مسجد وزیر خانشہرلاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ یہ مسجد نقش ونگار میں کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علم الدین انصاری جو عام طور پر نواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے ہیں سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں لاہور شہر کے گورنر تھے اور یہ مسجد انہی کے نام سے منسوب ہے۔ مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔ چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجا دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ-مسجد کے مینار 107 فٹ اونچے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر دسمبر1641ء میں سات سال کی طویل مدت کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ مسجد وزیر خان سلطنت مغلیہ کے عہد میں تعمیر کی جانے والی اب تک کی نفیس کاشی کار و کانسی کار خوبصورت مسجد ہے جو بادشاہی مسجد کی تعمیر سے 32 سال قبل (یعنی 1641ء میں) تکمیل کو پہنچی۔
دہلی دروازہ سے براستہ شاہی گزرگاہ سیدھے چلتے جائیں تو تقریباً 300 میٹر (984.25 فٹ) کے فاصلہ پر مسجد وزیر خان نظر آنے لگتی ہے۔ مسجد سے قبل وزیر خان چوک واقع ہے جہاں سے ایک سڑک شمال میں چوہٹہ قاضی محلہ کی جانب، دوسری سڑک (جو دہلی دروازہ کی سمت سے چلی آ رہی ہے) وہ مسجد وزیر خان سے متصل شاہی گزرگاہ کہلاتی ہے اور دہلی دروازہ سے شروع ہوتی ہے اور مسجد وزیر خان کے جنوب سے ہوتی ہوئی قلعہ لاہور تک پہنچتی ہے۔ مغرب میں (جدھر مسجد وزیر خان کی سمت قبلہ واقع ہے) لکڑمنڈی بازار واقع ہے جبکہ جنوب کی جانب گنجان آبادی اور بازارِ خطاطی واقع ہیں۔ چوک وزیر خان سے مسجد کے جنوبی داخلی دروازہ (جو رائج الوقت داخلی دروازہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے) کا فاصلہ 43.75 میٹر (143.54 فٹ) ہے۔ مسجد سے مغربی راستہ جو لکڑمنڈی بازار کی جانب جاتا ہے، اِسی راستہ پر مسجد وزیر خان کے عقب میں چینیاں والی مسجد واقع ہے۔ مسجد کا شمال مشرقی حصہ کوچہ حسین شاہ کہلاتا ہے جو گنجان آبادی میں واقع ہے۔ شاہی گزرگاہ والے راستہ پر مسجد وزیر خان کے متصل چلتے جائیں تو کوتوالی چوک آتا ہے۔ مسجد کے جنوبی داخلی دروازہ سے کوتوالی چوک تک کا فاصلہ 79.55 میٹر (260.99 فٹ) ہے۔ مسجد وزیر خان کے جنوب مغربی چوک یعنی کوتوالی چوک سے دو راستے قلعہ لاہور تک پہنچتی ہیں، ایک راستہ بشکل سڑک کے عین مغرب میں کشمیری بازار سے براستہ رنگ محل، ہٹہ بازار، پانی والا تالاب سے ہوتا ہوا بازار بارود خانہ تک پہنچتا ہے جہاں سے قلعہ روڈ یعنی قلعہ لاہور سے متصل ہے۔ دوسرا راستہ مسجد وزیر خان کے عین جنوب مغربی سمت میں واقع کوتوالی چوک سے کوتوالی والا بازار سے ہوتا ہوا چونا منڈی بازار سے ہوتا ہوا قلعہ لاہور کے اکبری دروازہ تک جا پہنچتا ہے۔ اِسی راستہ پر مریم زمانی بیگم مسجد واقع ہے جو قلعہ لاہور کے عین اکبری دروازہ کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر موجود ہے۔
مسجد کی بنیاد و تاریخ
مسجد وزیر خان کی بنیاد شیخ علم الدین انصاری نے رکھی جو وزیر خان کے خطاب سے مشہور تھے۔ وزیر خان مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے طبیبِ خاص بھی تھے، اِس سے قبل وہ مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کے طبیب خاص بھی رہ چکے تھے۔ شیخ علم الدین انصاری چنیوٹ شہر میں پیشۂ طبابت سے منسلک تھے۔ ماہِ صفر1030ھ/ جنوری1621ء میں تلاش معاش کی خاطر مغل دار الحکومت آگرہ پہنچے اور مغل دربار تک مشکل سے رسائی ممکن ہوپائی۔ اُن دنوں ملکہ نورجہاں علیل تھیں، شیخ نے اُن کا علاج کیا اور ملکہ رو بہ صحت یاب ہوئیں۔ اِسی صلہ میں شیخ علم الدین انصاری منصبِ ہفت ہزاری پر فائز کیے گئے اور اُن کا خطاب وزیر خان طے پایا۔ شاہی انعامات کی بھرمار کو مسجد کے مصرف میں لائے اور اِسی خطہ کو تجویز کیا۔ عہد شاہجہانی میں وزیر خان امرا الامراء کے خطاب سے نوازے گئے اور جب شہنشاہ شاہ جہاںلاہور آیا تو انھیں ناظم لاہور مقرر کرگیا تھا۔ وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک حاکم لاہور کے عہدے پر فائز رہے۔
مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان نے 1045ھ/ 1635ء میں اِس مسجد کی بنیاد رکھی اور بازار دہلی دروازہ کو آباد کیا اور مزار سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہِ عام تھا، کو داخل مسجد کر لیا۔ تقریباً سات سال کی طویل مدت کے بعد یہ مسجد اختتام ماہِ شعبان1051ھ/ 3 دسمبر1641ء کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ [1] تکمیل و تعمیر کے بعد وزیر خان نے ایک وصیت نامہ تحریر کروایا جو اُن کے بعد اُن کی اولاد میں بدستور چلتا رہا جس کی تاریخ یکم ماہِ رمضان1045ھ/ 3 دسمبر1641ء ہے اور یہی تاریخ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کی بھی ہے۔ وصیت نامہ کو نور احمد چشتی نے تحقیقات چشتی میں تفصیل سے تحریر کر دیا ہے۔ [2]1864ء میں جب نور احمد چشتی صاحب تحقیقات چشتی نے مسجد کے متولیان کی تحقیق کی تو اُس وقت مرزا اِیزد بخش اِس مسجد کے متولی و سربراہ تھے۔ [3]
سکھ شاہی دور میں
مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے عہدِ حکومت 1801ء تا 1839ء میں لاہور کی تقریباً سبھی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچایا، متعدد تاریخی عمارات سے سنگ سرخ اور سنگ مرمر اُتروا لیا اور بعض مقامات کو منہدم کروا دیا۔ مسجد وزیر خان بھی رنجیت سنگھ کے نقصان سے اِس لیے بچ گئی کہ وزیر خان کے گورو ارجن سے تعلقات نہایت ارادت مندانہ تھے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ باوجود بیگانگت مذہبی و خام طبعی معہودہ خود اِس مسجد کی جانب چنداں بھی متوجہ نہ ہوا بلکہ سرائے مشمولہ میں چندے توپ خانہ سرکاری ڈیرہ فگن ہو تو کرایہ ماہواری اِس سرائے اور دوکانوں کا وزیر خان کی اولاد کو دیتا رہا۔ [4]
کنہیا لال نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں مسجد کے سکھوں کے عتاب سے بچنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ مہاراجا رنجیت سنگھ موراں طوائف کے ہمراہ اس مسجد کے مینار پر آیا اور دن بھر اوپر رہ کر عیش و نشاط میں سرگرم رہا اور اسی شب وہ بیمار پڑ گیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ آثار بزرگ اسحاق گازرونی کے غضب کے ہیں جو اس مسجد کے احاطے میں دفن ہیں۔ دوسرے روز مہاراجا مزار پر آیا اور پانچ سو روپے نذر کیَ اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی۔ [5]
سلطنت مغلیہ کے عہد میں اِس مسجد کی دیکھ بھال حاکمانِ لاہور کی تحویل میں رہی۔ لاہور میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد عہد سکھ شاہی کا آغاز ہوا تو اِس مسجد کی توجہ یا بحالی و مرمت نہ ہوئی، محض اس قدر کہ ایک مہتمم نور ایمان والا نے مسجد کے چاروں میناروں کی اوپر کی بلند برجیوں کے دو دو دَر بند کروادیے تھے اور صرف دو دو دَر کھلے رکھے، صرف اِس خیال سے کہ درمیانی ستون نازک ہیں مبادا زلزلہ کے صدمہ سے گر ہی نہ جائیں۔ بعد ازاں اس مسجد کو کسی مرمت یا بحالی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
مسجد وزیر خان، صحن سے ایک منظر - مسجد کا صحنِ خاص جس میں پانچ محرابیں اور دو مینار دیکھے جاسکتے ہیں۔
مسجد کی عمارت اور دروازے
