“الحسن علا الدین علی بن ابی الحزم”، ابن النفیس یا قرش ( ماورئےا لنہر کا ایک شہر ہے )کی نسبت سے قرشی کے نام سے جانے جاتے تھے، طبیب اور فلسفی تھے،ابن النفیس 607 ہجری بمطابق 1210ء میں دمشق میں دریائے جیحوں کے پاس کو پیدا ہوئے اور قاہرہ میں 687 ہجری کو وفات پائی۔
وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب علم و فنون مسلمان حکماء کی قلمرو تھے، اس قلمرو کی سرحدیں ابھی سمٹنا شروع نہیں ہوئی تھیں اور انحطاط اور انتشار کا زمانہ ابھی کچھ دور تھا۔
دمشق میں طب کے مشہور علما سے طب کی تعلیم حاصل کی خاص طور سے مہذب الدین دخوار سے، پھر مصر چلے گئے اور مستشفی الناصری (الناصری ہسپتال) میں خدمات انجام دیں اور پھر المستشفی المنصوری میں جسے سلطان قلاوون نے تعمیر کرایا تھا، اس ہسپتال کے سربراہ اور سلطان بیبرس کے طبیبِ خاص مقرر ہوئے، وہ سلطان کے گھر میں امرا اور اکابرین طب کی مجلس میں شرکت کیا کرتے تھے۔
ان کی وصف میں کہا گیا ہے کہ وہ طویل القامت شیخ تھے، ڈھیلے گال اور دبلے تھے، صاحبِ مروت تھے، انھوں نے قاہرہ میں ایک گھر بنوایا تھا جس کے ایوانوں تک انھوں نے رخام لگوائی تھی، وہ چونکہ شادی شدہ نہیں تھے چنانچہ انھوں نے اپنا گھر، مال اور تمام کتب بیمارستانِ منصوری کے لیے وقف کردی تھیں۔
وہ مشہور طبی مؤرخ اور “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” کے مصنف ابن ابی اصیبعہ کے ہم عصر تھے، دونوں نے ایک ساتھ ہی ابن دخوار سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور کئی سالوں تک مستشفی الناصری میں ایک ساتھ کام کرتے رہے، مگر ابن ابی اصیبعہ نے اپنی کتاب “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” میں ابن النفیس کا تذکرہ نہیں کیا، کہا جاتا ہے کہ اس تجاہلِ عارفانہ کی وجہ ان دونوں کا آپس میں کسی بات پر اختلاف تھا، مگر پھر بھی ابن النفیس بہت ساری تاریخی کتب اور تراجم میں مذکور ہیں جن میں قابلِ ذکر عماد الحنبلی کی “شذرات الذہب” اور امام سیوطی کی “حسن المحاضرہ” ہے، اس کے علاوہ مستشرقین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کے بارے میں لکھا ہے جن میں بروکلمن، مای رہاف اور جارج سارٹن شامل ہیں۔
ابن النفیس کی شہرت صرف طب تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ لغت، فلسفہ، فقہ اور حدیث کے اپنے زمانے کے بڑے علما میں شمار کیے جاتے تھے، ان کی تصانیف میں غیر طبی موضوعات پر بھی بہت ساری کتب ہیں جن میں کچھ قابلِ ذکر یہ ہیں : الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق۔
تصانیف
طب میں وہ اپنے زمانے کے مشہور اطباء میں سمجھے جاتے تھے، اس حوالے سے ان کی بہت ساری تصانیف ہیں، ان کی طبی تصانیف میں جرات اور آزادیء اظہارِ رائے کا بھرپور مظاہرہ ملتا ہے جو ان کے زمانے کے علما میں بالکل مفقود ہے، وہ اپنے زمانے کے علما کے برعکس ابن سینا اور جالینوس کے بر خلاف جاتے ہوئے ان پر کھلی تنقید کرتے نظر آتے ہیں، ان کی اہم تصانیف یہ ہیں:
“شرح تشریح القانون” اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ابن النفیس فیزیالوجی کی ایک اہم دریافت پر اپنے ہم عصر اور آج کے تمام اطباء پر سبقت لے گئے، انھوں نے آج کی جدید سائنس سے کئی سو سال پہلے Lung Circulation تفصیل سے بیان کی تھی۔
1952ء میں ابنِ النفیس کی ایک غیر مطبوعہ کتاب’’ کتاب الشامل فی الصناع الطبّیہ‘‘ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب نے بہت سے حقائق سے پردہ ہٹادیا۔ اپنی کتاب میں ابن النفیس نے بہت سے معاملات میں بقراط اور الزہراوی کی تقلید کی ہے۔ مثلاً اس نے آپریشن کے وقت مریض کو صحیح طور پر لٹانے یا بٹھانے کے طریقوں کے بارے میں بتایا ہے اور آلات ِجراحی کے صحیح استعمال کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ یہ بھی اس کتاب سے ہی معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ماہر سرجن تھا۔ اس نے مریض کے سرجن اور تیماردار سے تعلقات کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔
گردشِ خون
لیونارڈواونچی کی طرح ابن النفیس بھی بہت نرم دل واقع ہواتھا۔ علم طب سے گہر ا شوق رکھنے کے باوجود اس کو بغیر مجبوری کے انسان توانسان جانور تک کی چیر پھاڑ کرنا گوارا نہیں تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چیر پھاڑ سے اجتناب کے باوجود اس کو طب کی دنیا میں علم التشریح الاجسام اور امراضِ چشم کا ماہر تسلیم کیا جاتاہے۔ ا س کا سب سے بڑا کارنامہ خون کے بارے میں تحقیق اور دورانِ خون کے بارے میں اس کے نظریات ہیں۔
انسان کی زندگی اور صحت کا راز اس کے دورانِ خون کے نظام میں مضمر ہے۔ انسانی جسم میں خون کی اہمیت سے اطباء بہت پہلے سے واقف تھے لیکن وہ اس با ت کو دریافت نہ کرپائے کہ دل سے نکلنے کے بعد خون کس طرح سفر کرتاہے۔ ابنِ سینا کا خیال تھا کہ خون دائیں خانے سے نکل کر براہِ راست بائیں خانے میں چلا جاتاہے۔ لیکن اس کا یہ بیان پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا کیونکہ وہ دل کے ان دونوں خانوں کے درمیان میں کسی راستے کی نشان دہی نہ کرسکا۔ ابن النفیس نے دیکھا کہ خون جب دل کے دائیں خانے میں پہنچتاہے تو اس وقت تک پتلا ہوچکاہوتاہے۔ اس کے بعد قرآئن سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ خون دل کے بائیں خانے میں چلاجاتا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کیسے جاتاہے؟۔ کیونکہ دل کے دونوں خانوں کی درمیانی دیوار میں کوئی نالی یا سوراخ نہیں ہے۔ دل کے عضلات اتنے موٹے اور سخت اور مسام اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ خون ان میں سے بھی نہیں گذر سکتا۔ ابن النفیس نے اندازہ لگایا کہ یہ خون دل کے دائیں خانے سے پھیپھڑوں کی ورید کے ذریعے پھیپھڑوں میں جاکر پھیل جاتاہے اور اس میں ہوا شامل ہوجاتی ہے، تو یہ خون پھیپھڑوں سے شریان کے راستے واپس دل کے بائیں خانے میں چلا جاتاہے۔ ابن النفیس نے یہ انکشاف 1242ء میں کیا۔