پیغمبر اسلام کی بعثت کے وقت حجازِ مقدس میں عام طور سے خطِ کوفی ہی رائج تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو خطوط لکھوائے وہ خطِ حمیری اور خطِ حیرہ کی اِسی محتاط روش یعنی خطِ کوفی میں لکھے گئے تھے۔ ابتداً اِس خط میں اعراب (حرکات) اور نقطوں کا چلن نہیں تھا۔ ابو الاسود الدؤلی نے تقریبًا سنہ 50ھ میں نقطے ایجاد کیے۔ لیکن یہ نقطے حروف کی شناخت کی بجائے اعراب کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
اصلاح خط
جب اسلام مصر اور ایران تک پھیل گیا تو اکثر حروف کے ہم صورت ہونے کی وجہ سے قرآنِ مجید کی قرات میں مشکل ہونے لگی۔ مراسلت میں بھی کئی طرح کے مغالطے پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو رسمِ الخط کی اصلاح کا حکم دیا، جس نے نصر بن عاصم کو یہ کام تفویض کیا۔
نصر بن عاصم نے اِعراب کے لیے نقطوں کے استعمال کو بدستور قائم رکھا لیکن اب اِن نقطوں کے لیے صرف قرمزی رنگ استعمال کرنے کی تجویز پیش کی۔ ہم شکل حروف کی تخصیص اور تشخیص کے لیے بھی اُس نے نقطے ہی ایجاد کیے لیکن اِن نقطوں کے لیے سیاہ رنگ لازم قرار دیا۔ خطِ کوفی میں یہ ترتیب تقریبًا چالیس سال تک قائم رہی حتٰی کہ عبد الرحمٰن خلیل بن احمد عروضی نے اِعراب کی شکلیں وضع کرکے انھیں سیاہ نقطوں سے الگ کر دیا۔
ارتقا
خطِ کوفی اپنی سادہ روش اور واضح ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوا اور تقریبًا چھٹی صدی ہجری تک مستعمل رہا۔ اِس دوران اس میں بعض تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ دوسری صدی ہجری میں اس میں زاویے نمایاں ہو گئے۔ اِس کے بعد اِس خط نے قوسی شکل اختیار کرلی اور رفتہ رفتہ تزئینی اور آرائشی ہوتا چلا گیا اور بالآخر رواج سے خارج ہو گیا۔