یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند عالم نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیت ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ سے کچھ مدت قبل نازل ہوئی جس میں پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی جس میں خدا نے دین کی تکمیل اور نعمات کی تمامیت کا اعلان کرتے ہوئے دین اسلام کو خدا کا پسندیدہ دین قرار دیا۔
معصومینؑ نے حدیث غدیر کے ساتھ استناد کیا ہے۔ اسی طرح امام علیؑ کے دور سے لے کر موجودہ دور تک کے بہت سے شعرا نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے ہیں۔ اس واقعہ اور حدیث غدیر کے سب سے اہم مستندات میں علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب شامل ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ نے اس دن کو عید قرار دیے ہیں اسی لیے تمام مسلمان بطور خاص، شیعہ اس دن جشن مناتے ہیں۔
اس وقت امام علی تبلیغ کے لیے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول اللہؐ سے جا ملے۔[2]حج کے اختتام پر رسول خداؐ مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیلآیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔[3]
رسول اللہؐ نے فرمایا: أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلٰى، قال: مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا عَلٰى مَولاهُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاهُ وَعادِ مَن عاداهُ وَانصُر مَن نَصَرَهُ وَاخذُل مَن خَذَلَهُ ترجمہ: کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپؐ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا اور سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کر دے۔
"حمد و ثنا صرف اللہ کے لیے ہے۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے کردار کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں... خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے بہت جلد اس کے پاس سے بلایا آئے گا اور میں اس کے بلاوے پر لبیک کہوں گا... میں تم سے پہلے حوض کوثر کے کنارے حاضر ہوں گا اور تم اسی حوض کے کنارے میرے پاس لائے جاؤگے، پس دیکھو کہ میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو؛ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ... اور میری عترت، ثقل اصغر ہے..."۔
"اے لوگو! کیا میں تمھاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟"، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: "اے اللہ! تو اس شخص کو دوست رکھ اور اس کی سرپستی فرما جو علی کو دوست رکھتا ہے اور اسے اپنا مولا اور سرپرست مانتا ہے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علیؑ کا دشمن ہے۔ اس کی مدد اور نصرت فرما جو علیؑ کی مدد اور نصرت کرتا ہے اس شخص کو اپنی حالت پر چھوڑ دے حو علیؑ کو تنہا چھوڑتا ہے"۔ بعد از آں لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: " حاضرین اس پیغام کو غائبین تک پہنچا دیں"۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً ترجمہ: آج میں نے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
امام علیؑ کو تبریک و تہنیت
اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنینؑ کو مبارکباد پیش کی۔ ابوبکر اور عمر تبریک و تہنیت کہنے والوں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے: بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولٰی كل مؤمن ومؤمنة، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہو گئے۔[4]
غدیر خم میں حاضر افراد کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تعداد 10000 [6]،بعض نے 12000، بعض نے 17000 [7] اور بعض نے 70000 افراد[8] نقل کی ہے۔
غدیر خم کے مقام پر اجتماع کی گنجائش اور سنہ 10 ہجری میں مدینہ کی آبادی کے پیش نظر نیز مکہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے غدیر خم میں 10000 افراد پر مبنی روایت کو مستند تر اور صحیح تر قرار دیا جا سکتا ہے۔[9]
غدیر کے راوی
تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقعہ ہوگا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے اس قدر قوی اور مستحکم ہو۔ حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
