سُلطان الہند خواجہ سیّد معین الدین چشتی (1142ء-1236ء) فارسی نژاد روحانی پیشوا[5]، واعظ[6]، عالم، فلسفی، صوفی اور زاہد نیز اجمیری سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے۔[7][8][9] ان کا آبائی وطن سیستان[6] تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں انھوں نے برصغیر کا سفر کیا اور یہیں بس گئے اور تصوف کے مشہور سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ بخشا۔ تصوف کا یہ سلسلہ قرون وسطی کے ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس طریقت[7][10][11] کو کئی سنی اولیا نے اپنایا جن میں نظام الدین محمداولیاء (وفات: 1325) اور امیر خسرو (وفات: 1325) جیسی عظیم الشان شخصیات بھی شامل ہیں۔[6] معین الدین چشتی کو برصغیر کا سب سے بڑا ولی اور صوفی سمجھا جاتا ہے۔[12] خواجہ غریب نواز وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے غیر عرب مسلمانوں کو سماع کی طرف راغب کیا اور تقرب الہی کی غرض سے حالت وجد میں سماع کی اجازت دی تاکہ نو مسلموں کو اجنبیت کا احساس نہ ہو اور بھجن اور گیت کے عادی قوالی اور سماع کے ذریعے اللہ سے تقرب حاصل کریں۔[13] حالانکہ بعض علما کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ صد فیصد درست نہیں تھا کیونکہ ان ہی کے سلسلہ کے بزرگ نظام الدین اولیاء نے تمام قسم کے آلات موسیقی کو حرام قرار دے دیا تھا۔[14][15][16]
معین الدین چشتی کی ابتدائی زندگی کے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں البتہ جب انھوں نے ہندوستان کا سفر کیا تو اس وقت وسط ایشیا میں منگولوں کا قہر برپا تھا لہذا یہ ممکن ہے کہ معین الدین چشتی نے ان سے بچنے کے لیے ہندوستان کا رخ کیا ہو۔[6] انھوں نے سلطانالتتمش (وفات: 1236ء) نے زمانہ میں دہلی میں قدم رکھا مگر بہت مختصر مدت کے بعد اجمیر تشریف لے گئے۔ اسی مقام پر وہ اہل سنت کے حنبلی مسلک کے عالم اور اہل باطنخواجہ عبد اللہ انصاری (وفات: 1088ء) کی تحریروں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ خواجہ عبد اللہ کی اسلاف صوفیا کی حیات و حالات پر مشہور کتاب طبقات الاولیاء کا خواجہ معین الدین چشتی کی شخصیت اور ان کے ظاہر و باطن کو سنوارنے میں اہم کردار رہا۔[6] اس کتاب نے انھیں دنیا کو دیکھنے کا نیا نظریہ دیا۔ اسی زمانہ میں وہ اجمیر میں صاحت کرامت بزرگ کے طور پر مشہور ہونے لگے۔ وہ بیک وقت معلم، واعظ، مبلغ، روحانی پیشوا اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔[6][17] خواجہ معین الدین چشتی اپنی تمام خصوصیات کی بنا پر ہندوستان اور برصغیر کے سب سے بڑے صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے جانے لگے۔[6]
ولادت
آپ 14 رجب536ھ بمطابق 1141ء یا بروز پیر 14 رجب 530ھ مطابق 1135ء[18])کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان آپ ایران میں خراسان کے نزدیک سنجر نامی گاؤں کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ معین الدین کا بچپن میں نام حسن تھا۔ آپ نسلی اعتبار سے نجیب الطرفین صحیح النسب سید تھے آپ کا شجرہ علی ابن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد سیدغیاث الدین امیر تاجر اور با اثر تھے۔ السیدغیاث الدین صاحبِ ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد و زاہد شخص بھی تھے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود معین الدین چشتی بچپن سے ہی بہت قناعت پسند تھے۔ معین الدین کی والدہ کا اسم گرامی بی بی سیدہ ماہ نور ہے۔
سید معین الدین چشتی الاجمیری بن سید غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید کریم بن سید عبد الرحمن بن سید اکبر بن سید محمد بن سید علی بن سید جعفر بن سید باقر بن سید محمد بن سید علی بن سید احمد بن ابراہیم مرتضی بن امام موسی کاظم علیہ السلام[19][20][21]
القابات
معین الحق، حجۃ الاولیاء، سراج الاولیاء، فخر الکاملین، قطب العارفین، ہند الولی، عطاء رسول، تاج اولیاء، شاہ سوار قاتل کفار، مغيث الفقراء او معطي الفقراء، سلطان الہند، [22] ولی الہند، ہند الولی، وارث النبی فی الہند، خواجہء خواجگان، خواجہ اجمیری، خواجہ غریب نواز، امام الطریق، خواجہ بزرگ، پیشواء مشایخ ہند، شیخ الاسلام، نائب النبی فی الہند[23]