مسجد کی عمارت پختہ اینٹوں (خشتی) سے تعمیر کی گئی ہے اور سنگ سرخ کا استعمال جا بجا کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخلہ کے دو دروازے موجود ہیں، ایک صدر دروازہ جو مشرق میں واقع ہے، دوسرا شمال مشرق کی سمت میں واقع ہے جسے صدر دروازے کی تزئین و آرائش کے وقت داخلہ کے لیے کھولا جاتا ہے۔ مسجد کا صحن وسیع ہے جس میں سرخ چھوٹی اینٹ کا فرش لگایا گیا ہے، صحن کے مرکز میں وضو کرنے کے لیے حوض بنا ہوا ہے۔ مسجد کے مشرقی، جنوبی اور شمالی سمت حجرہ نما کمرے بنے ہوئے ہیں جن کی تعداد 32 ہے۔
مسجد وزیر خان لاہور کی قدیم عالیشان اور لاثانی عمارت ہے جس کی شہرت اور تذکرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ فی الحقیقت یہ خشتی کانسی کار عمدہ عمارت اپنی مثال میں ایسی نادر ہے کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مؤرخین لاہور نے اِسے لاہور کا فخر و اقتدار کہا ہے۔ عمارتِ مسجد میں ہر کام خوش اسلوبی سے کیا گیا ہے۔ عمارتِ مسجد ایسی پختہ چونا کار مستحکم تعمیر ہوئی ہے کہ باوجود پونے چار سو سال گزرنے کے بھی بغیر کسی نقص کے دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کی دیواروں پر کانسی کار نقاشی ایسی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے نقاش نقاشی کا سبق لینے اِس مسجد آتے ہیں اور اِن طاقچوں کی نقول اُتار کر لے جاتے ہیں۔ کتبوں پر عربی و فارسی کے حروف کی خوشخطی ایسی نادر ہے کہ بڑے بڑے خوشنویس حضرات کو دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔ مقطع ایسا ہے کہ اِس قطع کی دوسری مسجد دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ مسجد دیواروں کی کاشی کاری اور منبت کاری کے لیے مشہور ہے۔ [6] انگریزوں کے ابتدائی عہد سے لے کر مدت مدید تک میو اسکول آف آرٹس لاہور کے طلبہ کو یہاں تزئین کا کام سکھانے کے لیے یہاں لایا جاتا تھا۔ 1890ء میں اِس درسگاہ کے پرنسپل مسٹر جان لاکووڈ کپلنگ نے سرکاری رپورٹ میں لکھا تھا کہ: یہ خوبصورت عمارت بذات خود تزئین کی ایک درسگاہ ہے، لیکن سال بہ سال اِس کی نگہداشت کی طرف توجہ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اِس کے نقش و نگار عدم توجہی کی وجہ سے خراب ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے چربے یا نقول نہایت احتیاط سے اُتار کر عجائب گھر اور اسکول میں محفوظ کردیے جائیں، ہمارے نوجوان مصوروں کے لیے اِس سے بہتر اور کہیں تربیت نہیں ہو سکتی۔ [7][8]
صدر دروازہ/ مشرقی دروازہ کلاں
چوک وزیر خان سے کھڑے ہوکر دیکھیں تو مسجد کا دروازہ کلاں (مشرقی منقش دروازہ) نظر آتا ہے۔ مسجد کا موجودہ چبوترا پانچ سیڑھیوں کا باقی رہ گیا ہے جو سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ مسجد ہذا کا سب سے بڑا دروازہ ہے جسے بطور داخلہ کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دروازہ کلاں کے درمیان میں دو منزلہ محراب موجود ہے جس کے دائیں اور بائیں جانب خطاطی اور کاشی کاری کا نفیس کام کیا گیا ہے۔ صدر دروازہ کے باہر سے مسجد کے دو بڑے مینار جنوبی و شمالی نظر آتے ہیں۔ دروازہ کلاں کی دوسری منزل میں دو منقش کاشی کاری کھڑکیاں واقع ہیں جن کے اوپر خطاطی کے پارچے موجود ہیں۔ موجودہ صدر دروازہ آہنی جنگلا نما دروازہ ہے جسے عموماً کھلا رکھا جاتا ہے اور وقت تعمیر صدر دروازے کو بند کرکے شمال مشرق میں واقع متبادل دروازے کو کھول دیا جاتا ہے۔ صدر دروازے کے دائیں جانب کھڑکی سے اوپر کے اشعار یہ ہیں:
در عہدِ ابو المظفر صاحبقرانِ ثانی
شاہ جہاں بادشاہ غازی اتمام یافت
اِس کے نیچے یہ شعر ہے:
بانی بیت اللہ فدوی با خلاص
مرید خاص الخاص قدیم الخدمت وزیر خان
اِن اشعار کے نیچے کاشی کاری سے مزین نفیس کھڑکی موجود ہے۔ کھڑکی کے نیچے والے بڑے کتبے میں یہ اشعار کندہ ہیں:
ھو الجامع
ایں خانہ کہ ہست چون فلک مظہر فیض
دارد چون حریم کعبہ سر در سر فیض
ہر چہرہ ایل قبلہ ایں در بمراد
تا حشر کشادہ باد ہمچو در فیض
دروازہ کلاں کے جنوبی طرف یعنی بائیں جانب میں اشعار کی ترتیب یوں ہے:
