لفظ ‘‘گھنٹہ’’ گو کہ قواعدی لحاظ سے وقت کی ایک اِکائی ہے تاہم اِس سے مُراد ایک وقت بتانے والے آلے کے بھی ہے (دیکھیے مقالہ: گھنٹا)[1]. لفظ ‘‘گھڑی’’ بھی وقت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے عام مُراد وقت کا چھوٹا سا حصّہ ہوتا ہے، یہ لفظ ایک ایسے چھوٹے آلے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے وقت معلوم کیا جا سکتا ہے اور اسے ہاتھ یا کلائی پر باندھ کر کہیں بھی آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے (دیکھیے مقالہ: گھڑی)[2].
وقت کا وہ پہلو ہے جو آپ کی کلائی کی باندھی گھڑی، دیوار پر لگا کلینڈر بتا رہا ہے یہ Linear time کہلاتا ہے یہ وقت ہے جو ہم انسانوں کی طے کردہ مقدار ہے، مگر وقت ایک بڑی اصطلاح ہے، ہر دور میں فلاسفرز نے وقت کے بارے میں مختلف نظریات متعارف کروانے، چند ایک درج ذیل ہیں
ٹائم ڈائیلیشن (وقت کی لچک) آئن سٹائن کے تصورِ زماں کا خاصہ ہے۔ٹائم ڈائیلیشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں روشنی کی رفتار کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتاہے۔تب اُس آبجیکٹ کا وقت آہستہ گزرتاہے اور زمین پر موجود اشیا ٔ کا وقت جلدی سے گزررہا ہوتاہے۔مثلاً،
فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹاہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کر دیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھادینے کا بندوبست کر لیں اور وہ روشنی کی رفتارکے قریب قریب سفر کرے۔ تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہو چکی ہوگی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہوسکتاہے اسّی سال ہو چکی ہو۔
زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پزیر ہوتاہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جاچکاہے۔جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے زرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقعہ اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتاہے۔
وقت کے بارے میں کلاسیکی نظریات
پوری کائنات کا بحیثیت مجموعی کوئی یوم آغاز اور کوئی یوم فنا نہیں ہے۔ کیوں کہ کائنات مجموعی طور پر ایک ٹھوس چیز نہیں ہے، جیسے میز، کرسی۔ نہ یہ ایک بند نظام ہے۔ ٹھوس اشیائ کا آغاز و انجام ہوتاہے اور ان کا اپنا وقت ’ اپنا ‘، زمان ‘ ہوتا ہے۔ ایک عنصری جزو کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ مثلاً نیوٹران کی زندگی سترہ منٹ ہے۔ لیکن مختلف میسان اور ہائپران Mesons and Hyperons عموماً ایک سیکنڈ کا دس کروڑاں حصہ زندہ ہی رہتے ہیں۔ ان کے ’ نظام زندگی ‘ یا ’ زمانی ترتیب زندگی ‘ کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سارا عمل اتنے مختصر وقفے میں ہوتا ہے کہ ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تاہم یہ اس کا اپنا وقت ہوتا ہے، جس کا آغاز و انجام ہے۔ اسی طرح انسان کا وقت اس کی اپنی زندگی کے پیمانے سے ہوتا ہے۔ نظام شمسی کا اپنا وقت ہوتا ہے اور سب اوقات محدود اور متعین ہوتے ہیں۔ چنانچہ کائنات وقت متعین انھی اندر ہی اپنا وجود رکھتا ہے۔ ان سے باہر یا ان سے ماورا نہیں۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے۔ ایسا وقت جو متعین اوقات سے آزادنہ اپنا وجود رکھتا ہو محض ایک ذہنی تجرید ہے۔ وقت من حثیت الوقت، مادی الائشوں سے پاک صرف ایک تصور ہے، جیسے میز، کرسی، مکان اور گھوڑے کا تصور مادی مثال کے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب تصورات ہمارے ذہن میں موجود تجریدیں ہیں، معروضی حقیقتیں نہیں۔ مابعد الطبیعیات مفکرین ہمیشہ وقت کو ایک مربوط دریا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ اردو ادب میں اس کے لے ے لمحہ سیال کی ترکیب بڑے ذوق و شوق سے پیش کی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں لمحہ سیال ازلی اور وقت ہے ہے۔ سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ دن، مہینہ سال کی تقسیم سے ماورا ہے۔ ان کے خیال میں وقت نظام شمسی کی، زمین کی محوری اور مداری حرکتوں سے ناقابل تقسیم اکائی ہے جو قائم بالذات ہے۔ * مابعد الطبیعیاتی مفکر یقین رکھتے ہیں کہ وقت مادی سلسلہ ہائے عمل کے اندر یا ان کے حوالے سے وجود نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ ہر قسم کے مادی اعمال سے باہر آزادنہ وجود رکھتا ہے۔ یہ ہے ان کا ’ مطلق وقت کا تصور۔ یہ تصور سراسر غلط ہے۔ واقعی اگر ایسا کوئی ہمہ گیر وقت کا دریا مادی سلسلہ سے ہائے عمل سے باہر کوئی موجود ہے تو وہ یقناً وہ مادے سے ماورا ہے اور پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اس قسم کا مادے سے بھی ورائ الورائ وقت خدا کا ہی دوسرا نام ہے۔ * زمان کو اگر دریا کہنا تو پھر اس کی سچی تصویر اس طرح ہوگی کہ یہ دریا بہتا ہوا لمحہ ہزاروں لاکھوں منبعوں سے نکل کر لاکھوں کروڑوں وادیوں، میدانوں سے بہتا ہوا گذرے گا۔ کائنات کا ’ دریائے وقت ‘ انہی سارے مادی تعینات کے اندر بہے سکتا ہے، ان سے باہر نہیں۔ تمام مطلق چیزیں اضافی چیزوں کے اندر وجود رکھ سکتی ہیں، ان سے ماورا نہیں ۔۔ وقت کی لامتناہیت، متعین وقت کے اندر وجود رکھتی ہے۔ لاتعداد متعین اوقات کا ’ مجموعہ ‘ یا ’ کل ‘ مطلق وقت ہے۔ وقت کی لامتناہیت اوور متناہیت کی یہی جدلیات ہے ۔
کوئی واحد کائناتی وقت جو مادی علائق سے آزاد ہو اپنا وجود نہیں رکھتا ہے، سوائے ذہن انسانی میں بطور تجرید کے، جیسے درخت، میز کرسی کا تجریدی، ذہنی تصور۔ تو پھر اس کائنات کا کوئی آغاز و انجام بھی
ہے؟ دوسرے الفاظ میں وقت کا کوئی آغاز و انجام ہے؟ جدولیاتی سائندانوں کا جواب یہ ہے کہ آغاز بھی ہے اور آغاز نہیں بھی ہے۔ اس طرح انجام بھی ہے اور انجام نہیں بھی ہے۔ وقت ہمیشہ کسی ٹھوس ( یعنی مادی چیز ) کا ہوتا ہے۔ وقت ٹھوس چیز ہے۔ ( یعنی متعین اور لامتناہی ) اس قسم کے وقت کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی ہے۔ ایک انسان ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے۔ نسل انسانی کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے۔ نظام شمسی کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے۔ اس قسم کا وقت جس کا تجربہ ہم دن، مہینے اور سال کی شکل میں کرتے ہیں، اس کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی۔ یہ وقت ہم نظام شمسی کے وجود سے وابستہ ہے۔ لیکن اس قسم کے وقت سے پہلے کیا تھا؟ یقناً کوئی اور وقت تھا۔ جو دوسرے مادی سلسلہ ہائے عمل سے منسلک تھا۔ اس کا اپنا نظام الاوقات تھا اور اپنی خصوصیات تھیں، جو ہمارے نظام شمسی سے جداگانہ تھیں۔ جس کا ہمیں ابھی تک کچھ علم نہیں ہے۔ یہ جدید مغربی ماہرین فلکیات جو ’ مرگ حرارت ‘ کا نظریہ پیش کرتے ہیں وہ وقت کو حراری حرکیات کے توازن کی طرف پیش قدمی کے سلسلے سے منسلک کرتے ہیں۔ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ حراری حراری حرکیات کا اپنا ایک وقت ہے، تو جب حراری حرکیات کا توزان حاصل ہو جائے گا تو موجودہ حرارت اور حرکت ختم ہو جائے گی۔ اگر موجودہ نظام شمسی ختم جائے گا تو اس کے ساتھ صرف اس مادی نظام سے منسلک وقت ختم ہوگا۔ لیکن پھر بھی ایک وقت ہوگا، جو نئے مادی سلسلہ ہائے سے منسلک ہوگا۔ کیوں کہ یہ وقت کائنات کا واحد مطلق وقت نہیں ہے، بلکہ ایک مادی نظام کا وقت ہے۔ جس چیز کو مغربی ماہرین کائنات کہہ رہے ہیں وہ ایک مادی، سلسلہ عمل کا نام ہے۔ وقت کیا ہے؟ ایک ٹھوس وقت مادی سلسلہ ہائے عمل کا نام ہے۔ یہ ہمیشہ متناہی اور متعین ہوتا ہے اگر ایک عمل مرتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ صرف یہی نہیں۔ یہ تبدیلی مقداری نہیں ہوتی ہے۔ ایک مرحلے پر کیفیتی تبدیلی بھی رونما ہوتی ہے اور آئندہ بھی لامتناہی ایساہی ہوتا رہے گا۔
ترتیب معین انصاری
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور* * نقاطی فہرست کی مَد