بچپن
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور اس کے بعد حفظ قرآن پاک کی تکمیل فرمائی بعد اس کے ابھی تعلیم آگے جاری تھی کہ جب آپ کی عمر صرف 15 سال تھی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ایسے لمحات میں آپ کی والدہ سیدبی بی نور نے بڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑے حوصلے کے ساتھ بیٹے کو سمجھایا اور کہا: ”فرزند! زندگی کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گذرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔
تمھارے والد کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔ چنانچہ تمھیں اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کے لیے ہی صرف کر دینی چاہئیں“۔ مادر گرامی کی تسلیوں سے سیدخواجہ معین الدین چشتی کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق سے علم حاصل کرنے لگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سے ایک سال ہی گذرا ہو گا کہ آپ کی والدہ سیدبی بی نور بھی خالق حقیقی سے جاملیں۔ اب سیدخواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں اکیلے رہ گئے۔
کمسنی میں آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محمد غیاث الدین سے حاصل کی جو اس دور میں رواج ہوا کرتا۔ والد ماجد کے وصال سے حفظ قرآن کی تکمیل فرمائی۔ والد ماجد و والدہ کے وصال کے بعد گھریلو ذمہداری کی وجہ سے باغ کی دیکھ بھالی فرما رہے۔
والد کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہ تھا۔
ایک دن خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گذر ہوا۔ آپ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔ سیدابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا: اے نوجوان! ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ ”آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرمائیے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی کہ نہیں“۔ آپ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ ابراہیم قندوزی سے انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق معین الدین چشتی نے ابراہیم قندوزی کے سامنے رکھ دیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر معین الدین کی طرف بڑھایا اور فرمایا ”وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے“۔ اس کے بعد نے وہ باغ فروخت فرما کر اس کی رقم کو غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیا۔ مزید حصول دین کی خاطر سفر کیا اور اپنے جاے ولادت کو خیرآباد کہہ دیا
علوم ظاہری
بعد ازاں آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں لُٹانے کے بعد تحصیل علم کے لیے خراساں کو خیرباد کہہ دیا اور آپ نے سمرقندبخارا کا رُخ کیا جو اس وقت علوم و فنون کے اہم مراکز تصور کیے جاتے تھے۔ یہاں پہلے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر‘ فقہ‘ حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔
علوم باطنی
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔ اپنے زمانے کے مشہور بزرگ خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں آئے خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہے۔ آپ پیرو مرشد کی خدمت کے لیے ساری ساری رات جاگتے رہتے کہ مرشد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے۔
سرورِ کائنات کے روضہ اقدس کی حاضری ہوئی سیدعثمان ہارونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔ ”معین الدین! آقائے کائنات کے حضور سلام پیش کرو۔ خواجہ معین الدین چشتی نے گداز قلب کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ روضہ رسول سے جواب آیا۔ ”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔۔
اسفار
سفر بغداد کے دوران میں آپ کی ملاقات شیخ نجم الدین کبریٰ سے ہوئی اولیائے کرام میں شیخ نجم الدین کبریٰ کا مقام بہت بلند ہے۔ معین الدین چشتی اڑھائی ماہ تک شیخ نجم الدین کبریٰ کے ہاں قیام پزیر رہے اور ایک عظیم صوفی کی محبتوں سے فیض یاب ہوئے۔
