بنیادی یہودی آبادی: 6,556,000 74.6% of the اسرائیلی آبادی توسیع شدہ یہودی آبادی (بشمول یہودیوں کے غیر یہودی رشتہ دار): 6,705,000 اسرائیلی آبادی کا 79.3%
اسرائیلی یہود (انگریزی: Israeli Jews، عبرانی: יהודים ישראלים) کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو یہودیت پر ایمان لاتے ہوں اور ان کے پاس ریاست اسرائیل کی شہریت ہو اور وہ اسرائیلی یہودی مہاجرین کی اولاد میں سے ہو۔
اسرائیلی زیادہ تر اسرائیل اور مغربی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دیگر ممالک میں بھی آباد ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف یہودی علاقوں میں ہی پناہ گزین ہوں۔ زیادہ تر اسرائیلی یہود عبرانی زبان بولتے ہیں۔ اور ان میں اکثر کچھ نہ کچھ یہودی مذہبی تعلیمات کی پاسداری کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں دنیا میں یہود کی آبادی نصف حصہ ریاست اسرائیل میں آباد ہے۔
اسرائیل میں کی تعریف میں یہود کے تمام فرقے شامل ہیں۔ جیسے اشکنازی یہود، سفاردی یہودی، مزراحی یہودی، [[بيتا ] اسرائیل]]، کوچین یہود، بنے اسرائیل، قرائی یہود اور ان کے علاوہ بہت سارے یہودی فرقے ہیں جو اسرائیل میں آباد ہیں۔ کثیر تعداد میں فرقوں کا وجود اسرائیل میں وسیع یہودی ثقافت اور تہذیب کا ذمہ دار ہے اور بہت سارے مذہبی رسومات اور عبادات احاطہ کرتے ہیں۔ حریدی یہودیت سے لے کر سیکیولر یہودیت سب کے سب یہودی ثقافت کے احاطے میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ یہودی آبادی میں تقریباً 25 فیصد اسکولی بچے اور 35 فیصد سے زیادہ نومولود سفاردی یہودی اور مزراحی یہودی کی مخلوط اولادیں ہیں اور ان کی تعداد ہر سال 0۔5 فیصد کی در سے بڑھ رہی ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ یہودی آبادی آیا نصف سفاردی ہے یا نصف مزارحی۔[1]
باوجود یہ کہ اسرائیلی یہود کے درمیان میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ یہودی کون ہے؟، اسرائیل میں یہود ہونا قومی شعار مانا جاتا ہے اور اسرائیلی انتظامیہ اس کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔ ایک مکمل یہود ہونے کے سارے معیار جنہیں یہودی کون ہے؟ کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اور اسرائیلی وزارت داخلہ اس فردکو بطور یہود رجسٹر کرتی ہے جو اس معیار پر پورا اترا ہو۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2017ء تک اسرائیل میں یہودیوں کی آبادی تقریباً 6,556,000 ہے۔ ( کل آبادی کا 74.6 فیصد، اگر مشرگی یروشلم اور گولان عرب کی آبادی بھٰ شامل کی جائے)۔[2][3]اسرائیلی ادارہ جمہوریت کی 2008ء کی رپورٹ کے مطابق 47 فیصد آبادی خود کو پہلے ایک یہودی کے طور پر تسلیم کرتی ہے پھر ایک اسرائیلی کے طور پر۔ صرف 39 فیصد آبادی خود کو پہلے اسرائیلی مانتی ہے۔ [4]
یہود شروع سے ہی ارض اسرائیل کو اپنا مادر وطن تسلیم کرتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب کہ وہ منتشر تھے۔ اسرائیل کو اپنا گھر مانتے تھے۔ تنک کی تعلیمات کے مطابق یہود کا اسرائیل سے ناتا اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب خدا نے حضرت ابراہیم کو سرزمین کنعان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ابراہیم کنعان میں آباد ہو گئے جہاں ان کے فرزند ارجمند حضرت اسحاق اور پوتے حضرت یعقوب کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کا خاندان آباد ہوا۔ بعد ازاں یعقوب اپنی اولاد کے ساتھ مصر کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ صدیوں بعد ان کی نسل حضرت موسی اور حضرت ہارون کے ساتھ مصر سے نکل گئی، خدا نے موسی کو الواح عطا کی تھیں۔ اور وہ یعقوب کی اولاد کو اپنے آبائی وطن کنعان لے آئے۔ انھوں نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میںکنعان کو فتح کیا۔اسرائیلی قضاۃ کے دور میں اسرائیلیوں کے پاس کوئی منظم حکمران نہیں تھا۔ پھر اس دور کے بعد مملکت اسرائیل کو قائم کیا گیا اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر عمل میں آئی۔ جلد ہی یہ بادشاہت دو حصوں مملکت یہوداہ اور مملکت اسرائیل میں منقسم ہو گئی۔ ان بادشاہتوں کی تباہی کے بعد 597 قبل مسیح میں محاصرہ یروشلم پیش آیا اور اسرائیلوں کو اسیری بابلکی طرف دھکیل دیا گیا۔ 70 برسوں کے بعد کچھ اسرائیلیوں کو علاقے میں آنے کی اجازت ملی اور پھر ہیکل دوم تعمیر کیا گیا۔ پھر انھوں نے حشمونی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 63 قبل مسیح میں رومی سلطنت نے حشمونی سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ دوسری صدی کے دوران میں رومی سلطنت کے خلاف بغاوتی سلسلہ کا آغاز ہوا اور نتیجتا ہیکل دوم کی مسماری ہوئی اور یہودیوں کا دیس نکالا ہوا۔
7 ویں صدی میں اسلام کا عروج ہو ا اور بازنطینی سلطنت کی فوج نے اس علاقے کو شام کی اسلامی فتح جنگ میں فتح کر کے مسلمخلافت میں ملا لیا۔ صدیاں بیت گئیں اور علاقے میں یہودی آبادی گھٹتی بڑھتی رہی۔ 1880ء میں جدید صہیونیت سے قبل، 19 ویں صدی ڪے اوائل میں 1000 یہودی جدید اسرائیل میں آباد تھے۔
یہودی ایک زمانہ تک راندہ درگاں رہے، پھر 19 ویں صدی صہیونیت کے عروج کا پیغام لے کر آئی۔ قومی یہودی تحریک آغاز ہوا جس کا مقصد فلسطین میں یہودی ریادت قائم کر کے یہودیت اور صہیونیت کو دنیا میں ایک پہچان دینا تھا۔ 1880ء سے لے کر اب تک ایک کثیر تعداد نے فلسطین کی طرف ہجرت کی ہے۔ 1933ء میں نازیت کی آمد تک صہیونیت ایک اقلیتی تحریک تھی۔ نازیوں نے یہودیوں کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور انھوں نے مرگ انبوہ میں یورپ کے کئی علاقے فتح کر لیے تھے۔ [5] 19 ویں صدی کے اواخر میں یہودی کی ایک کثیر تعداد اولا عثمانی فلسطین پھر انتداب فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگی۔ سنہ 1917ء مٰں برطانیہ نے اعلان بالفور کے ذریعے تعہدی فلسطین میں اسرائیل کا گھر تسلیم کر لیا۔ اس علاقے میں یہودی آبادی 1922ء میں 11 فیصد سے بڑھ کر 1922ء میں 30 فیصد ہو گئی۔ [6]
سنہ 1973ء میں عرب بغاوت کے بعد پلی کمیشن نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جسے عرب رہنماؤں نے مسترد کر دیا۔ لیکن صہیونی رہنما داؤد بن غوریان نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نتیجہ کے طور پر چونکہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو عرب دنیا کے مدد کی ضرورت تھی لہذا عرب کے دباو میں آکر یہود کے قومی مادر وطن کا سپنا ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ اور تقسیم 1939 کے سفید دستاویز کی گفتگو کو ملتوی کر دیا کہ عرب لیگ کی رضامندی کے بعد پر سے غور کیا جائے گا۔ اس سے یہودی ہجرت پر پابندی لگ گئی۔اس کی دوسری پالیسی میں ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جہاں یہود اور عرب ایک ساتھ مل کر جکومت کریں۔ یہود نے اس پالیسی کو اپنی ہزیمت گردانا کیونکہ یہودی یجرت پر پابندی لگ چکی تھی جب کہ عرب ہجرت پر کوئی پابندی نہ تھی۔
