سلطان محمد فاتح کے انتقال کے وقت بایزید ثانی ایشیائے کوچک کے صوبے کے گورنر تھے جبکہ دوسرے صاحبزادے جمشیدکریمیا کی گورنری پر مامور تھے۔ کیونکہ محمد فاتح نے کسی کو جانشین نامزد نہیں کیا تھا اس لیے محل کے مقتدر حلقوں میں اپنی مرضی کے شہنشاہ کی تقرری کی کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ صدر اعظم محمد پاشا جمشید کا حامی تھا اس لیے محمد فاتح کی وفات کی خبر کو بایزید سے مخفی رکھا لیکن اسی دوران میں شہر میں ہنگامہ آرائی ہو گئی اور ینی چری نے سازشی منصوبے کا علم ہوتے ہی محمد پاشا کو قتل کر دیا۔ اسحاق پاشا کو نیا صدر اعظم مقرر کرنے کے بعد بایزید کے حامیوں نے با آسانی ینی چری کی حمایت حاصل کر لی اور بایزید کے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا۔
باپ کے انتقال کی خبر سنتے ہی بایزید اماسیہ سے قسطنطنیہ پہنچ گیا جہاں پہنچتے ہی ینی چری نے تنخواہوں میں اضافے اور انعامات کا مطالبہ کر دیا جس کو تسلیم کرنے کے وعدے کے بعد 1481ء میں اسے تخت پر بٹھا دیا گیا۔
بایزید نے ینی چری کو انعام و اکرام سے نوازا جس سے سلطنت عثمانیہ میں رسم بد چل پڑی جو اگلے تین سو سال تک (ینی چری کے خاتمے تک) بدستور قائم رہی اور ینی چری کے فوجی منہ زور ہوتے چلے گئے۔ ہر سلطان کی تخت نشینی پر وہ انعامات اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے اور منظور نہ کرنے کی صورت میں قتل تک کی دھمکی دے دیتے۔
بایزید نے ان کا مطالبہ تسلیم کر کے ابتدا ہی سے ظاہر کر دیا کہ وہ اپنے باپ کی طرح قوی اور رعب و دبدبے والا سلطان نہیں۔
بغاوت
بایزید کو تخت نشین ہونے کے بعد سب سے پہلے اپنے بھائی جمشید کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جمشید کا کہنا تھا کہ کیونکہ والد نے کسی کو جانشیں نامزد نہیں کیا اس لیے سلطنت پر حکمرانی اکیلے بایزید کا حق نہیں۔ اس لیے جمشید نے ایشیائی مقبوضات پر بایزید اور یورپی مقبوضات پر اپنی حکومت کی تجویز پیش کی جسے بایزید نے مسترد کر دیا جس پر جمشید نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ کیونکہ جمشید جانتا تھا کہ محمد فاتح نے "قتل برادران" کے جس خونیں قانون کو آئین سلطنت کا حصہ بنایا ہے بایزید اس پر ضرور عمل کرے گا اور اطاعت قبول کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئے گا۔
بایزید نے سلطنت کی تقسیم سے انکار کے باوجود جمشید کو اہل و عیال کے ساتھ بیت المقدس میں سکونت اختیار کرنے اور کریمیا کی آمدنی کا ایک حصہ عطا کرنے کی پیشکش کی جسے جمشید نے ٹھکرادیا اور نتیجتاً 1481ء میں دونوں کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔
غداری کے باعث جنگ میں جمشید کو شکست ہو گئی اور وہ مصر بھاگ کھڑا ہوا جہاں مملوک سلطان نے اسے عزت و احترام کے ساتھ اپنا مہمان بنایا۔ سلطان نے نہ صرف اسے پناہ دی بلکہ فوجی و مالی امداد بھی کی جس کے بعد جمشید نے ایشیائے کوچک کے جنوب مغربی حصے سے سلطنت عثمانیہ پر چڑھائی کر دی اور 1482ء میں دونوں بھائی ایک مرتبہ پھر مد مقابل آ گئے۔ لیکن ایشیائے کوچک کے سرداروں کے عدم تعاون کے باعث اسے ایک مرتبہ پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اس مرتبہ شکست کھا کر مصر جانے میں شرم آڑے آ گئی اور جمشید نے اس مرتبہ مسیحیوں سے رابطہ کیا اور روڈس میں داخلے کی اجازت چاہی اور ایک معاہدے کے تحت روڈس پہنچ گیا جہاں کے عیار مسیحی حکمران نے ایک طرف اس سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ بایزید کے خلاف حق دلانے کے لیے اس کی مدد کرے گا اور دوسری جانب بایزید کو لکھوا بھیجا کہ جمشید کی نظر بندی کے لیے سالانہ 45 ہزار دوکات دیے جائیں جس پر بایزید رضامند ہو گیا اور اس طرح جمشید بظاہر پناہ اور حقیقتاً قید میں تھا۔ روڈس کے حکمران ڈی آبوسن کی عیاری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بایزید سے رقم بٹورنے کے ساتھ ساتھ اس نے مصر میں جمشید کی والدہ کو بھی لکھوا بھیجا کہ سالانہ ڈيڑھ لاکھ بھیجتی رہو گی تو جمشید زندہ رہے گا بصورت دیگر قتل کر دیا جائے گا۔ اس طرح اس "نظر بند" شہزادے کو نیس، فرانس اور بعد ازاں مختلف مقامات پر پہنچایا گیا۔ ڈی آبوسن "سونے کی چڑیا" کو کھونا نہیں چاہتا تھا جبکہ یورپی طاقتیں اسے بایزید کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھیں تاکہ سلطنت عثمانیہ کو کمزور کیا جا سکے۔ آخر کار شاہ فرانس چارلس پنجم نے جمشید کو حاصل کیا اور بطور ضمانت روم بھیج دیا۔ جہاں و پوپ انوسینٹ ہفتم کی نظر بندی میں منتقل ہو گیا۔ بایزید جمشید کی نگرانی کے لیے پوپ کو 40 ہزار دوکات سالانہ ارسال کرتا تھا۔ پوپ کے انتقال کے بعد روم نے تین لاکھ دوکات کے عوض شہزادہ کے قتل کا سودا کرنا چاہا لیکن ابھی اس معاملے پر بات آگے ہی نہ بڑھی تھی کہ فرانس نے اٹلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور پوپ 40 ہزار دوکات کی رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
بالآخر 36 سال کی عمر میں ایک سازش کے ذریعے اسے زہر دے کر قتل کر دیا گیا اور یوں 13 سالہ قید و نظر بندی کے بعد جمشید کا انتقال ہو گیا۔ بایزید نے اس کی لاش منگوا کر بروصہ میں دفن کی۔
اٹلی میں شکست
سلطان فاتح کے آخری ایام میں ترک افواج اٹلی کے ساحلوں پر اتریں تھیں اور ساحلی شہر اوٹرانٹو پر قبضہ کر لیا۔ لیکن بایزید کی جانب سے اہم ترین سپہ سالار احمد کرک پاشا کو واپس بلانے اور اٹلی کی مہم میں امداد نہ دینے کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے جلد ہی یہ قبضہ ختم ہو گیا۔ اس طرح بایزید کی ناقص حکمت عملی سے سلطنت عثمانیہ کو بہت نقصان ہوا اور محمد فاتح کی جانب سے فتح اٹلی کا جو دروازہ کھلا تھا وہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
فتوحات
ہرزیگووینا عثمانی سلطنت کی باجگذار ریاست تھی جس نے محمد فاتح کے دور میں باجگذاری اختیار کی لیکن بایزید نے اسے مکمل فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔
ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن فتح کی نوبت نہ آ سکی اور بالآخر صلح ہو گئی۔
بایزید کے دور میں بحری معرکے بھی ہوئے اور 1498ء میں وینس سے ہونے والی جنگ میں ترکوں نے تین قلعے فتح کیے۔
اسی دور میں روس کا سفیر پہلی بار قسطنطنیہ آیا لیکن غرور و تکبر کا جو سبق اسے زار روس نے پڑھا کر بھیجا تھا اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے یہ سفارت ناکام ہو گئی۔ بایزید کے دور میں ہی ترکی اور مصر کی دشمنی کا آغاز ہوا۔ جبکہ مشرقی سمت ایران میں صفوی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کا ایک نیا حریف پیدا ہو گیا۔
بایزید نے ہی سقوط غرناطہ کے بعد وہاں سے نکالے گئے مسلمانوں اور یہودیوں کو بچانے کے لیے کمال رئیس کی زیر قیادت کئی بحری مہمات بھیجیں جنھوں نے ہزاروں مسلمانوں اور یہودیوں کی جانیں بچائیں۔
معزولی
بایزید کا عہد حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی خانہ جنگی پر ہی رہا۔ اول الذکر میں حکومت کے لیے وہ اور اس کا بھائی جمشید مدمقابل رہے اور دور اختتام پر اس کے بیٹوں کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔ بایزید کے تین بیٹے تھے اور جانشینی کے لیے اس کی نظر انتخاب دوسرے بیٹے احمد پر تھی لیکن چھوٹا بیٹا سلیم فوجی قابلیت کا حامل تھا اور فوج میں مقبولیت بھی رکھتا تھا۔ احمد کی طرف باپ کا رحجان دیکھ کر سلیم طرابزون سے قسطنطنیہ روانہ ہوا۔ بایزید نے سلیم کی آمد کا علم ہونے پر اسے واپس جانے کا حکم دیا لیکن طاقت کے نشے میں چور سلیم جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ باپ بیٹے میں جنگ ہوئی اور سلیم شکست کھا گیا۔ وہ کریمیا چلا گیا جہاں اس کا سسر فرمانروا تھا۔ اس کی مدد سے دوبارہ قسطنطنیہ آیا اور فوج کی مدد حاصل کی جس نے بایزید سے سلیم کے حق میں دستبرداری کا مطالبہ کر دیا۔
وفات
فوج کا رحجان دیکھ کر بایزید نے 1512ء میں سلیم کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کر دیا اور تخت چھوڑ دیا۔
زندگی کے بقیہ ایام اس نے ایشیائے کوچک میں گذارنے کی خواہش لے کر سفر کا آغاز کیا لیکن وہاں تک ہی نہ پہنچ سکا اور تین دن بعد انتقال کر گئے۔ انھیں استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
کردار
بایزید کا رحجان زیادہ تر مذہب و فلسفہ کی جانب تھا جس کی وجہ سے لوگ اسے صوفی کہتے تھے۔ سادہ و حلیم مزاج اور نرم خو ہونے کے علاوہ پابند شرع بھی تھا۔ شاعری سے خاص لگاؤ رکھتا تھا۔ سپاہیانہ شجاعت میں کم نہ تھا لیکن جنگ پسند نہیں تھا۔