تقیہ نقصان کے خوف سے عقائد کو پوشیدہ رکھنا۔ اہل تشیع اور آغاخانی فرقے اسے جائز سمجھتے ہیں۔ شیعہ علما کہتے ہیں کہ تقیہ مومنوں کے لیے ایک پردہ ہے۔ اس سلسلے میں عمار بن یاسر کی مثال دی جاتی ہے کہ جب کفار قریش نے انھیں بہت مجبور کیا تو انھوں نے کہہ دیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور پھر حضور کے سامنے اپنی مجبوری کو بیان کرکے اسلام کا اقرار کیا۔ اسی طرح جب مسیلمہ کذاب ’’12ھ‘‘ نے ایک مسلمان کو اپنی نبوت کے اقرار پر مجبور کیا تو انھوں نے بھی اقرار کر لیا گو وہ دل سے اس کے منکر تھے۔ تاریخی رنگ میں تقیہ کی ضرورت اسی واسطے پیش آئی کہ بعض سلاطین نے اہل تشیع پر طرح طرح کی سختیاں کیں تو ہلاکت سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ تقیہ کے بارے میں اہل تشیع کلام پاک کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ ترجمہ: اگر تم ظاہر کرو اُس چیز کو جو تمھارے دلوں میں ہے یا چھپالو تو اللہ تم سے اُس پر حساب کرے گا۔ (آخری رکوع سورۃ بقرہ پارہ 3) اس قسم کی اور بھی آیتیں ہیں کہ چاہے تم ظاہر کر دو یا چھپالو اللہ جانتا ہے۔
تقیہ اور اہلسنت
غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں
تقیہ کی تعریف‘ اس کی اقسام اور اس کے شرعی احکام
- آل عمران کی آیت 28میں تقیہ کی مشروعیت پر دلیل ہے۔ تقیہ کی تعریف یہ ہے : جان‘ عزت اور مال کو دشمنوں کے شر سے بچانا‘ اور دشمن دو قسم کے ہیں ایک وہ جن کی دشمنی دین کے اختلاف کی وجہ سے ہو جیسے کافر اور مسلمان‘ دوسرے وہ ہیں جن کی دشمنی اغراض دنیوی کی وجہ سے ہو مثلا مال‘ متاع‘ مالک اور امارت کی وجہ سے عداوت ہو‘ اس وجہ سے تقیہ کی بھی دو قسمیں ہوگئیں۔
تقیہ کی اقسام
- تقیہ کی پہلی قسم جو دین کے اختلاف کی وجہ سے عداوت پر مبنی ہو اس کا حکم شرعی یہ ہے کہ
- جب کوئی مسلمان کفار کے علاقہ میں ہو اور اس کو دین کے اظہار کے سبب اپنی جان‘ مال اور عزت کا خطرہ ہو تو اس پر اس علاقہ سے ہجرت کرنا واجب ہے اور تقیہ کرنا اور کفار کی موافقت کرناجائز نہیں ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلاً فَأُوْلَـئِكَ عَسَى اللّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللّهُ عَفُوًّا غَفُورًا
بے شک جن لوگوں کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے‘ فرشتے (ان سے ) کہتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں بے بس تھے! فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ براٹھکانہ ہے۔ مگر وہ لوگ جو (واقعی) بے بس اور مجبور ہیں وہ مرد‘ عورتیں اور بچے جو نکلنے کا حیلہ نہ پائیں اور نہ راستے سے واقف ہوں تو قریب ہے کہ اللہ ان سے درگزر فرمائے اور اللہ بہت معاف فرمانے والا بے حد بخشش والا ہے۔
جبر اور اکراہ کی صورت میں جان بچانے کے لیے تقیہ پر کرنا رخصت اور تقیہ کو ترک کرنا عزیمت ہے اس پر دلیل یہ حدیث ہے :
حسن بصری روایت کرتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو اصحاب کو گرفتار کر لیا ان میں سے ایک سے پوچھا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے کہا ہاں پھر پوچھا کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں‘ تو اس کو رہا کر دیا‘ پھر دوسرے کو بلا کر پوچھا کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا ہاں‘ پھر پوچھا کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا میں بہرا ہوں اور تین بار سوال کے جواب میں یہی کہا مسیلمہ نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا‘ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ خبر پہنچی تو فرمایا جو شخص قتل ہوا اور اپنے صدق اور یقین پر گامزن رہا اس نے فضیلت کو حاصل کیا اس کو مبارک ہو‘ دوسرے نے رخصت پر عمل کیا اس پر اسے کوئی ملامت نہیں ہے۔ (احکام القرآن ج 2ص 10 للجصاص)
تقیہ کی دوسری قسم یعنی جب مال ومتاع اور امارت کی وجہ سے لوگوں سے عداوت ہو تو اس میں علما کا اختلاف ہے کہ اس صورت میں آیا ہجرت واجب ہے یا نہیں؟ بعض علما نے کہا اس صورت میں بھی ہجرت واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ : اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ مال کو ضائع کرنے کی بھی شریعت میں ممانعت ہے۔
