بہاولنگر جنکشن ریلوے اسٹیشنپاکستان کے شہر بہاولنگر میں واقع ہے۔ یہ ایک جنکشن ریلوے اسٹیشن ہے۔ اور یہاں سے ایک ریلوے لائن فورٹ عباس ریلوے اسٹیشن کو جاتی ہے۔
تاریخ
بہاولنگر ریلوے اسٹیشن نے بہاولپور ریاست کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر 1952ء میں بننے والے ضلع بہاولنگر میں خوش حالی بھی اسی ریلوے اسٹیشن کی مرہون منت رہی۔ یہ ریلوے اسٹیشن 1894ء میں رجھان والی ریلوے اسٹیشن کے نام سے قائم کیا گیا تھا، جسے 1901ء میں نواب محمد خان نے بہاولنگر ریلوے جنکشن میں تبدیل کیا۔ لیکن آج کل یہ ریلوے اسٹیشن کسی اجڑے دیار کا نمونہ پیش کررہا ہے کیونکہ یہاں کوئی ریل گاڑی نہیں آتی۔ اس ریلوے ٹریک پر سمہ سٹہ سے امروکہ تک ایک ریل گاڑی چلتی تھی، جسے 26 جولائی 2011ء کو بند کر دیا گیا تھا۔ آج بھی ریلوے کا وکو شیڈ، پاور ہاؤس اور ٹرن ٹیبل اس اسٹیشن کے عہد رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر موجود ریلوے ریسٹ ہاؤس کی شاندار عمارت بھی پرانے وقتوں کی کہانی سنا رہی ہے۔
اس ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں 1935ء سے 1938ء تک جو تعمیرات ہوئیں ان میں اسٹاف کالونی، ریلوے اسپتال، ڈی سی پاور اسٹیشن، ڈاک بنگلہ، کھیل کا میدان، قبرستان، ڈانس کلب، ریلوے ورکشاپ، ریلوے پولیس تھانہ شامل ہیں۔ لیکن اب ان سب پر ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔ بہاولنگر ریلوے کالونی میں ملازمین کے 543 کواٹرز میں قیام پزیر چند بڑے لوگوں کے کار خاص مقیم ہیں، جبکہ مریضوں بالخصوص بچوں کے لیے تعمیر کیا گیا اسپتال بھی حکمرانوں کی بے حسی کا المیہ بیان کررہا ہے۔ ریلوے کی زمین پر بڑے زمینداروں کے جانور چر رہے ہیں جبکہ حفاظتی دیواروں کی اینٹیں صاحبان اقتدار کے گھروں کو جانے والی سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہو چکی ہیں۔ 1938 میں یہاں پاور اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ ریلوے اسٹیشن بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی سے بھی محروم ہے۔
بہاولنگر سے گزرنے والی ریلوے لائن جنوبی پنجاب ریلوے کمپنی کے زیراہتمام تعمیرکرائی گئی۔ 257 کلومیٹر طویل ریلوے لائن دہلی، بھٹنڈا اور سما سٹہ کے درمیان چلتی تھی۔ اس کا مغربی حصہ پاک بھارت بارڈر کے ساتھ سما سٹہ سے امروکہ تک بچھایا گیا تھا، جو بغداد الجدید، خیرپور، ٹیموالی، قائم پور، حاصل پور، چشتیاں، بہاولنگر اور منڈی صادق گنج اسٹیشن سے ہوتا ہوا مختلف ریلوے لائنوں کے ذریعے فیروزپور اور امروکہ اسٹیشن سے ملتا تھا۔ یہ ریلوے لائن ریاست بہاولپور کی ملکیت تھی، جسے دربار لائن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ فورٹ عباس اور بہاولنگر کے درمیان 112 کلومیٹر طویل ریلوے لائن 1928ء میں بچھائی گئی۔ جس کے باعث کسانوں کے لیے نئی غلہ منڈیاں قائم ہوئیں۔ اس دوران کھچی ولا، فقیر والی، ہارون آباد اور ڈونگہ بونگا کی غلہ منڈیاں پورے پنجاب میں مشہور تھیں، لیکن ریلوے لائن کی بندش سے غلہ منڈیاں ویران ہونے لگیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ منڈی ڈب سناٹیکا کا ریلوے اسٹیشن اور ریلوے لائن گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
بہاولنگر ریلوے اسٹیشن کا عروج کا زمانہ 1935ء تھا، جب درجنوں ریل گاڑیاں کراچی، دہلی اور لاہور کو جاتی تھیں۔ کوئٹہ سے دہلی جانے والی مسافر گاڑی بھی اسی اسٹیشن سے گذرا کرتی تھی۔ چوبیس گھنٹے اس ریلوے اسٹیشن پر چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ریلوے جنکشن کاروباری اعتبار سے انتہائی اہم رہا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سیلمانکی سیکٹر میں پاکستان کی فتوحات میں اس ریلوے جنکشن اور ٹریک کا کردار بھی نمایاں تھا، جس کے ذریعے سے پاک فوج کو بروقت اور محفوظ کمک ملتی رہی۔ 1980ء تک اس ریلوے اسٹیشن نے اپنے ماضی کی روایات کو برقرار رکھا، لیکن اس کے بعد یہاں ویرانیوں کے آسیب نے ڈیرے ڈال لیے۔
1980ء تک اس ریلوے اسٹیشن پر 16 ریل گاڑیاں آ کر ٹھہرتی تھیں۔ یہاں چوبیس گھنٹے خوب چہل پہل رہا کرتی تھی۔ لیکن اب یہاں بڑے روٹس کی گاڑیاں تو دور عوامی ایکسپریس اور لوکل گاڑیاں بھی نہیں آتیں۔ سال 2000ء تک اس ریلوے اسٹیشن پر صرف دو گاڑیاں آکر ٹھہرتی تھیں، لیکن بہاولنگر سے فورٹ عباس تک جانے والی ریل گاڑی کو 2002ء میں بند کر دیا گیا جبکہ سمہ سٹہ سے امروکا ٹرین کو 2011ء میں بند کر دیا گیا۔