سال تاریخ بنای مسجد عالی مقام
از خرد جستم سجدہ گاہ اہل فضل
اِس کے نیچے ایک کتبہ میں یہ شعر ہے:
تاریخ ایں بنای چو پرسیدم از خرد
گفتا بگو کہ بانی مسجد وزیر خان
1044ھ
اِس شعر کے نیچے سنہ ہجری 1044ھ تحریر ہے۔ اِس شعری کتبہ کے نیچے بائیں جانب کی کاشی کاری سے مزین نفیس کھڑکی واقع ہے جبکہ کھڑکی سے نیچے کے کتبہ میں یہ اشعار ہیں:
ھو
دھقان درود بحشر ای نیک سرشت
در مزرعہ جہان ہر آن چیز کہ کشت
در باب عمل بنای خیری بگزار
کاخر ہمہ را رہست زین دربہ بہشت
صدر دروازہ کی درمیانی محراب (جو درمیان میں واقع ہے)کے عین اوپر حدیث مبارکہ کندہ ہے:
اِس درمیانی محراب کلاں میں تین چھوٹے دروازے محرابی ہیں جبکہ اِسی محراب کلاں میں نیچے کی جانب داخلی دروازہ چھوٹا واقع ہے۔ محراب کلاں کاشی کاری سے مزین ہے جو دور سے دیکھنے پر خوشنما نظر آتی ہے۔ جبکہ اس سے ملحقہ دو چھوٹی کھڑکیاں جو دائیں اور بائیں جانب ہیں، چھوٹی سرخ اینٹ سے تعمیر کی گئیں اور اِن پر کاشی کاری و گلکاری کام موجود ہے جو نہایت دیدہ زیب ہے۔
ڈیوڑھی نما داخلی دروازہ
مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو ایک طویل ڈیوڑھی نما راستہ (جو شمالاً جنوباً واقع ہے) میں ایک قدِ آدم بلند دروازہ ہے جس سے مسجد کے صحن میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔ اِس ڈیوڑھی نما حصہ میں چہار جانب بلند محرابی دروازے واقع ہیں اور درمیان میں ایک بلند گنبد موجود ہے جس میں زنجیر سے ایک خوبصورت فانوس لٹکا ہوا ہے۔ سطح زمین سے صدر دروازہ کی پانچ سیڑھیاں بلند ہیں۔ صدر دروازے سے ڈیوڑھی نما حصہ میں آنے سے مسجد کے صحن میں داخلے کے لیے مزید تین سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، گویا مسجد کا صحن موجودہ سطح زمین سے 8 سیڑھیاں بلند ہے۔ یہ ڈیوڑھی نما عمارت ہشت پہلو ہے۔ اِس ڈیوڑھی نما عمارت جو ہشت پہلو محرابوں والے حصہ سے متصل ہے، میں 22 دکانیں موجود ہیں جو ہنوز مسجد کا حصہ سے ملحقہ ہیں۔ اِس چھوٹے دروازے سے جو مغرب کی جانب ہے اور مسجد کے صحن میں کھلتا ہے، اندر کو داخل ہوں تو اِس ڈیوڑھی نما حصہ کے اوپر کی جانب ایک سیاہ گنبد نظر آتا ہے جس کے ساتھ کاشی کاری سے مزین دو چھوٹی برجیاں موجود ہیں اور اِن کے بالکل نیچے کی جانب اور صحنِ مسجد میں کھلنے والے دروازہ کے بالکل اوپر کی جانب فارسی کا ایک شعر لکھا ہوا ہے:
محمد عربی کابروی ہر دو سراست
کسی کہ خاک درش نیست خاک برسر او
مسجد کا صحنِ خاص
مسجد کے صحنِ عام سے مغرب کی جانب کا فرش کچھ بلند ہے جو صحنِ خاص کہلاتا ہے۔ یہ صحن خاص نمازیوں کے لیے ہے۔ اِس صحن میں پانچ محرابیں ہیں جن میں درمیانی محراب کلاں یعنی بڑی ہے اور دائیں بائیں جانب کی محرابیں چھوٹی ہیں۔ محرابیں کاشی کار ہیں جن میں ابھی تک نفیس کاشی کار کانسی کا کام دیکھا جا سکتا ہے جبکہ صحنِ خاص کے بیرونی جانب کی طرف کتبات کی شکل میں طاقچے بنے ہوئے ہیں جن میں خطاطی میں آیت الکرسی سمیت متعدد آیات کندہ ہے۔ بیرونی جانب کے زیریں طاقچوں میں حدیث مبارکہ، اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم مع اسمائے خلفاء کندہ کیے گئے ہیں جو مغل طرزِ تعمیر کا خاصہ ہیں۔ درمیانی محراب کلاں کی طاق میں دونوں اطراف حدیث مبارکہ کندہ کی گئی ہے۔ محراب کلاں کے بیرونی جانب بلند کتبہ پر آیت الکرسی کندہ ہے۔
محراب کلاں میں چوبی منبر ہے جو قدیمی ہے۔ منبر کے تین زینے ہیں جبکہ اِس کے بائیں جانب کتاب یا قرآن کریم رکھنے کے لیے لکڑی کا سہارا نما حصہ بنا ہوا ہے۔
مسجد کا صحن عام
