خواجہ نظام الدین اولیاء (پیدائش: 9 اکتوبر1238ء— وفات: 3 اپریل1325ء) سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ جن کا سلسلہ نسب امام حسین تک پہنچتا ہے۔ آپ کی ولادت کے مہینہ اور دن تو قطعیت کے ساتھ معلوم ہے کہ ماہ صفر کا آخری چہار شنبے 636 ھ کو ولادت ہوئی۔
نام و نسب
آپ کا اصل نام سید محمد نظام الدین، والد کا نام سید احمد بخاری ہے۔ آپ کے القابات 'نظام الاولیاء'، 'محبوب الہی'، 'سلطان المشائخ'، 'سلطان الاولیاء' اور 'زری زر بخش' وغیرہ ہیں۔
ولادت
نظام الدین اولیاء کی ولادت 636ھ 9 اکتوبر 1237ء میں ہوئی۔
برصغیر آمد
آپ کے جدِ امجد سید علی بخاری اور نانا خواجہ عرب بخارا سے ہجرت کرکے بدایوں پہنچے۔
تعلیم و تربیت
ابھی بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ بی بی زلیخا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔ آپ نے قرآن کریم کا ایک پارہ مقری بدایونی سے پڑھا اس کے بعد مولانا علاؤ الدین اصولی سے مختصر القدوری پڑھی۔ مشارق الانوار کی سند مولانا کمال الدین سے حاصل کی۔ اس کے بعد دہلی آکر خواجہ نجیب الدین متوکل سے صحبت رہی۔ یہیں شمس الدین خوازمی سے تحصیل علم کی۔
اے آتش فراقت دل ہا کباب کردہ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ سیلاب اشتیاقت جا نہا خراب کردہ
پیر و مرشد سے بیعت ہو کر 6 پارے اور عوارف کے 6 باب تمہید ابو شکور سلمی اور بعض دوسری کتابیں پڑھیں اور باطنی علوم کے حصول کے بعد خلافت حاصل کی۔ پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ ایک دن شیخ عبد الرحیم نے عرض کی: حضور آپ سحری میں کچھ نہیں کھاتے، افطاری کے وقت بھی کچھ نہیں کھاتے۔ ضعف و نقاہت سے کیا حال ہو گیا ہے۔ یہ سن کر آپ کر گریہ طاری ہو گیا۔ فرمایا: اے عبد الرحیم کتنے فقیر محتاج مسجدوں درسگاہوں اور چبوتروں پر بھوکے پڑے ہوتے ہیں، اس حالت میں میرے حلق سے نوالہ کیسے اتر سکتا ہے۔[2]
شہرت
اللہ تعالٰی نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ وقت کے بادشاہ اور امرا بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا پوتا معز الدین کیقباد کو آپ سے اس قدر گہرا تعلق تھا کہ اس نے آپ کی خانقاہ کے قریب موضع کھیلوکری میں اپنا قصر تعمیر کروایا اور وہیں سکونت اختیار کی۔ خواجہ نظام الدین بھی اپنی خانقاہ سے سلطان کی نو تعمیر جامعہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جاتے لیکن آپ سلطان سے ملاقات کے لیے کبھی نہ گئے۔
خدمتِ خلق
آپ کے لنگر خانہ میں ہزاروں من کھانا پکتا اور ہزاورں کی تعداد میں فقراء اور مساکین اس خانقاہ سے کھانا کھاتے۔[3] وصال سے قبل آپ علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی گھر اور خانقاہ کے اندر جس قدر اثاثہ ہے سارے کا سارا مساکین اور غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ کے حکم پر خواجہ محمد اقبال داروغہ لنگر نے ہزا رہا من غلہ بانٹ دیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا۔
ایک دن آپ نے محفل میں فرمایا کہ جتنا غم و اندوہ مجھے ہے اتنا اس دنیا میں اور کسی کو نہ ہو گا کیونکہ اتنے لوگ آتے ہیں اور صبح سے شام تک اپنے دکھ درد سناتے ہیں وہ سب میرے دل میں بیٹھ جاتے ہیں پھر فرمایا عجب دل ہو گا جو اپنے مسلمان بھائی کا دکھ سنے اور اس پر اثر نہ ہو۔ ایک مرتبہ غیاث پورہ میں آگ لگی، گرمی کا موسم تھا۔ آپ چلچلاتی دھوپ میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑے یہ منظر اس وقت تک دیکھتے رہے کہ جب تک آگ ٹھنڈی نہ ہو گئی پھر خواجہ محمد اقبال کو فرمایا کہ جاؤ ہر متاثرہ گھر والے کو دو تنکے، دو دو روٹیاں اور ٹھنڈے پانی کی ایک ایک صراحی پہنچا کر آؤ کیونکہ آبادی کے لوگ اس حالت میں بہت پریشان ہوں گے۔ جب خواجہ محمد اقبال وہاں پہنچے تو لوگ خوشی سے آبدیدہ ہو گئے۔ ایک تنکہ کی قیمت اس وقت اتنی تھی کہ کئی چھپر ڈلوائے جا سکتے تھے۔[4]
خواجہ نظام الدین اولیاء نے 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ بمطابق 4 مارچ 1324ء کو طلوعِ آفتاب کے وقت وصال فرمایا۔ مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔
نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں۔۔ سراج دو عالم شدہ بالیقیں۔۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب۔۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( 725ھ - 1324ء )