1947ء میں جب کشیدگی بڑھنے لگی تو برطانیہ نے تعہدی فلسطین سے برطرف ہونے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کا منصوبہ تقسیم-1947 کی رو سے دو ریاست کا فیصلہ آیا۔ ایک یہودی اور دوسری عرب۔ تعہدی فلسطین کا تقریباً 56 فیصد رقبہ یہود ی ریاست کو دے دیا گیا۔اقوام میحدہ کی جنرل اسبملی نے اس فیصلہ کو تسلیم کیا اور ادھر عرب رہنماؤں نے اسے سرے سے خارج کر دیا اور گوریلا جنگ شروع کردی۔
تعہدی فلسطین کے خاتمے سے ایک دن قبل، 14 مئی 1948ء کو وزیر اعظم داوید بن گوریون کی قیادت میں یہودی رہنماؤں نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلامنکر دیا اور ساتھ ہی یہ اسرائیل کی آزادی کا بھی اعلان تھا۔ حالانکہ اس وقت سرحدوں کا کوئی تعین نہیں ہوا تھا۔ [7]
عرب اسرائیلی جنگ 1948
اردن، سوریہ، لبنان، مصر اور عراق کی افواج نے عرب ریاست کے تقسیم زدہ علاقے پر حملہ کر دیا اور اس طرح 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ حال ہی میں وجود میں آئی اسرائیلی دفاعی افواج نے عرب اقوام کے چھکے چھڑادئے اور اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کے ذریعے متعین کی گئی خطوں سے بھی آگے بڑھا دیا۔ [8] دسمبر 1948ء تک اسرائیل نے تعہدی فلسطین کے زیادہ تر حصہ پر دریائے اردن کے مغربی علاقے تک قبضہ کر لیا۔ باقی علاقوں میں مغربی کنارہ (اردنی حکومت) اور غزہ پٹی (مصر حکومت) رہ گئے تھے۔ اس جنگ کے دوران میں اور اس سے قبل ہی 711,000[9] فلسطینی عرب اپنی سرزمین چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوسرے ملکوں میں فلسطینی پناہ گزین بن گئے۔
زیادہ تر اسرائیلی 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ کو جنگ آزادی مانتے ہیں جبکہ فلسطینی عرب اسے نکبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ [10]
1947ء میں جب کشیدگی بڑھنے لگی تو برطانیہ نے تعہدی فلسطین سے برطرف ہونے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کا منصوبہ تقسیم-1947 کی رو سے دو ریاست کا فیصلہ آیا۔ ایک یہودی اور دوسری عرب۔ تعہدی فلسطین کا تقریباً 56 فیصد رقبہ یہود ی ریاست کو دے دیا گیا۔اقوام میحدہ کی جنرل اسبملی نے اس فیصلہ کو تسلیم کیا اور ادھر عرب رہنماؤں نے اسے سرے سے خارج کر دیا اور گوریلا جنگ شروع کردی۔
تعہدی فلسطین کے خاتمے سے ایک دن قبل، 14 مئی 1948ء کو وزیر اعظم داوید بن گوریون کی قیادت میں یہودی رہنماؤں نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلامنکر دیا اور ساتھ ہی یہ اسرائیل کی آزادی کا بھی اعلان تھا۔ حالانکہ اس وقت سرحدوں کا کوئی تعین نہیں ہوا تھا۔ [7]
1948 تا حال
مرگ انبوہ کے بچنے والوں اور عرب ممالک سے یہودی پناہ گزینوں وجہ سے اسرائیل کی آزادی کے بعد ایک سال کی مدت میں ہی کی اسرائیل کی آبادی دوگنی ہو گئی۔ 850,000 سے زیادہ سفاردی یہودی اور مزراحی یہودی پڑوسی عرب ممالک سے یا تو بھاگ کر آگئے یا بھگا دیے گئے۔ اور کچھ قلیل تعداد انغانستان، بھارت، ترکی اور ایران سے بھی آ بسی۔ ان میں 680,000 لوگ اسرائیل میں آباد ہو گئے۔
کچھ برسوں تک اسرائیل کی یہودی آبادی برق رفتاری سے ترقی کررہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عالیہ (دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کی ہجرت) تھی۔ ان میں بھی سوریت یہودی قابل ذکر ہیں جو سوویت کے زوال کے بعد 1990ء میں اسرائیل کی طرف ہجرت کر گئے اور پہنچتے ہی ان کو اسرائیل کی شہریت دے دی گئی۔ صرف سال 1990–1991 میں ہی 380,000 یہودیوں کی آمد ہوئی۔ عین اسی وقت 1980 سے اس وقت تک تقریباً 80,000–100,000 ایتھوپیائی یہود اسرائیل میں آباد ہوئے۔
مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل کے مطابق فرورہ 2013ء تک اسرائیل کی 8 ملین آبادی میں 75.4 ( کسی بھی نسل کے ) یہود ہیں۔ [11] ان میں 68 فیصد صبرا یعنی اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اسرائیل کی دوسری یا تیسری نسل ہے۔ باقی مہاجرین ہیں۔ جن میں 22 فیصد یورپ اور امریکن ممالک سے اور 10 فیصد ایشیا اور افریقا ( ابشمول عرب ) سے، ہیں۔ [12] تقریباً نصف آبادی عالیہ کے دوران یورپ سے آئے مہاجرین کی نسل ہے۔ اتنی ہی تعداد میں عالیہ کے دوران میں عرب، ایران، ترکی اور وسطی ایشیا سے آئے یہود کی اولادیں ہیں۔ تقریباً 200000 یہودی یا ان کی نسل ایتھوپیا اور بھارت (بھارت میں یہودیت) کے مہاجرین ہیں۔ [13]
ترقی
اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک جہاں یہودیوں کی آبادی فطری طور پر بڑھ رہی ہے بر خلاف دیگر ممالک کے کہ وہاں آیا آبادی گھٹ رہی ہے یا جوں کی توں ہے۔ راسخ العقیدہ یہودیت اور حریدی یہودیت اس سے مستثنی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اب بھی ضبط تولید ایک ناپسندیدہ فعل ہے لہذا ان کی آبادی میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ [14] Haredi women have 7.7 children on average while the average Israeli Jewish woman has over 3 children.[15]
1948ء میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکا اور سوویت اتحاد کے بعد یہودی آبادی کا تیسرا سب سے بڑا ملک تھا۔ 1970ء میں سوویت اتحاد کو پیچھے چھوڑ کر یہودی آبادی والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ [16] 2003ء میں مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل نے خبر دی کہ اسرائیل ریاستہائے متحدہ امریکا کو پیچھے چھوڑ کر یہودی آبادی کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔، مردم شماری کے ماہر اور جامعہ عبرانی یروشلم کے پروفیسر سرجیو ڈالا پیگولا نے اس خبرپر اعتراض جتایا اور کہا کہ امریکا اور اسرائیل کے درمایان یہودی آبادی کے اس فاصلے کو ختم ہونے میں ابھی مزید 3 برس لگیں گے، ۔ [17] جنوری 2006ء میں ڈالا پرگولا نے کہا کہ اب اسرائیل میں امریکا سے زیادہ یہود ہیں۔ انھوں نے مزید کیا کہ تل ابیب میٹروپولیٹن نے نیو یارک میٹروپولیٹن علاقہ کو کسی ایک میٹروپہلیٹن علاقہ میں سب سے زیادہ یہود ہوئے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔، [18] حالانکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے یہودی آبادیکے معاملے میں امریکا کو 2008ء میں پیچھے چھوڑا ہے۔ [19] یہود سے باہر شادی اور اختلاط کی وجہ سے یہود کی بیرون اسرائیل آبادی میں زبردست کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اور ساتھ ہی اسرائیل کی یہودی آبادی اسی رفتار سے ترقی ہو رہی ہے۔ اسی سے یہ تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ اگلے 20 برسوں میں دنیا کے زیادہ تر یہود اسرائیل میں آباد ہو جائیں گے۔ [20] مارچ 2012ء کو مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل نے وائی نیٹ عدم موجودگی میں یہ پہشن گوئی کی کہ 2019ء میں اسرائیل میں 6,940,000 ہوں گے۔ جن میں 5.84 ملین غیر اسرائیلی ہوں گے، 2009ء میں یہ تعداد 5.27 ملین تھی۔ اور 2050ء تک یہ تعداد 6.09 سے 9.95 تک پہنچنے کی امید ہے۔ یعنی 2011ء کی آبادی میں 16%–89% کا اضافہ ہونے امید ہے۔ ادارہ نے یہ بھی بتایا کہ 2019ء میں راسخ العقیدہ یہود 1.1 ملین ہوں گے۔ 2009ء میں یہ تعداد 750,000 تھی۔ اور 2059ء تک حریدی یہود کی تعداد 2.73 ملین سے 5.84 ملین ہونے کی امید ہے۔ یعنی 264%–686% کا اضافہ ہوگا۔ اس طرح اسرائیل میں 2059ء تک یہود کی کل آبادی 8.82 ملین سے 15.790 ملین ہونے کی امید ہے۔ [21] جنوری 2014ء میں ماہر مردم شماری جوزف شیمی نے بتایا کہ 2025ء تک اسرائیل میں یہود کی آبادی 9.84 ملین کے آس پاس ہوگی اور 2035ء میں یہی ان کی آبادی 11.40 ملین ہو جائے گی۔ [22]