بہت سے محدثین حدیث غدیر کو حدیث حسن اور بہت سے دوسرے اس کو حدیث صحیح سمجھتے ہیں؛[28] نیز تمام شیعہ محدثین اور بعض اکابرین اہل سنت اس کو حدیث متواتر سمجھتے ہیں۔[29]
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً۔؛ ترجمہ: آج میں نے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔؛ ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ٭ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٗ۔؛ ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے ٭ کافروں کے لیے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔
مؤخر الذکر دو آیات کریمہ کی تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمؤمنینؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپؐ کے قریب آیا اور اعتراض کی حالت میں آپؐ سے کہا: "تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکات کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے انکار کی حالت میں کہا: اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آگرے۔ اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کرڈالا اور یہ آیات نازل ہوئیں۔[32]
اسلام میں عید غدیر
مسلمانان عالم اور بالخصوص شیعہ روز غدیر کو بڑی عیدوں میں شمار کرتے ہیں اور یہ دن ان کے درمیان عید غدیر کے نام سے مشہور و معروف ہے۔[33]
اس عید کی شہرت اس قدر زیادہ ہے کہ عباسی خلیفہ مستعلی بن مستنصر عباسی کی سنہ 487 میں عید غدیر کو انجام پائی۔ [34] نیز اہل سنت کے مصادر حدیث میں منقول ہے کہ جو بھی 18 ذی الحجہ کو روزہ رکھے خداوند متعال اس کو چھ مہینوں کے روزے کا ثواب عطا فرمائے گا؛ اور یہ دن وہی عید غدیر ہی کا دن ہے۔[35]عید غدیر کی رات بھی مسلمانوں کے درمیان معروف راتوں میں شمار ہوتی ہے۔[36]
يوم غدير خم أفضل أعياد أمتي، وهو اليوم الذي أمرني الله تعالى ذكره فيه بنصب أخي علي بن أبي طالب علما لامتي يهتدون به من بعدي، وهو اليوم الذي أكمل الله فيه الدين، وأتم على امتي فيه النعمة، ورضي لهم الاسلام دينا۔ ترجمہ: روز غدیر میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ہے اور یہ وہ دن ہے جب خداوند متعال نے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی امت کے پرچمدار کے طور پر مقرر کروں تا کہ میرے بعد لوگ ان کے ہاتھوں ہدایت پائیں اور یہ وہ دن ہے جب خدا نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت میری امت پر پوری کردی اور اسلام کو ان کے لیے بحیثیت دین پسند کر لیا۔[37]
وهو عيد الله الاكبر، وما بعث الله نبيا إلا وتعيد في هذا اليوم وعرف حرمته، واسمه في السماء يوم العهد المعهود وفي الارض يوم الميثاق المأخوذ والجمع المشهود۔ ترجمہ: غدیر خم کا دن اللہ کی بڑی عید ہے، خدا نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید قرار دیا اور اس کی عظمت و حرمت کو پہچان لیا؛ اور اس عید کا نام آسمان میں عہد و پیمان کا دن اور روئے زمین پر میثاق محکم اور عمومی حضور اور موجودگی کا دن، ہے۔[38]
"اے مسلمانو اور اے مہاجرین و انصار! کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر کے دن مجھے تمھارا مولا قرار دیا؟ اور سب نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ [39]
"گویا تم نہیں جانتے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر کے دن کیا فرمایا؟ خدا کی قسم، اس دن آپؐ نے مقام ولایت و امامت کو علیؑ کے لیے مقرر اور استوار فرمایا تاکہ اس منصب کی نسبت تمھاری لالچ کی رسی کو کاٹ ڈالیں"۔[40]
"مسلمانوں نے رسول اللہؐ کو دیکھا اور آپؐ کی بات سنی جب روز غدیر میرے والد کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: جس کا میں مولا اور راہبر و راہنما ہوں پس یہ علیؑ بھی اس کے مولا و رہبر و راہنما ہیں"۔[41]
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علیؑ کو تمام آداب کے ساتھ پرورش دی، جب علیؑ کو روحانی اور نفسیاتی لحاظ سے مستحکم کیا عہدہ امامت ان کے سپرد کیا اور غدیر کے دن فرمایا: جس کا میں مولا ہو اور رہبر ہوں، پس یہ علیؑ بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں"۔[42]
"روز غدیر آسمان والوں کے نزدیک اہل زمین والوں کی نسبت زیادہ مشہور ہے... اگر لوگ اس دن کی قدر و عظمت سے واقف ہوتے بے شک فرشتے ہر روز 10 مرتبہ ان کے ساتھ مصافحہ کرتے"۔[43]