مسجد کا صحن خشتی ہے، چھوٹی سرخ اینٹ کا فرش خوش اسلوبی سے بنا ہوا ہے۔ فرش مرمت کی توجہ کے قابل رہا ہے۔ سکھ شاہی عہد میں فرش اور صحن کی مرمت نہیں ہوئی۔ موجودہ فرش چھوٹی اینٹ سرخ کا بنا ہوا ہے مگر کھردرا نہیں ہے۔ صحن عام کا فرش صحنِ خاص کے فرش سے پست ہے۔ صحنِ خاص میں محراب و منبر والا دالان موجود ہے۔ صحنِ مسجد میں مرکز میں حوض بنا ہوا ہے جو خاص وضو کے لیے بنایا گیا ہے۔ صحن خاص کچھ ارتفاع پر مغرب کی جانب والا دالان کہلاتا ہے جہاں امام مسجد ادائیگی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ صحن مسجد کا رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ طول اور 117 فٹ عرض کا ہے جس میں نماز والے دالان کا حصہ (جس کا طول 131 فٹ 3 انچ طول اور 42 فٹ عرض ہے) شامل نہیں ہے۔ مسجد کے تینوں اطراف کے حجروں کے دروازے صحن میں کھلتے ہیں۔
مسجد کے مینار
مسجد کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 107 فٹ (32.6136 میٹر) ہے۔ چاروں مینار پشت پہلو ہیں اور چھوٹی سرخ اینٹ سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ دو بڑے مینار صدر دروازہ (جو مشرق میں واقع ہے) سے نظر آتے ہیں اور یہ شمال مشرقی گوشہ، جنوب مغربی گوشہ پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ دو مینار مسجد کے پانچ گنبدوں والے حصہ میں تعمیر کیے گئے ہیں، یہ دونوں مینار شمال مغربی گوشہ اور جنوب مغربی گوشہ پر واقع ہیں۔ میناروں پر اشعار یا خطاطی نہیں بلکہ گلکاری و نقاشی کا نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے جو ہنوز مدتِ مدید کے بعد بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ میناروں کے ہشت پہلو اطراف میں گلکاری و نقاشی کے کتبے موجود ہیں۔ امتدادِ زمانہ کے باعث گلکاری و نقاشی مدہم پڑ گئی تھی جس کی دوبارہ سے آرائش و زیبائش کی گئی ہے۔ میناروں کے چھجے کھلے ہیں جس میں آٹھ تا دس آدمی باآسانی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ میناروں کے بالائی حصوں پر چھوٹی دائروی گبندیاں موجود ہیں جن پر کلس لگائے گئے ہیں جو دھوپ پڑنے سے چمکتے ہیں۔
مسجد کے گنبد
مسجد کے کل گنبد 6 ہیں۔ مسجد کے اندرونی ڈیوڑھی نما عمارت پر واقع ایک گنبد ہے اور جبکہ صحنِ خاص والی عمارت پر دو میناروں کے ہمراہ 5 گنبد ہیں۔ تمام گنبدوں کی بلندی بیرونی جانب سے 6.4008 میٹر (21 فٹ)، اندرونی جانب سے 9.7536 میٹر (32 فٹ) ہے۔ گنبدوں کا قطر بیرونی جانب سے 5.7912 میٹر (19 فٹ) اور اندرونی جانب سے قطر 7.0104 میٹر (23 فٹ) ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جب مسجد تعمیر ہوئی ہوگی تب یہ گنبد کانسی کی کاشی کاری سے مزین ہوں گے مگر امتدادِ زمانہ کے سبب سے یہ گنبد اب محض کانسی کار یا نقاشی کے کام سے خالی نظر آتے ہیں اور چونا جو زمانہ گزرنے پر سیاہ رنگت اختیار کرگیا ہے، اِس کی بنا پر گنبد سیاہ رنگ نظر آتے ہیں لیکن قطر میں کسی عام گنبد سے بڑے ہیں۔
مسجد وزیر خان کے صحن میں حضرت سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا مزار ہے۔ اِن کا تعلق گاذرون سے تھا۔ آپ 786ھ/ 1384ء میں فیروز شاہ تغلق کے عہدِ حکومت میں فوت ہوئے اور اِن کی تدفین اِسی مقام پر کی گئی تھی۔ حضرت کی قبر زمین دوز تہ خانہ نما ایک مربع کمرے میں ہے جس کے لیے مسجد کے صحن سے آٹھ سیڑھیاں نیچے کی جانب کو اُترنا پڑتا ہے۔ قبر کے تعویز کی سمت میں عین بالائی سطح صحنِ مسجد میں خیالی تعویز ہے۔ زمین دوز تہ خانے کی جانب اُترنے والی سیڑھیوں پر ایک چھوٹی بارہ دری بنائی گئی جس کی چھت منقش ہے۔ بارہ دری والے دالان کا طول پانچ گز اور عرض اڑھائی گز ہے۔ شمالاً جنوباً پانچ پانچ محرابی دروازے بنے ہیں اور مشرقی و مغربی سمت ایک ایک دو دو دروازے ہیں۔ زمین دوز تہ خانہ نما کمرے کا طول سات گز اور عرض پانچ گز ہے جس کے درمیان میں قبر موجود ہے۔ کمرے کی چاردیواری پختہ ہے اور قبر پر چادر چڑھی رہتی ہے۔ وزیر خان نے مزار کی بالائی سطح پر ہی مسجد کی بنیاد رکھی اور اِس مزار کو مع عمارت کے مسجد میں شامل کر لیا تھا۔
مرمت و بحالی