اور بعض علما نے یہ کہا کہ کسی دنیاوی مصلحت کی وجہ سے ہجرت واجب نہیں ہوتی‘ اور بعض علما نے یہ کہا کہ ہجرت واجب ہوتی ہے لیکن یہ عبادت اور قرب الہی نہیں ہے جس کی وجہ سے ثواب حاصل ہو‘
نہج البلاغۃ جو اہل تشیع کے نزدیک کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر صحیح ترین کتاب ہے اس میں لکھا ہے : علی المرتضی نے فرمایا : ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں تم کو صدق سے نقصان اور کذب سے نفع ہو وہاں تم کذب پر صدق کو ترجیح دو۔ (نہج البلاغہ ص296‘ مطبوعہ انتشارات ناصر خسروایران)
کہاں علی کا ارشاد اور کہاں ’’ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم‘‘ کی یہ تفسیر کرنا‘‘ اللہ کے نزدیک مکرم وہ ہے جو زیادہ تقیہ کرے‘‘ اور اسی نہج البلاغۃ میں ہے کہ علی نے فرمایا : خدا کی قسم اگر میرا دشمنوں سے مقابلہ ہو درآں حالیکہ میں اکیلا ہوں اور ان کی تعداد سے زمین بھری ہو تو مجھے کوئی پروا نہیں ہوگی‘ نہ گھبراہٹ ہوگی کیونکہ جس گمراہی میں وہ مبتلاء ہیں اور اس کے مقابلہ میں جس ہدایت پر ہوں اس پر مجھے بصیرت ہے اور مجھے اپنے رب پر یقین ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور حسن ثواب کی امید ہے۔
نیز اگر تقیہ واجب ہوتا تو علی ابتدا تقیہ کرلیتے اور ابوبکر سے بیعت کرنے میں چھ ماہ تک توقف نہ کرتے۔ اور حسین تقیۃ یزید کی بیعت کرلیتے اور اپنے رفقا سمیت کربلا میں شہید نہ ہوتے‘ کیا علی اور حسین کو یہ علم نہیں تھا کہ جان کی حفاظت کے لیے تقیہ کرنا واجب ہے اور کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ امام الائمہ تارک واجب تھے۔
انبیا علیہم السلام کی طرف جو تقیہ کی نسبت کی گئی ہے اس کے بطلان کے لیے قرآن مجید کی یہ آیات کافی ہیں
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا
جو لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول! جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر اور ضرر) سے بچائے گا۔
اس کے علاوہ اور بھی قرآن مجید میں آیات ہیں جو تقیہ کے بطلان پردلالت کرتی ہیں۔
تقیہ اور ائمہ اہلسنت
تقیہ کے متعلق ائمہ اہل سنت کے مذاہب :
امام جصاص
امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی 370 ھ لکھتے ہیں :
اضطرار کی حالت میں تقیہ کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے‘ اور یہ واجب نہیں ہے بلکہ تقیہ کو ترک کرنا افضل ہے ہمارے اصحاب نے جس شخص کو کفر پر مجبور کیا گیا اور اس نے کفر نہیں کیا حتی کہ وہ شہید ہو گیا وہ اس شخص سے افضل ہے جس نے تقیہ کیا‘ مشرکین نے حضرت خبیب بن عدی (رض) کو گرفتار کر لیا حتی کہ ان کو شہید کر دیا مسلمانوں کے نزدیک وہ حضرت عمار بن یاسر سے زیادہ افضل تھے جنھوں نے تقیۃ کفر کو ظاہر کیا۔ (احکام القرآن ج 2‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور‘ 1400 ھ)
ابوالحیان اندلسی
علامہ ابوالحیان اندلسی لکھتے ہیں :
امام ابوحنیفہ کے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ تقیہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے اور اس کو ترک کرنا افضل ہے‘ کسی شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ کفر نہ کرے حتی کہ اس کو قتل کر دیا جائے تو وہ اس شخص سے افضل ہے جان بچانے کے لیے تقیۃ کفر کو ظاہر کرے‘ اسی طرح ہر وہ کام جس میں دین کا اعزاز ہو اس کو تلوار پر پیش کیا جائے تو آپ تقیۃ جواب دیں گے؟ فرمایا نہیں۔ امام احمد نے فرمایا جب عالم تقیہ سے جواب دے اور جاہل جہالت کا اظہار کر رہا ہو تو حق کیسے ظاہر ہوگا اور جو چیز ہم تک تواتر اور تسلسل سے پہنچی وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام نے اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کو خرچ کر دیا اور انھوں نے اللہ کی راہ میں کبھی کسی ملامت کرنے والے کی پروا کی اور نہ کسی جابر کے ظلم کی۔
