ضلع بہاولپورپاکستان کے صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر بہاولپور ہے۔ مشہور شہروں میں احمد پور شرقیہ، حاصل پور اور بہاولپور شامل ہیں۔ 1998ء میں اس کی آبادی کا تخمینہ 24,33,091 تھا۔اس کا رقبہ 24830 مربع کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 461 میٹر (1512.47 فٹ) ہے۔ یہ شہر اپنی مشہور جگہوں، جیسے نور محل، چڑیا گھر اور دربار محل کے وجہ سے جانا جاتا ہے۔ سرائیکی زبان، پنجابی اور ہریانوی یہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں ہیں، جبکہ اردو بھی یہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور انگریزی یہاں کی سرکاری زبان ہے۔
یہاں زیادہ تر کپاس، گنا، گندم، سورج مکھی کے بیچ، سرسوں اور چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب کے جنوب میں واقع ضلع بہاولپور کے جنوب اور جنوب مشرق میں ہندوستان، شمال مشرق میں بہاولنگر، اس کے شمال میں وہاڑی، لودھراں اور ملتان ، مغرب میں رحیم یار خان اور شمال مغرب میں مظفر گڑھ کے اضلاع واقع ہیں۔
تحصیلیں
اسے انتظامی طور پر پانچ تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
1998 کی مردم شماری کے مطابق ، ضلع میں سب سے زیادہ بولی جانے والی پہلی زبان سرائیکی ہے جس کا ضلعے میں آبادی کا تناسب 64.3 فیصد ، پنجابی 28.4 فیصد اور اردو 5.5 فیصد ہے۔[1]
تاریخ
711ء میں پنجاب اور پورے سندھ کے مختلف حصے عرب حکمرانی میں آئے جب محمد بن قاسم نے سندھ، ملتان اور شورکوٹ کے آس پاس کے علاقوں کو فتح کیا۔ یہ خطہ اموی خلافت کے کنٹرول میں آیا۔ اس خطے میں موجود آرائیں قبائل بعض اوقات محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے عرب فوجیوں کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے والد سلطان سیبکٹیگین کے ذریعے قائم کردہ غزنوی خاندان کی سلطنت کے لیے 997ء میں یہ خطہ قبضے میں کیا۔ اس نے 1005ء میں شاہیوں کو کابل میں زیر کیا اور اس کے بعد اس نے پنجاب پر فتح حاصل کی۔ دہلی سلطنت اور بعد میں مغل سلطنت نے اس خطے پر حکومت کی۔ یہ خطہ صوفیا کی وجہ سے بنیادی طور پر مسلمان ہو گیا جن کی درگاہیں یہاں ثقافتی اہمیت رکھتی ہیں۔ برطانوی حکمرانی کے دور میں ضلع بہاولپور کی آبادی اور اہمیت میں اضافہ ہوا۔
ضلعی دار الحکومت بہاولپور، جو دریائے ستلج کے بالکل جنوب میں واقع ہے، کی بنیاد نواب محمد بہاول خان عباسی نے 1748ء میں رکھی تھی اور اسے 1874ء میں برطانوی حکومت کی جانب سے میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد، سکھ سلطنت نے پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا لیکن بہاولپور سٹی انتظامیہ اور ریاست کے عباسی نوابوں کا مرکز تھا اور یہ شہر انگریزی حکومت کی معاونت اور نوابان بہاولپور کی حکمت عملی کی وجہ سے سکھ یلغار سے محفوظ رہا۔ 1836ء میں بہاولپور نے سکھ سلطنت کو خراج ادا کرنا چھوڑ دیا۔ ریاست کی فوج نے بھی علاقے کا پورا دفاع کیا اور اس کی آزادی کو قائم رکھا۔ ریاست بہاولپور کے بانی نواب بہاول خان عباسی اول تھے۔ عباسی خاندان نے 200 سال (1748ء سے 1954ء) تک ریاست پر حکومت کی۔ آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کی حکمرانی کے دوران ریاست بہاولپور کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی (1954ء) کے دوران نواب صاحب نے بہاولپور کو جدید پاکستان میں شامل کرنے کے لیے (معاہدے کی تاریخ 3 اکتوبر 1947ء) پر اتفاق کیا۔ تاہم اسے خصوصی مراعات دی گئیں جن میں ہر سال متعدد کاروں کو ڈیوٹی فری درآمد کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ بہاولپور پہلے ریاست کا دار الحکومت تھا اور اب بہاولپور ڈویژن کا ضلعی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے۔
بہاولپور کے نواب اصل میں سندھ سے آئے تھے اور بغداد کے عباسی خلفاء سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے اور انھوں نے یہ ریاست قائم کی۔ اس طرح زیادہ تر مسلم آبادی نے مسلم لیگ اور پاکستان کی تحریک کی حمایت کی۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد، اقلیتی ہندو اور سکھوں نے ہندوستان ہجرت کی جب کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمان مہاجرین کافی تعداد میں ضلع بہاولپور میں آباد ہوئے۔
زراعت و صنعت
کپاس، گنا، گندم، سورج مکھی، سرسوں اور چاول وہ فصلیں ہیں جن ل کے لیے بہاولپور کو پہچانا جاتا ہے۔ ضلع بہاولپور آم، کھجور اور امرود وہ پھل ہیں جو بیرون ملک بھی بھیجے جاتے ہیں۔ سبزیوں میں پیاز، ٹماٹر، گوبھی، آلو اور گاجر شامل ہیں۔ حکومت نے ضلع بھر میں مارکیٹ میں کاسٹک سوڈا، سوتی جننگ، آٹاملز، پھلوں کے رس کی پروسیسنگ برائے فوڈ انڈسٹری، جنرل انجینئری، آئرن ورکس اور اسٹیل کی دوبارہ رولنگ ملوں کی اجازت دی ہے۔
↑ book| title = 1998 District Census report of Bahawalpur| location = Islamabad| publisher = Population Census Organization, Statistics Division, Government of Pakistan| series = Census publication | volume = 48| date = 1999| page = 33