مسجد کی مرمت و بحالی کا کام 2004ء میں شروع ہوا جبکہ 2012ء میں حکومت پنجاب اور آغا خان ٹرسٹ کے تعاون سے ایک منصوبہ بحالی بنام Pilot Urban Conservation and Infrastructure Improvement Project—the Shahi Guzargah شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ 2015ء میں تکمیل کو پہنچا۔ اِس منصوبہ کے تحت دہلی دروازہ سے مسجد وزیر خان تک یعنی شاہی گزرگاہ میں واقع تمام تاریخی عمارات کی مرمت و بحالی کا کام کیا جانا طے پایا تھا۔ اِس منصوبہ میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور ناروے کی حکومتوں کی سرپرستی بھی رہی۔
اوقافِ مسجد
مسجد کا انتظام بانی مسجد ہذا نواب وزیر خان کی وصیت کے مطابق متولیوں کے ہاتھ میں تھا، جو نواب وزیر خان کی اولاد سے تھے۔ وصیت نامہ جسے نور احمد چشتی نے تحقیقاتِ چشتی میں اور سید محمد لطیف نے تاریخ لاہور میں تحریر کیا ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب وزیر خان اُن تمام مکانوں اور دکانوں کے مالک تھے جو دہلی دروازہ سے لے کر بازار کے دونوں اطراف میں موجود تھیں۔ اِس تمام جائدادکی آمدنی مسجد کے لیے وقف تھی لیکن رفتہ رفتہ مسجد کے نیچے کی دکانوں کے سواء باقی تمام جائداد پر ناجائز تصرف کے ذریعہ سے لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ مسجد کی تولیت کے نزاع سے متعلق ایک مقدمہ انگریزی عہد حکومت میں چلتا رہا، لیکن بالآخر 2 مئی1951ء کو لاہور ہائیکورٹ نے یہ تولیت مرزا افتخار علی کے سپرد کردی لیکن اب انتظام محکمہ اقاف کے زیر انتظام ہے۔ 1953ء کے کرفیو کے زمانہ میں اِس مسجد کی جائداد پر بنی ہوئی بھدی اور بدنما عمارت کو منہدم کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ پھر لوگوں نے اُس زمین پر قبضہ کرکے مسجد کے صدر دروازے کو بدنما کر دیا تھا۔ مسجد ہنوز محکمہ اوقاف پنجاب، پاکستان کے زیر انتظام ہے۔
مسجد وزیر خان کی یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شمولیت
مسجد کا کل رقبہ عرض میں 279.5 فٹ (85.1916 میٹر) اور طول 159 فٹ (48.4632 میٹر)ہے۔
صحن مسجد
صحن مسجد کا رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ طول اور 117 فٹ عرض ہے۔
نماز والے دالان یعنی صحنِ خاص کا رقبہ
نماز والے دالان یعنی صحنِ خاص کا رقبہ کا طول 131 فٹ 3 انچ (40.005 میٹر) اور عرض 42 فٹ (12.8016 میٹر) ہے۔
مسجد کا حوض
مسجد کے صحن کے مرکز میں واقع حوض کا طول 35 فٹ 3 انچ ہے اور عرض 35 فٹ 9 انچ ہے جبکہ صحن کا کل رقبہ 1260.1875 مربع فٹ (181467 مربع انچ) ہے۔
حجرے
مسجد کی تینوں سمت مشرقی، جنوبی و شمالی میں حجروں کی تعداد 32 ہے۔
مینار
مسجد کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 107 فٹ (32.6136 میٹر) ہے۔
گنبد
مسجد کے کل گنبد 6 ہیں۔ مسجد کے اندرونی ڈیوڑھی نما عمارت پر واقع ایک گنبد ہے اور جبکہ صحنِ خاص والی عمارت پر دو میناروں کے ہمراہ 5 گنبد ہیں۔ تمام گنبدوں کی بلندی بیرونی جانب سے 6.4008 میٹر (21 فٹ)، اندرونی جانب سے 9.7536 میٹر (32 فٹ) ہے۔ گنبدوں کا قطر بیرونی جانب سے 5.7912 میٹر (19 فٹ) اور اندرونی جانب سے قطر 7.0104 میٹر (23 فٹ) ہے۔
نگار خانہ
مسجد وزیر خان کی یہ تصویر ولیم ہنری جیکسن نے 1895ء میں کھینچی-
Indian independence leader Not to be confused with Rash Behari Ghosh. Rash Behari BoseBose before 1945Born(1886-05-25)25 May 1886[1][2]Village-Subaldaha, Burdwan, Bengal Presidency, British India[1][2](present-day Village Subaldaha,Block-Raina 2,District-Purba Bardhaman West Bengal, India)Died21 January 1945(1945-01-21) (aged 58)Tokyo, JapanNationalityIndianCitizenshipBritish Indian (1886–1915) Stateless (1915–1923) Japan (1923–1945; his death)Organi...
