4 مظاہرین جاں بحق اور صدف نعیم ایک نیوز صحافی حادثاتی طور پر جاں بحق[10] 5سے زائد مظاہرین کی گرفتاری [7] 9+ مظاہرین زخمی (بشمول عمران خان اور فیصل جاوید خان)۔[11][12]
اس مارچ کے ابتدائی دنوں میں عمران خان پر قاتلانہ حملےکی کوشش کی گئی۔ خان نے مارچ کو جاری رکھنے کی بجائے قبل از وقت انتخابات کے لیے مجبور کرنے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے پر زور دینے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی اور پاکستان کی وفاقی حکومت کے درمیان انتخابات کے انعقاد پر جاری تنازع سپریم کورٹ میں ثالثی کا باعث بن گیا۔
عمران خان نے بالآخر 25 اکتوبر 2022 کو یہ اعلان کیا کہ لانگ مارچ 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک ، لاہور سے شروع ہوگا اور دھرنے میں تبدیل ہونے سے پہلے اسلام آباد میں ختم ہوگا۔ [15][16][17]
واقعات
صدف نعیم کی موت
30 اکتوبر 2022 کو ایک پاکستانی نیوز ٹی وی چینل کی صحافی صدف نعیم قریب سے مارچ کو کور کرنے کی کوشش کے دوران ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ [18] اس نے عمران خان کے ٹرک پر چڑھنے کی کوشش کی اور اپنا توازن کھو بیٹھی اور زمین پر گر نے کے بعدٹرک سے ٹکرا گئی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا لیکن پہنچنے پر اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ [10]
صدف نعیم کے انتقال پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے صدمے اور غم کا اظہار کیا ۔ عمران خان نے اپنے آزادی مارچ کو دن کے لیے روکنے کا اعلان کر دیا۔ وہ ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر بھی گئے۔ [19] پی ٹی آئی نے نئے سربراہ پاک فوج کی تقرری کی خواہش ظاہر کی۔ [18]
عمران خان پر فائرنگ
قتل کی کوشش
3 نومبر کو اپنے حامیوں سے تقریر کرتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد نے عمران خان کے کنٹینر والے ٹرک پر گولیاں چلائیں۔عمران خان کے ایک معاون کے مطابق ٹرک پر چھ بار فائرنگ کی گئی۔ [20] ابتسام [21] کے نام سے ایک خان کے حامی نے بندوق بردار سے نمٹنے کی کوشش کی۔ شوٹر سے نمٹنے کی کوشش میں ایک اور حامی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ [21] پہلے گولی چلنے کی آواز آئی، پھر کچھ ہی لمحوں بعد پستول کے فائر کی آواز آئی۔[حوالہ درکار][ حوالہ درکار ]
عمران خان کو دائیں ٹانگ پر پنڈلی اور ران میں گولی لگی اور انھیں لاہور کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کا علاج جاری تھا۔ ان کے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ایکسرے اور اسکینز سے معلوم ہوا کہ خان کی ٹانگوں میں گولیوں کے ٹکڑے تھے اور ان کا ٹبیا ٹوٹ گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے بتایا کہ ان کی حالت مستحکم ہے۔ اس کے بعد انھیں 6 نومبر کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔
اس حملے میں عمران خان اور سینیٹرفیصل جاوید خان سمیت مجموعی طور پر 9 افراد زخمی اور ایک شخص جاں بحق ہوا۔ [11][12]