متحدہ قومی موومنٹ (ماضی: مہاجر قومی موومنٹ) کی بنیاد کراچی میں سنہ 1978ء میں ایک طالب علم رہنما الطاف حسین نے رکھی۔ ایم کیو ایم کے قیام سے قبل الطاف حسین کی قیادت میں جامعہ کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جس نے آگے چل کر انھیں ایم کیو ایم کے قیام کی تحریک دی۔ اس کے قیام کا ایک اہم مقصد جامعہ کراچی میں زیر تعلیم اردو بولنے والے طالب علموں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ بعد ازاں اس تنظیم نے اپنے دائرے کو وسعت دے کر اسے صوبہ سندھ کی سیاسی جماعت کا درجہ دے دیا۔ 2015 کو لاہور ہائیکورٹ نے الطاف حسین کی تقریر اور پاکستانی میڈیا پر تصویر دکھانے پر 6 ماہ کہ پابندی عائد کی تھی بعد ازاں 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے مسلسل ایم کیو ایم کے خلاف ظلم و جبر کو برداشت نہ کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھا اور ملک مخالف نعرے لگادیئے پھر ایم کیو ایم کے خلاف حالات مزید سخت کر دیے گئے بعد ازاں الطاف حسین نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی تھی۔ الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف درخواست عدالتوں میں دائر ہیں۔
ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد "مہاجر قومی موومنٹ" تھا۔ 1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اپنا نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا اور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔
تشدد اور اس جماعت کا شروع سے ساتھ رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس جماعت نے اپنا حلیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی، حکومت میں شامل ہوئی اور اپنے آپ کو ملک گیر جماعت کے بطور متعارف کرانے کی طرف مائل ہوئی۔ مگر تشدد کی سیاست سے پیچھا نہ چھڑا سکی، جیسا کہ کراچی میں 2007ء کے فسادات سے واضح ہوا۔ مبصرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت ایک "مافیا" کے طور چلائی جاتی ہے۔[9]
کراچی میں متحدہ کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ برطانوی حکومت نے بینظیر بھٹو کی اکتوبر 2007ء میں کراچی واپسی سے پہلے الطاف حسین سے بینظیر کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے گفت و شنید کی۔[10]
صدر مشرف کے دور سے قبل سرکاری حلقوں میں اس جماعت کو کراچی میں ہونے والے تشدد کے واقعات کا ذمے دار سمجھا جاتا تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کئی بار مختلف سطحوں پر کریک ڈاؤن بھی کیے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن ماضی کی حکومتی کارروائیوں کا نشانہ بنے جن میں سے کئی ایک کو تشدد کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی کئی بین الاقومی تنظیمیں جن میں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں،کراچی میں تشدد کے اکثر واقعات پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ متحدہ نے پرویز مشرف کے فوجی تاخت 2007ء اور "ہنگامی حالت" کی مخالفت نہیں کی۔ فوجی تاخت کے بعد بااثر امریکی ذرائع ابلاغ نے متحدہ کے "ترقی پسند نظریات" کی تعریف کے مضامین شائع کیے۔[11]
لیکن اس کے جلد ہی بعد متحدہ کے سربراہ الطاف حسین نے مغرب پسندی کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے ایک امریکا مخالف بیان جاری کیا۔[12]
سیاسی دھارے میں آنے کے بعد ایم کیو ایم نے اپنی توجہ کا مرکز سندھ میں اردو بولنے والے طبقوں کو بنایا۔ چونکہ کراچی اور سندھ کے کئی دوسرے بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے ایم کیو ایم نے وہاں کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔ گذشتہ کئی برسوں سے کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص، شکار پور اور سکھر کو ایم کیو ایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ بننے کے بعد اس جماعت نے دوسرے لسانی گروہوں اور طبقوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے منشور میں ایسے پہلوؤں کو شامل کیا ہے جن کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقے سے ہے۔ سندھ میں اس جماعت کو رفتہ رفتہ دوسری زبانیں بولنے والوں کی بھی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔
خود ساختہ جلاوطنی
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین پر 21 دسمبر 1991 کو قاتلانہ حملہ کیا گیا بعد ازاں 1992ء میں ایم کیو ایم کیخلاف بدترین فوجی آپریشن کیلن-اپ کا آغاز کیا گیا اس سے ایک ماہ قبل ہی الطاف حسین نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے پہلے عمرہ کے لیے سعودیہ روانہ ہوئے اور پھر وہیں سے لندن روانہ ہو کر سکونت اختیار کر لی پھر کبھی وطن واپس نہ آسکے اب ان کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے۔ ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں ہے جہاں سے الطاف حسین پارٹی کے امور کی نگرانی کرتے ہیں اور ٹیلی فونی تقاریر کے ذریعے پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم 1990 کے انتخابات میں جب ایم کیو ایم پر ریاستی جبر جاری تھا، قومی اسمبلی کی 207 میں سے 15 نشستوں پر کامیاب رہی اور یوں ایم کیو ایم کی انتخابی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
مصطفیٰ عزیزآبادی کی قیادت میں ایم کیو ایم نے مسلسل پابندیوں کے باوجود 8 فروری 2024 کے انتخابات میں بھرپور حصّہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ بھر میں ایم کیو ایم نے اپنے آزاد امیدواران کی فہرست جاری کردی ہے۔
تشدد و دہشت گردی
متحدہ پر اکثر اپنے مخالفین کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔
کراچی بلدیہ ٹاؤن مکان نمبر 67، حب روڈ میں واقع ایک فیکٹری علی انٹرپرائزز جس میں 289 ملازم جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ مبینہ طور پہ متحدہ قومی موومنٹ نے فیکٹری مالک سے 20 کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا، بھتے کی رقم ادا نہ کرنے پر فیکٹری کو آگ لگا دی۔
12 مئی 2007ء کو فسادات جو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان میں ہوئے، جس میں تقریباً 40 افراد مارے گئے اس کا ذمہ دار بھی ایم کیو ایم کو ٹھرایا جاتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر پر چھاپہ
11 مارچ، 2015ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر نائن زیرو پر پاکستان رینجرز نے چھاپہ مارا اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں سزائے موت پانے والے قیدی اور ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں۔[13]17 مارچ، 2015ء کو الطاف حسین کے خلاف کرنل طاہر کی مدعیت میں پاکستان رینجرز کے اہلکاروں کو دھمکانے کے جواب میں کراچی کے سول لائنز تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔[14]
↑Nisar Mehdi (February 20, 2012)۔ "MQM shows 'liberal face' of Pakistan"۔ The Nation, February 20, 2012۔ 24 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2012الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)
↑Ian Talbot (2002)، "The Punjabization of Pakistan: Myth or Reality"، Pakistan: Nationalism without a Nation?، Zed Books، صفحہ: 65
↑Farhan Hanif Siddiqi (2012)، The Politics of Ethnicity in Pakistan: The Baloch, Sindhi and Mohajir ethnic movements، Routledge، صفحہ: 116
↑Stephen P. Cohen (2011)، "Pakistan: Arrival and Departure"، The future of Pakistan، The Brookings Institution، صفحہ: 22، The avowedly secular Muttahida Qaumi Movement (MQM)...
↑Peter Lyon (2008)، "Mohajir Qaumi Mahaz"، Conflict between India and Pakistan: An Encyclopedia، ABC-CLIO، صفحہ: 115، Despite its ethnic-based politics, the MQM claims to be the only significant political force in Pakistan to stand up openly for secular values.
↑geo news (March6, 2015)۔ "senate elections 2015" (senate)۔ geo۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2015الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
↑گارڈین 2 جون 2007ء The Karachi ruling party 'run like the mafia' from an office block in London