ابو فتح سالم بن ایوب بن سالم رازی شافعی، حدیث نبوی کے راویوں میں سے ایک، شافعی فقیہ اور حدیث کے عالم تھے ۔
علم و فضیلت
شریف ناصر عمری کی ولادت 360ھ کے بعد ہوئی۔ انہوں نے متعدد جلیل القدر اساتذہ سے علم حاصل کیا، جن میں محمد بن عبد الملک الجعفی، محمد بن جعفر تمیمی، حافظ احمد بن محمد بن بصیر رازی، اور ابو حسن احمد بن فارس اللغوی شامل ہیں۔ فقہ میں انہوں نے امام ابو حامد الاسفرائینی سے استفادہ کیا۔
انہوں نے شام میں قیام کیا اور وہاں احتساباً علم کی اشاعت کی۔ ان سے علم حاصل کرنے والوں میں ابو بکر الخطيب، ابو محمد الكتاني، نصر المقدسي، ابو نصر الطریثيثي اور دیگر کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان کی علمی خدمات اور شاگردوں کی فہرست ان کے وسیع علمی اثر و رسوخ کی گواہی دیتی ہے۔
مقامِ علمی
- شریف ناصر عمری ایک قابلِ اعتماد، فقیہ، قاری، اور محدث تھے۔ ان کے بارے میں مشہور اقوال درج ذیل ہیں:
- ابو قاسم نسیب فرماتے ہیں: "وہ ایک ثقہ فقیہ، قاری اور محدث تھے۔"
- سہل بن بشر نے ان کے ابتدائی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک شیخ نے ان کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف قرآن کے قاری بنے بلکہ بغداد میں فقہ اور عربی علوم حاصل کر کے ایک بلند مقام پر فائز ہوئے۔
- ابو نصر طریثیثی نے ان کی علمی تفقہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امام ابو حامد الاسفرائینی کی "تعلیقہ" کو مکمل طور پر محفوظ کیا۔
- ابو قاسم ابن عساکر نے ان کی غیر معمولی علمی خدمات کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ چالیس سال کی عمر کے بعد علمی میدان میں آگے بڑھے اور علم کا شغف اس حد تک تھا کہ وہ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ علمی کام میں مشغول رہتے۔
- امام ذہبی نے ان کی علمی خدمات کے بارے میں فرمایا: "ان کے تصنیفات میں کتاب البسملة، کتاب غسل الرجلین، اور ایک مشہور تفسیر شامل ہے۔ وہ اپنی زندگی کو بے حد منظم اور بامقصد رکھتے تھے، حتیٰ کہ ان کے قلم کی حرکت بھی علم کے فروغ کے لیے ہوتی تھی۔"[3]
وفات
ان کا انتقال صفر 447ھ میں بحیرہ قلزم (جدہ کے قریب) میں حج سے واپسی پر ہوا، جب ان کی عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ انہوں نے زندگی بھر علم کا چراغ جلایا اور علم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔[4]
تصنیفات
عوالی مالک از روایات سلیم الرازی۔
علمی ورثہ:
سلیم الرازی کے اصولی افکار پر کتاب سلیم الرازي وآراؤه الأصولية،
مصنف: اسماعیل حبیب محمود السامرائی،
مدینہ یونیورسٹی، 1426ھ (2005ء) میں بطور پی ایچ ڈی مقالہ پیش کی گئی۔[5]
حوالہ جات
|
---|
تیسری صدی ہجری | | |
---|
چوتھی صدی ہجری | |
---|
پانچویں صدی ہجری | |
---|
چھٹی صدی ہجری | |
---|
ساتویں صدی ہجری | |
---|
آٹھویں صدی ہجری | |
---|
نویں صدی ہجری | |
---|
دسویں صدی ہجری | |
---|
گیارہویں صدی ہجری | |
---|
بارہویں صدی ہجری | |
---|
تیرہویں صدی ہجری | |
---|
چودہویں صدی ہجری | |
---|
پندرہویں صدی ہجری | |
---|
|