عبد المجید اول (ترکی زبان: Abdü’l-Mecīd-i evvel) (پیدائش: 23 اپریل 1823ء – انتقال: 25 جون 1861ء) سلطنت عثمانیہ کے 31 ویں سلطان تھے جنھوں نے 2 جولائی 1839ء کو اپنے والد محمود ثانی کی جگہ تخت سلطانی سنبھالا۔ ان کا دور حکمرانی قوم پرستوں کی تحریکوں کے آغاز کا زمانہ تھا۔ سلطان نے "عثمانیت" (انگریزی: Ottomanism) کے فروغ کے ذریعے قوم پرستی کو روکنے کی ناکام کوشش کی حالانکہ انھوں نے نئے قوانین اور اصلاحات کے ذریعے غیر مسلم اور غیر ترک اقوام کو عثمانی معاشرے میں ضم کرنے کی بھرپور سعی کی۔ انھوں نے مغربی یورپ کی اہم سیاسی قوتوں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور انہی اتحادیوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگ کریمیا لڑی۔ 30 مارچ 1856ء کو معاہدۂ پیرس کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کو یورپی اقوام کا باقاعدہ حصہ قرار دیا گیا۔ عبد المجید کی سب سے بڑی کامیابی تنظیمات کا اعلان اور نفاذ تھا جس کا آغاز ان کے والد محمود ثانی نے کیا تھا۔ اس طرح 1839ء سے ترکی میں جدیدیت کا آغاز ہو گیا۔
تعلیم و تربیت
عبد المجید نے یورپی طرز پر تعلیم حاصل کی اور وہ فرانسیسی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے اور ادب اور کلاسیکی موسیقی میں بھی انھیں رغبت تھی۔ وہ اپنے والد محمود ثانی کی طرح اصلاحات کو پسند کرتے تھے اور اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ انھیں مصطفی رشید پاشا، محمد امین علی پاشا اور فواد پاشا جیسے ترقی پسند وزیر ملے۔ اپنے پورے دور حکومت میں وہ اصلاحات مخالف قدامت پسندوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ عبد المجید پہلے عثمانی سلطان تھے جو مخصوص دنوں میں، خصوصاً جمعہ کو، ذاتی دلچسپی لے کر براہ راست عوامی شکایات سنتے تھے۔ انھوں نے تنظیمات کے نفاذ کے بعد عوام پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے سلطنت بھر کا دورہ بھی کیا اور اس سلسلے میں 1844ء میں ازمیت، مدانیہ، بروصہ، گیلی پولی، چناق قلعہ، لیمنوس، لیسبوس اور ساکز کے دورے کیے۔ انھوں نے 1846ء میں بلقان کے صوبوں کا بھی دورہ کیا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے دور میں سلطنت عثمانیہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوئی اور سلطنت میں امن قائم ہوا لیکن اس جدیدیت کی سلطنت عثمانیہ کو بہت مہنگی قیمت چکانی پڑی۔ تاریخ میں پہلی بار جنگ کریمیا کے دوران سلطنت عثمانیہ کو اگست 1854ء میں غیر ملکی قرضہ لینا پڑا۔ اس کے بعد 1855ء، 1858ء اور 1860ء میں بھی سلطنت نے قرضے لیے اور یوں معاشی طور پر قرضوں میں جکڑتی گئی۔ دوسری جانب شاہ کے اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا جس کا اندازہ استنبول میں دولمہ باغچہ جیسے عظیم الشان محل کی تعمیر سے بھی ہوتا ہے جس پر 35 ٹن سونے کی لاگت آئی۔
وفات
عبد المجید 39 سال کی عمر میں 25 جون 1861ء کو تپ دق کے باعث انتقال کر گئے۔ ان کی جگہ عبد العزیز اول تخت سلطانی پر بیٹھے۔ انھوں نے سوگواران میں متعدد بیٹے چھوڑے جن میں سے مراد پنجم، عبد الحمید ثانی، محمد پنجم اور محمد ششم نے بعد ازاں سلطان کی حیثیت سے امور سلطنت سنبھالے۔
اہم اصلاحات
- پہلے عثمانی کاغذی نوٹوں کا اجرا (1840ء)
- فوج کی تنظیمِ نو (1843ء – 1844ء)
- عثمانی قومی ترانہ اور قومی پرچم کا انتخاب (1844ء)
- فرانسیسی طرز پر مالیاتی نظام کی تنظیمِ نو
- فرانسیسی طرز پر ہی ضابطۂ فوجداری و دیوانی کی تنظیمِ نو
- مجلسِ معارفِ عمومیہ کا قیام جو پہلی عثمانی پارلیمان کا نمونہ تھی (1876ء)
- پہلی بار جدید جامعات و تعلیمی اداروں کا قیام (1848ء)
- غیر مسلموں پر عائد اضافی محصولات کا خاتمہ (1856ء)
- غیر مسلموں کو فوج میں شمولیت کی اجازت (1856ء)
- معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے انتظامی امور میں بہتری کے لیے اقدامات
- عبد المجید کے دور میں پہلی بار پگڑی کی جگہ فاس (جو بعد ازاں ترکی ٹوپی کہلائی) کو اختیار کیا گیا۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
عبد المجید اول پیدائش: 23 اپریل 1823 وفات: 25 جون 1861
|
شاہی القاب
|
ماقبل
|
سلطان سلطنت عثمانیہ 2 جولائی 1839 – 25 جون 1861
|
مابعد
|
مناصب سنت
|
ماقبل
|
خلیفہ 2 جولائی 1839 – 25 جون 1861
|
مابعد
|
سانچہ:عثمانی شجرہ نسب