امام رازی نے کہا کہ ضرورت کی بنا پر تقیہ کی رخصت کا تعلق صرف اظہار حق اور دین کے ساتھ ہے اور جس چیز میں ضرورت کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہو اس میں تقیہ کی رخصت کا تعلق صرف اظہار حق اور دین کے ساتھ ہے اور جس چیز میں ضرورت کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہو اس میں تقیہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، مثلا جان بچانے کے لیے کسی کو قتل کرنا‘ زنا کرنا‘ کسی کا مال چھیننا‘ جھوٹی گواہی دینا۔ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا اور مسلمانوں کے رازوں سے کفار کو مطلع کرنا اس قسم کے امور کو تقیۃ انجام دینا بالکل جائز نہیں ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کفار غالب ہوں تو ان کے ساتھ تقیہ کی رخصت ہے‘ مگر امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو جان اور مال کی حفاظت کے لیے ان کے درمیان بھی تقیہ کرنا جائز ہے۔ (تفسیر کبیر ج 3 ص 95‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت‘ 1398 ھ)
علامہ قرطبی
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
جب مسلمان کافروں کے درمیان گھر جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے نرمی سے جواب دے درآں حالیکہ اس کا دل تصدیق سے مطمئن ہو اور جب تک قتل کا اعضاء کاٹنے کا یا سخت ایذا پہنچانے کا خطرہ نہ ہو تقیہ کرنا جائز نہیں ہے‘ اور جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے تو صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ ثابت قدمی سے دین پر جما رہے اور کفریہ کلمہ نہ کہے اگرچہ اس کی رخصت ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج 5 ص 57 مطبوعہ انتشارات ناصر خسروایران ٗ1387 ھ)
ابن جوزی
علامہ عبد الرحمان بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 597 لکھتے ہیں :
تقیہ کرنے کی رخصت ہے یہ عزیمت نہیں ہے۔ امام احمد سے پوچھا گیا کہ آپ کے سر پر تلوار رکھ دی جائے تو کیا آپ تقیہ سے جواب دیں گے فرمایا نہیں! آپ نے فرمایا جب عالم تقیہ سے جواب دے اور جاہل جہالت پھیلا رہا ہو تو حق کیسے ظاہر ہوگا۔ (زادالمیسر ج 1 ص‘ 372 مطبوعہ مکتب اسلامی‘ بیروت‘ 1407 ھ)
امام رازی
امام فخر الدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
جب کوئی شخص کافروں میں رہتا ہو اور اس کو اپنی جان اور مال کا خطرہ ہو تو وہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرے اور دشمنی ظاہر نہ کرے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ ان سے اس طرح باتیں کرے جس سے ان کی محبت اور دوستی ظاہر ہو لیکن دل سے محبت نہ رکھے بلکہ دشمن جانے‘ نیز جس صورت میں جان بچانے کے لیے تقیہ کرنا جائز ہے وہاں بھی حق کا اور ایمان کا اظہار کرنا افضل ہے (تفسیر کبیر ج 2 ص 429 مطبوعہ دارالفکر بیروت‘ 1398ھ)[1]
ابن عباس سے روایت ہے کہ ’’ الا ان تتقوا منہم تقۃ‘‘ میں تقیہ زبان کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی آدمی مجبور کیا جائے ایسے کام پر جو اللہ کی نافرمانی ہو مگر وہ لوگوں کے ڈر سے زبان سے وہ بات کرتا ہے لیکن اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہے مگر یہ بات اس کو نقصان نہیں دے گی کیونکہ وہ زبان کا تقیہ ہے۔[2]
تقیہ بڑا عیب ہے جس مذہب کی بنا تقیہ پر ہو وہ باطل ہے، تقیہ والے کا حال قابل اعتماد نہیں ہوتا، توبہ ناقابل اطمینان ہوتی ہے اس لیے علما نے فرمایا لَاتُقْبَلُ تَوْبَۃُ الزِّنْدِیْقِ ۔[3]
بعض لوگوں نے ظہور اسلام کے بعد تقیہ کرنے کو ناجائز کہا ہے کیونکہ معاذ بن جبل کا قول ہے کہ ابتدا اسلام میں جب تک دین کا استحکام نہ ہوا تھا اور اسلام میں قوت نہ آئی تھی تقیہ جائز تھا لیکن اب مسلمانوں کے لیے دشمن سے تقیہ کرنا جائز نہیں۔[4]
حوالہ جات
- ↑ تفسیر تبیان القرآن،غلام رسول سعیدی،آل عمران،28
- ↑ تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی،آل عمران ،28
- ↑ تفسیر خزائن العرفان، نعیم الدین مراد آبادی،البقرہ،آیت10
- ↑ تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی،آل عمران،28