اکبر اعظم کے تین لڑکے تھے۔ سلیم، مراد اور دانیال(مغل خاندان)۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی 1605ء میں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں.
کان اور ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ کیں۔
شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال حکماً بند کیا۔
کئی ناجائز محصولات ہٹا دیے۔
خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ بند کر دیا۔
فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار سے ایک زنجیر لٹکا دی، جسے زنجیر عدل کہا جاتا تھا۔
شہزادہ خسرو کی بغاوت
1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوں کے گورو ارجن دیو بھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آ گئے۔ شہنشاہ نے گوروارجن دیو کو قید کرکے بھاری جرمانہ عائد کر دیاجس کو گورو نے ادا کرنے سے معذرت کی۔گورو کو شاہی قلعہ لاہور میں قید میں ڈال دیا گیا ایک روز گورو نے فرمائش کی کہ وہ دریائے راوی میں اشنان (غسل) کرنا چاہتے ہیں انھیں اس کی اجازت دے دی گئی غسل کے دوران گورو ارجن دیو نے دریا میں ڈبکی لگائی اور اس کے بعد وہ دکھائی نہ دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے دریائے راوی میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔ جس مقام پر گورو نے دریامیں چھلانگ لگائی وہاں سکھوں نے ان کی سمادھی بنادی ہے۔ اس واقعہ سے مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔
1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نے میواڑ کے رانا امرسنگھ کو شکست دی۔ 1620ء میں کانگڑہ خود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میں قندھار کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میں انگریزسر ٹامس رو سفیر کے ذریعے، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی۔ کیونکہ نورجہاں اپنے داماد شہریار کو ولی عہد بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہو گئی۔
بادشاہ جہانگیر اپنی تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں کہ عطر گلاب میرے عہد حکومت میں ملکہ نورجہاں کی والدہ نے ایجاد کیا تھا۔ جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتاب توزک جہانگیری میں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔
مہابت خان کی بغاوت
جہانگیر کی چہیتی بیوی نور جہاں امور سلطنت کے امور میں مداخلت کرتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے امرا جہانگیری دربار سے بد ظن ہو گئے اور دربار میں کئی امرا کی آمدورفت بندہوگئی۔ نور جہاں چاہتی تھی کہ تخت دہلی پر اس کا داماد شہزادہ شہریار رونق افروز ہو مگر دوسری طرف شہزادہ خرم بھی تخت کا طلب گار تھا اس لیے دو فریق بن گئے جس سے مغل امرا میں پھوٹ پڑ گئی ۔
مغل افواج کا سپہ سالار مہابت خان تھا جو مغلوں کا وفادار خادم تھا۔ مگر اس کا جھکاؤ شہزادہ خرم کی طرف تھا جس سے نور جہان نے شہنشاہ جہانگیر کو اس کے خلاف کر دیا مہابت خان کو دربار میں طلب کرکے اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا اس کی بیٹی کا جہیز ضبط کر لیاگیا۔ جہانگیر جب کشمیر جا رہاتھا تو راستے میں مہابت خان نے بغاوت کردی مغل فوج اس کے ساتھ تھی اس لیے اس نے باآسانی جہانگیر کو قیدکرلیا ان حالات میں نور جہان اور اس کے بھائی آصف جاہ نے بھی خود کو مہابت خان کے حوالے کر دیا مہابت خان ایک بلند پایہ جرنیل تھا مگر سازشوں اور مکارانہ چالوں سے بے بہرہ تھا نور جہان نے چند دنوں میں مغل فوج کے بہت بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملالیا جس سے مغل فوج میں پھوٹ پڑ گئی مہابت خان تنہا رہ گیا اس نے فرار ہو کر جان بچائی ۔
وفات
مہابت خان کی قید سے رہائی پانے کے بعد جہانگیر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا گرمیوں کے موسم میں اس نے کشمیر میں قیام کیا کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد 1627ء میں کشمیر سے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ اس کی میت کو لاہور لایا گیا جہاں دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشا لاہور موجودہ شاہدرہ میں دفن ہوا۔ یہ مقام اب مقبرہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہے۔