محمد ثالث (عثمانی ترکی: محمد ثالثMeḥmed-i sālis, ترکی زبان: III.Mehmed) (پیدائش 26 مئی1566ء – 22 دسمبر1603ء) 1595ء سے اپنی وفات تک سلطنت عثمانیہ کا فرمانروا رہا۔ وہ اپنے والد مراد سوم کی جگہ تخت سلطانی پر بیٹھا۔
سلطنت عثمانیہ میں تخت سنبھالنے کے ساتھ ہی "قتل برادران" کی قبیح رسم کا آغاز سلطان محمد فاتح کے دور میں ہوا اور آہستہ آہستہ یہ رسم زور پکڑتی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ نئے سلطان کے لیے بغاوت کے خطرات کو کم کرنا تھا لیکن محمد ثالث کا تخت سنبھالنا برادر کشی کے اس سلسلے میں ایک سیاہ باب کا اضافہ تھا اور 19 بھائیوں کا قتل محمد ثالث کو عثمانی تاریخ میں ناپسندیدہ کرداروں میں شامل کرنے کے لیے کافی تھا۔[4][5] شاہی جلادوں میں سے اکثر گونگے ، بہرے تھے تاکہ وہ وفادار رہیں ۔[6] اس نے اپنی بیس سے زائد بہنوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں حکمرانی کا کوئی گُر نہ تھا اور تمام تر اختیارات اس کی والدہ صفیہ سلطان کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے دور کا اہم واقعہ ہنگری میں آسٹریا اور عثمانیوں کے درمیان جنگ تھی جو 1596ء سے 1605ء تک جاری رہی۔
جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے باعث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اول کے بعد میدان جنگ میں اُترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا۔ اس کی افواج نے 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبسبرگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔ اگلے سال معالجین نے سلطان کو کثرت شراب نوشی اور بسیار خوری سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث میدان جنگ میں اترنے سے منع کر دیا۔
ان جنگوں میں فتوحات کے باعث محمد ثالث کے دور میں زوال پزیر سلطنت عثمانیہ کو کوئی اور دھچکا نہیں پہنچا۔