اس کے بعد معین الدین چشتی بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ پھر آپ تبریز تشریف لے گئے اور وہاں خواجہ ابو سعید تبریزی سے فیض حاصل کیا۔ ابو سعید تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہے۔ چند دن یہاں گزارنے کے بعد آپ اصفہان تشریف لے گئے۔ وہاں مشہور بزرگ شیخ محمود اصفہانی کی محبت سے فیض یاب ہوئے۔
جب آپ اصفہان سے روانہ ہوئے تو قطب الدین بختیار کاکی جو ابھی نوعمر تھے آپ کے ساتھ ہوئے جو بعد میں تاجدار ہند کہلائے۔ آپ گنج شکر بابا فرید کے مرشد اور نظام الدین اولیاء کے دادا مرشد ہیں۔
بہرکیف معین الدین چشتی اصفہانسے خرقان تشریف لے آئے یہاں آپ نے دو سال وعظ فرمایا اور ہزاروں انسانوں کو راہ راست پر لائے۔ پھر ایران کے شہر استرآباد تشریف لے آئے ان دنوں وہاں ایک مرد کامل سیدشیخ ناصر الدین قیام پزیر تھے۔ جن کا دو واسطوں سے سلسلہ بایزید بسطامی سے جا ملتا ہے چند ماہ یہاں سیدشیخ ناصرالدین سے روحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ہرات کا قصد کیا۔ یہ شہر ایرانی سرحد کے قریب افغانستان میں واقع ہے۔ یہاں خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار مبارک پر آپ کا قیام تھا۔ بہت جلد سارے شہر میں آپ کے چرچے ہونے لگے۔ جب بات حد سے بڑھ گئی اور خلق خدا کی ہر لمحے حاضری کی وجہ سے وظائف اور عبادت الٰہی میں فرق پڑنے لگا تو آپ ہرات کو خیرباد کہہ کر سبزوار تشریف لے گئے۔
دعوت وتبلیغ
سلسلہ چشتیہ ہندوستان میں آپ ہی سے پھیلا اور ہندوستان میں نوے لاکھ آدمی آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے[24]
وصال
ایک روایت کے مطابق تاريخ وفات 6 رجب627ہ 661هـ-1230ء ہے۔ آپ 97 سال حیات رہے
جبکہ دوسری روایت میں 103 سال کی عمر میں آپ کا وصال 633ھ ْ 1229ء میں اجمیر میں ہوا۔[25]
تصنیفات
انیسالارواح : یا انیس دولت، جو ملفوظات خواجہ عثمان ہاروَنیتحریر کیے
گنج اسرار، مجموعہ دیگر از ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی اور شرح مناجات خواجہ عبد اللّہ انصاری ہیں
دلیلالعارفین، یہ کتاب مسائل طہارت، نماز، ذکر، محبت، وحدت و آداب سالکین ہیں
بحرالحقائق، ملفوظاتخواجہ معینالدین چشتی خطاب ہے خواجہ قطبالدین بختیار
اسرارالواصلین، اس میں شامل آٹھ خطوط جو خواجہ قطبالدین اوشي بختیار کو لکھے
رسالہ وجودیہ
کلمات خواجہ معینالدین چشتی
دیوان مُعین الدين چشتي، اس میں شامل غزلیات فارسی
خلفا
معین الدین کے کئی خلفاء ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں بعض بزرگان دین نے خراسان کے ایک قصبہ چشت میں رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ شروع کیا٬ جو دور دور تک پھیلتا چلا گیا، یہ خانقاہی نظام طریقہ سلسلہ چشتیہ کے نام سے موسوم ہوا٬
↑Francesca Orsini and Katherine Butler Schofield, Telling and Texts: Music, Literature, and Performance in North India (Open Book Publishers, 2015)، p. 463
↑See Andrew Rippin (ed.)، The Blackwell Companion to the Quran (John Wiley & Sons, 2008)، p. 357.
↑M. Ali Khan and S. Ram, Encyclopaedia of Sufism: Chisti Order of Sufism and Miscellaneous Literature (Anmol, 2003)، p. 34.
↑See Andrew Rippin (ed.)، The Blackwell Companion to the Quran (John Wiley & Sons, 2008)، p. 357.
↑M. Ali Khan and S. Ram, Encyclopaedia of Sufism: Chisti Order of Sufism and Miscellaneous Literature (Anmol, 2003)، p. 34.
↑Nizami, K.A.، “Čis̲h̲tī”، in: Encyclopaedia of Islam, Second Edition، Edited by: P. Bearman, Th. Bianquis, C.E. Bosworth, E. van Donzel, W.P. Heinrichs.
↑John Esposito (ed.)، The Oxford Dictionary of Islam (Oxford, 2004)، p. 53
↑Nizamuddin Auliya (31 دسمبر 1996). Fawa'id al-Fu'aad: Spirtual and Literal Discourses (انگریزی میں). Translated by Z. H. Faruqi. D.K. Print World Ltd. ISBN:9788124600429.{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: سال اور تاریخ (link)
↑Muhammad bin Mubarak Kirmani۔ Siyar-ul-Auliya: History of Chishti Silsila (Urdu میں)۔ ترجمہ از Ghulam Ahmed Biryan۔ Lahore: Mushtaq Book Corner{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ: نامعلوم زبان (link)