر ہو “
دونوں جملوں میں حاکمانہ اقتدار کا مظاہرہ موجود ہے ‘ مگر فرعون کے اعلان میں خدا کے ساتھ سرکشی ‘ مخلوق خدا پر ظالمانہ قہرمانیت اور دعوائے خدائی کے لیے انانیت جیسے امور صاف نظر آ رہے ہیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خطاب میں مخاطب کے مقابلہ میں سربلندی کا اظہار ذاتی وقار اور شخصی سر بلندی کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کے ارشاد و تبلیغ ‘ اعلائے کلمۃ اللہ اور شرک سے بیزاری کے ساتھ دعوت توحید کے لیے کیا جارہا ہے اور یہی فرق ہے جو انبیا (علیہم السلام) کی وراثت کے ذریعہ ہمیشہ خلافت حقہ اور ملک عضوض (دنیوی حکومت) کے درمیان نمایاں رہنا چاہیے۔ 3- جس شخص کی زندگی خالص اللہ کے لیے ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ بھی اپنی کل کائنات کو اس کے لیے تابع اور مسخر کردیتے ہیں اور اس کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ اس کا کوئی قدم بھی خدا کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھتا۔ اب اگر ایسا شخص بعض ایسے امور کر دکھاتا ہے جو عام دنیوی اسباب و وسائل سے بالاتر ہو کر عمل میں آئے ہیں تو کوتاہ بین اور مشکوک نگاہیں دیکھنے اور سمجھنے کی تو زحمت گوارا نہیں کرتیں کہ جس ہستی سے یہ اعمال صادر ہوئے ہیں وہ خدا کی مرضی میں خود کو فنا کرچکی ہے اس لیے خدا کی بے قید قدرت کا ہاتھ اس کے سر پر ہے اور اس کے ان اعمال (معجزات) کو بھی عام قوانین قدر کی ترازو میں تول کر ان کے انکار پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ یہ راہ بلاشبہ غلط اور گمراہی کی راہ ہے اور صاف اور روشن ” راہِ مستقیم “ وہ ہے جس کو ہمیشہ سے مفکرین اسلام قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرتے چلے آئے ہیں ‘ یعنی ” عام قوانین قدرت کے خلاف امور ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں ‘ لہٰذا ان کا انکار بداہت کا انکار ہے اس لیے کہ قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے خالق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بے قید قدرت سے کسی قانون کو توڑ دے بلکہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ غالباً معجزات جیسے امور کے لیے اس کے یہاں شروع ہی سے ایسے جدا نوامیس فطرت اور قوانین قدرت کام کر رہے ہیں جو عام قوانین فطرت سے خاص ہیں اور چونکہ دنیوی علوم نے ان حدود تک رسائی نہیں کی اور وہ ابھی تک ان کے اکتشافات سے عاجز ہیں اس لیے ہم اپنی کوتاہ عقل کے پیش نظریہ سمجھتے ہیں کہ یہ امور خارق عادت اور قوانین قدرت کو توڑنے والے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان اعمال کا تعلق بھی نوامیس فطرت ہی سے وابستہ ہوتا ہے۔ فرق صرف عام اور خاص کا ہے نہ کہ عام قوانین کے توڑنے کا ‘ اور نوامیس فطرت کی اس تقسیم کا علم خدائے تعالیٰ کی جانب سے ان نفوس قدسیہ کو مشاہدہ کے درجہ میں حاصل ہوجاتا ہے جن کے ذریعہ سے ایسے امور کو ظاہر کیا جاتا ہے جو خاص نوامیس فطرت کے تحت بروئے کار آتے ہیں۔ “ (مثلاً معجزات و کرامات) 4-شیطانی اثرات میں سب سے بدترین اثریا شیطانی وسوسہ یہ ہے کہ زن و شوہر کے خوش گوار تعلقات میں نفرت و عداوت کا ایسا زہر ملا دیا جائے جو ان کے مابین تفرقہ کا باعث ہو۔ یہ اس لیے بدترین ہے کہ عموماً اس کے نتائج کذب و بہتان ‘ بدکلامی و بداخلاقی ‘ بدکاری و فحش حتیٰ کہ قتل تک دور درس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عمل شیطان کو بہت محبوب ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آتا ہے :
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ابلیس علی الصبح اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے اور پھر اپنی فوج کو انسانوں کی گمراہی کے لیے اطراف زمین میں منتشر کرتا ہے اور جو ان میں سے زیادہ فتنہ پر داز ہوتا ہے وہ اس کے یہاں زیادہ تقرب پاتا ہے چنانچہ واپس آکر ہر ایک شیطان اپنی اپنی کارگزاری بیان کرتا ہے کہ مثلاً میں فلاں شخص کو چمٹا رہا حتیٰ کہ یہ کلمات (بے ہودہ کلمات) کہلا کر چھوڑا۔ مگر ابلیس اس قسم کی کارگزاریوں کی داد نہیں دیتا اور ان کے فتنہ کو معمولی قرار دیتا ہے۔ اسی درمیان میں ایک شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے زن و شوہر کے درمیان آج تفرقہ ڈال دیا اور ان کے خوش گوار تعلقات کو مکدر بنادیا۔ ابلیس یہ سن کر فوراً اس کو اپنے گلے لگا لیتا اور شاباش دیتا ہے کہ بیشک تو نے بہت بڑا کار نمایاں کیا ہے۔ “ (صحیح مسلم)
شیاطین جن و انس کا یہ سحر عموماً ایسے وساوس اور اسباب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے ‘ جو دونوں کے درمیان بدگمانی ‘ بدکلامی اور شکر رنجی پیدا کرتے ہوں اور یہ حالت آہستہ آہستہ نفرت و عداوت اور تفریق بین الزوجین پر مثمر ہوتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذالک۔