خط رقعہاسلامی خطاطی کا ایک خط ہے جو خط دیوانی سے مشتق ہوا ہے۔ ابتداً اِس خط کو خط دیوانی ہی سمجھا جاتا تھا مگر بعد ازاں اِسے منفرد اور الگ خط تصور کیا گیا۔ ترک عثمانی سلاطین کے عہدِ حکومت میں اِس خط کو خط دیوانی کی طرح ہی رائج کیا گیا اور اُس جیسا ہی فروغ ملا۔ بعض مصنفین نے اِسے خط رقاع ہی سمجھا ہے مگر یہ مغالطہ محض غلطی پر مبنی ہے کیونکہ خط رقاع ایک الگ خط ہے۔خط رقعہ اسلامی خطاطی میں وہ واحد خط ہے جو سہل ترین خط سمجھا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں یہ خط انتہائی مقبول ہے۔ ہر نجی تحریر خط رقعہ میں لکھی جاتی ہے، البتہ پاکستان، ایران اور بھارت میں لوگ اِس خط سے ناواقف ہیں اور اِن ممالک میں یہ خط مقبول بھی نہیں ہو سکا۔ بلکہ یہاں خط شکستہ مقبول ہے۔ [1]
تاریخ
خط رقعہ دراصل خط دیوانی سے ہی اخذ ہوا ہے، گویا یہ خط دیوانی کی سہل ترین صورت ہے۔ رقعہ میں خط دیوانی کو زیادہ آسان ترین بنایا گیا ہے تاکہ لکھنے میں روانی اور آسانی برقرار رہے۔اِس خط پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے یہ خط نسخ اور خط دیوانی سے مل کر وجود میں آیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ خط رقعہ، خط نسخ، خط دیوانی، خط نستعلیق اور خط سیاقت سے مل کر وجود میں آیا ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ ابتدا میں خط رقعہ کو خط دیوانی کی ہی ایک روش سمجھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے مؤرخین اِس خط کے آغاز کو 882ھ مطابق 1481ء سے تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن بعد ازاں اِس خط نے بالکل جداگانہ شکل اختیار کرلی۔ خط رقعہ کو جداگانہ شکل دینے والا سلطانعبدالمجید اول کا مشہور استاد ممتاز بک تھا۔ وہ اس خط کا زبردست ماہر تھا اور اُسی نے اِس کو فروغ دیا۔ خط کے قواعد و ضوابط مدون کیے، ورنہ اِس سے قبل یہ خط دیوانی اور خط سیاقت کے ساتھ ہی مخلوط لکھا جاتا تھا۔ [2]