Ейваз Еваз (англ. Ehwaz) — дев'ятнадцята руна германського Старшого (першого) Футарка. Відповідає кириличній літері E і латиничній E. Назва руни означає «кінь». Пряме примордіальне значення: переміщення. Рух і зміни на краще. Вказує на поступовий розвиток і прогрес. Гармоні...
This article needs additional citations for verification. Please help improve this article by adding citations to reliable sources. Unsourced material may be challenged and removed.Find sources: Sil'hooettes – news · newspapers · books · scholar · JSTOR (October 2022) (Learn how and when to remove this template message) The Virginia Sil'hooettesAlso known asThe SilsOriginUniversity of Virginia: Charlottesville, Virginia, United StatesGenresA cappella, ...
Pashto-language television channel This article has multiple issues. Please help improve it or discuss these issues on the talk page. (Learn how and when to remove these template messages) This article needs additional citations for verification. Please help improve this article by adding citations to reliable sources. Unsourced material may be challenged and removed.Find sources: Shamshad TV – news · newspapers · books · scholar · JSTOR (May 2018) (Le...
This article includes a list of references, related reading, or external links, but its sources remain unclear because it lacks inline citations. Please help to improve this article by introducing more precise citations. (May 2022) (Learn how and when to remove this template message) Program animation or stepping refers to the debugging method of executing code one instruction or line at a time. The programmer may examine the state of the program, machine, and related data before and after ex...
Chiasso–Mailand Die Strecke bei CamnagoDie Strecke bei CamnagoStrecke der Bahnstrecke Chiasso–MailandStreckennummer (BAV):600 (Chiasso–Grenze CH-I)Streckennummer (RFI):25Fahrplanfeld:600Kursbuchstrecke (IT):27Streckenlänge:51 kmSpurweite:1435 mm (Normalspur)Stromsystem:3000V =Zweigleisigkeit:ja Legende S 10 S 40 Gotthardbahn aus Immensee 50,765 Chiasso Endstation 238 m Schweiz/Italien Monte Olimpino 2 (7.209 m) Monte Olimpino 1 (1.925 m) Hafenbahn Como 46,...
Indian actress Galrani redirects here. For her sister, see Sanjjanaa Galrani. Nikki GalraniNikki Galrani at SIIMABornNikita Galrani (1992-01-03) 3 January 1992 (age 31)Bangalore, Karnataka, IndiaAlma materBishop Cotton Christian CollegeOccupationsActressModelYears active2014–presentSpouse Aadhi Pinisetty (m. 2022)RelativesSanjjanaa Galrani (sister) Nikita Galrani (born 3 January 1992) is an Indian actress known for her works in Tamil and Malayal...
Museum of notable women from Michigan, USA Betty Ford, First Lady of the United States and Michigan Women's Hall of Fame inducteeThe Michigan Women's Hall of Fame (MWHOF) honors distinguished women, both historical and contemporary, who have been associated with the U.S. state of Michigan. The hall of fame was founded in 1983 by Gladys Beckwith and is sponsored by the Michigan Women's Studies Association.[1] The formation of the Association and the Hall was prompted by five professors...
Kawasaki DreamPromotionInternational Wrestling Association of JapanDateAugust 20, 1995[1]CityKawasaki, Kanagawa, Japan[1]VenueKawasaki Stadium[1]Attendance28,757[1]Tagline(s)King of the Deathmatch Kawasaki Dream was a professional wrestling supercard produced by the Japanese professional wrestling promotion International Wrestling Association (IWA). The event took place on August 20, 1995 at the Kawasaki Stadium in Kawasaki, Kanagawa. The event was a huge succe...