شماریات کے استعمال کے لیے اسرائیل میں 3 اہم میٹروپولیٹن علاقہ جات ہیں۔ اسرائیل میں یہودی آبادی کی اکثریت ملک کے وسطی علاقہ میں رہتی ہے، جن میں تل ابیب میٹرو پولیٹن علاقہ شامل ہے۔ تل ابیب میٹرو پولیٹن علاقہ فی الحال دنیا کا سب سے بڑا یہودی آبادی کا مرکز ہے۔
اسرائیل کے میٹروپولیٹن علاقوں میں یہودی آبادی [31]
یہ بات مدلل ہے کہ یروشلم، اسرائیل کی حالیہ اعلان دار الحکومت، دنیا میں یہودی آبادی کا سب سے بڑا سہر ہے۔ اس کی آبادی 732,100 سے زیادہ ہے۔ اور شہری علاقوں میں 1,000,000 آبادی ہے ( ان میں مشوری یروشلم میں رہ رہے 280,000 فلسطینی ہیں جو اسرائیل کے باشندے نہیں ہیں۔) اس طرح یہوشلم میں اسرائیلی یہود کی کل آبادی 700,000 ہے۔ [32] دوسرا شہر ناصرہ ہے جس میں 65,500 یہود آباد ہیں۔ شہری علاقوں میں 200,000 لوگ آباد ہیں جن میں 110,000 سے زیادہ اسرائیلی یہود آباد ہیں۔ [33]
اسرائیلی یہود میں 75 فیصد اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اسرائیلیوں کی دوسری یا تیسری نسل میں سے ہیں۔ اور باقی مدوسرے ملکوں کے مہاجرین ہیں۔ ان میں 19 فیصد یورپ، امریکن اور اوقیانوسیہ سے ہیں۔ 9 فیصد ایشیا اور افریقا سے ہیں جو زیادہ تر عالم اسلام کے ہیں۔
اسرائیلی حکومت بیرون اسرائیل رہ رہے یہود کو شمار نہیں کرتی ہے۔
بیرون اسرائیل یہودیوں کی جائے پیدائش
سی بی ایس نے بیرون اسرائیل رہ رہے اسرائیلی یہودیوں کے آبائی وطنوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان میں غیر ہلاخاہ اور وہ یہودی مہاجرین جو واپسی کا قانون کے تحت آئے تھے، شامل ہیں۔
ڈاٹا بمطابق سنہ 2010ء[34]
اسرائیل میں تقریباً 300,000 ایسے یہود انسل شہری ہیں جن کو ہلاخاہ کے راسخ العقیدت کے معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ ان میں تقریباً 10 فیصد مسیحی اور 89 فیصد آیا یہودی اور لامذہبی ہیں۔ 2005ء میں آئی ڈی ایف کے تبدیلی مذہب پروگرام کے تحت 640 لوگوں کی گھر واپسی ہوئی اور 2006ء میں 450 یہودیوں کی۔ 2002ء سے 1 اکتوبر 2007ء تک 2,213 فوجی جوان مذہب بدل چکے تھے۔ [35] In 2003, 437 Christians converted to Judaism; in 2004, 884; and in 2005, 733.[36] حاکیہ دنوں میں ربانی کے صدر نے کئی ہزار لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا۔ ان کو سرکاری یہودی درجہ ملا۔ ان میں زیادہ تر سوویت اتحاد کے مہاجرین تھے۔ [37]
↑General Progress Report and Supplementary Report of the United Nations Conciliation Commission for Palestine, Covering the period from 11 دسمبر 1949 to 23 اکتوبر 1950, GA A/1367/Rev.1 23 اکتوبر 1950.
↑"Population, by Population Group"(PDF)۔ Monthly Bulletin of Statistics۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ 7 مارچ 2013۔ 3 دسمبر 2013 کو اصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2013{{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
^ اب"Population, by Population Group"(PDF)۔ Monthly Bulletin of Statistics۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ اگست 2013۔ 2013-10-31 کو اصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-10-15