1917 film by Maurice Tourneur This article's use of external links may not follow Wikipedia's policies or guidelines. Please improve this article by removing excessive or inappropriate external links, and converting useful links where appropriate into footnote references. (December 2022) (Learn how and when to remove this template message) Barbary SheepNewspaper advertisement.Directed byMaurice TourneurWritten byCharles Maigne (scenario)Based onBarbary Sheepby Robert HichensProduced byAdolph ...
UFC mixed martial arts event in 2011 UFC 131: dos Santos vs. CarwinThe poster for UFC 131: dos Santos vs. CarwinInformationPromotionUltimate Fighting ChampionshipDate11 June 2011VenueRogers ArenaCityVancouver, British Columbia, CanadaAttendance14,685 [1]Total gate$2,800,000[1]Buyrate330,000[2]Event chronology The Ultimate Fighter: Team Lesnar vs. Team dos Santos Finale UFC 131: dos Santos vs. Carwin UFC Live: Kongo vs. Barry UFC 131: dos Santos vs. Carwin was a mixed m...
Temple in Central Java, Indonesia Asu Temple, 2014 Candi Asu is part of the Sengi complex built in the 8th and 9th centuries. It is a Hindu temple lying in Magelang Regency, Central Java. It is nestled in between Mount Merapi and Mount Merbabu volcanoes and near the road from Mungkid to Boyolali. An external wall is formed as the base with an internal wall acting as the foundation. Between the two walls, the area has been filled with two meters of rocks and earth, then paved on the top. The r...
Italian soprano (1934–2023) Renata ScottoScotto in 1967Born(1934-02-24)24 February 1934Savona, ItalyDied16 August 2023(2023-08-16) (aged 89)Savona, ItalyOccupationsOperatic sopranoOpera directorVoice teacherOrganizationsLa ScalaMetropolitan Opera Renata Scotto (24 February 1934 – 16 August 2023) was an Italian soprano, opera director, and voice teacher. Recognised for her sense of style, her musicality, and as a remarkable singer-actress, Scotto is considered to have been one of the ...
El Nuevo Día Tipo DiarioFormato tabloidePaís Estados UnidosSede Guaynabo, Puerto RicoFundación 1909 (como El Diario de Puerto Rico)[1]Fundador(a) Guillermo V. Cintrón[1]Eugenio AstolNemesio Canales[2]Idioma EspañolPrecio 55₵Frecuencia diariaPropietario(a) Grupo Ferré-Rangel (GFR Media, LLC)[3]Subdirector(a) Benjamín Morales MeléndezEditor(a) María Luisa Ferré RangelSitio web www.elnuevodia.com[editar datos en Wikidata] El Nuevo Día es el peri...
Белизский доллар (рус.)Belize Dollar (англ.) Dollar de Belize (фр.) 100 белизских долларов образца 2017 года50 центов 1991 года Коды и символы Коды ISO 4217 BZD (084) Символы Bz$ и Bz$ Аббревиатуры $ • BZ$ Территория обращения Страна-эмитент Белиз Производные и параллельные единицы Дробн...
National British housebuilding company Vistry Group plcFormerlyBovis HomesTypePublicTraded asLSE: VTYFTSE 250 componentIndustryHousebuildingFounded1965HeadquartersKings Hill, EnglandKey peopleIan Tyler, ChairmanGreg Fitzgerald, CEORevenue £2,729.4 million (2022)[1]Operating income £212.5 million (2022)[1]Net income £204.3 million (2022)[1]Websitewww.vistrygroup.co.uk Vistry Group, formerly Bovis Homes Group, is a British house-building company based in Kings Hi...
Mayor of BellunoSindaco di BellunoIncumbentOscar De Pellegrin (centre-right independent)since 17 June 2022AppointerPopular electionTerm length5 years, renewable onceFormation1860WebsiteOfficial website The Mayor of Belluno is an elected politician who, along with the Belluno's City Council, is accountable for the strategic government of Belluno in Veneto, Italy. The current Mayor is Oscar De Pellegrin, a centre-right independent, who took office on 17 June 2022. Overview According to the...
La Civiltà CattolicaCover of the issue of 5 August 2006.DirectorAntonio Spadaro SJ[1]Categoriesnational pressFrequencyTwice a monthCirculation15,000PublisherSociety of JesusFounderCarlo Maria CurciFirst issue6 April 1850CountryItalyBased inRomeLanguageItalianWebsitewww.laciviltacattolica.itISSN0009-8167 La Civiltà Cattolica (Italian for Catholic Civilization) is a periodical published by the Jesuits in Rome, Italy. It has been published continuously since 1850[1] and is amon...