حِمْص کی جنگ یا حمص پر حملہ ایک جاری عسکری عملیہ (آپریشن) ہے جو حکومت برائے نجاتِ شام (ایس ایس جی) اور شامی عبوری حکومت (ایس آئی جی) میں اتحادی ترک حمایت یافتہ[13] باغی گروہوں کی جانب سے سنہ 2024ء میں شمال مغربی سوریہ (شام) پر حملے کے دوران شروع کیا گیا تھا، جو شامی خانہ جنگی کا ایک مرحلہ ہے۔ یہ آپریشن ملٹری آپریشن کمانڈ نے 5 دسمبر 2024ء کو 2024ء کے حماہ حملہ کے دوران حماہ پر قبضہ کرنے کے بعد شروع کیا تھا۔ بشار حکومت کی فوجیں کے شہر کو چھوڑنے کے بعد 7 - 8 دسمبر کی رات کو اس کی حکومت کی مخالفت کرنے والی افواج نے شہر کو فتح کر لیا اور یوں یہاں جنگ کا اختتام ہوا۔
5 دسمبر کو بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج حماہ شہر کے شمال مشرقی حصے میں داخل ہوئیں۔ حکومت کی حامی افواج کی جانب سے مشرقی جانب فضائی حملوں کی اطلاع ملی، ساتھ ساتھ حکومت مخالف افواج سے سے لڑتے بھی رہے۔[16] محمد الجاسم (ابو عمشہ) کی قیادت میں ترک حمایت یافتہ "سلطان سلیمان شاہ" ڈویژن نے شہر پر کنٹرول کے لیے لڑائی میں شمولیت اختیار کی۔[17]
بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج کی حمص کے قریب آنے کی خبر سن کر حمص کے ہزاروں باشندے شہر سے بھاگ گئے۔[22] ایک دن بعد 6 دسمبر کو اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان کے ساتھ دو سرحدی گذرگاہوں، عریضہ اور جوسیہ کو نشانہ بنایا، جنھیں بشار الاسد حکومت کی حامی حزب اللہ افواج کے لیے ہتھیاروں کی منتقلی کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔[23]
معرکہ
5 دسمبر 2024ء کو حماہ کی فتح کے بعد حکومت مخالف افواج حمص شہر کے مرکز سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی ہوئی۔ مبینہ طور پر سرکاری افواج الراستان سے پیچھے ہٹ گئیں، جبکہ حزب اختلاف کی پیشرفت کے تناظر میں تلبیسہ شہر بھی حکومتی کنٹرول سے گر گیا۔ حکومت مخالف افواج نے تیرمعلہ گاؤں کے قریب شامی عرب فوج (بشار کی ایک حمایتی فوج) کے 27ویں ڈویژن پر ڈرون حملے کیے۔[24]
مقامی عسکریت پسند گروہوں نے الرستن کے مضافات میں شامی عرب فوج کی انجینئرنگ بٹالین کی سہولت پر قبضہ کر لیا، جہاں انھوں نے فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود کی فراہمی حاصل کی۔ سوری عرب فوج سے منسلک جنگی طیاروں نے الرستن کے شمالی علاقے اور حماہ کو حمص سے جوڑنے والے مرکزی پل کے آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے تقریباً دس حملے کیے۔ بشار الاسد کی سوری (شامی) عرب فوج نے کئی سالوں میں پہلی بار توپ خانے کی فائرنگ اور میزائلوں سے تلبیسہ میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بھی حملہ کیا۔ سوری عرب فوج حکام نے حمص شہر سے رستن اور تلبیسہ کو الگ کرنے کے لیے تلبیسہ کی طرف جانے والی حمص و حماہ شاہراہ کے ساتھ مٹی کی باڑیں قائم کیں۔ ہتھیاروں اور گولہ بارود لے جانے والی 200 سے زیادہ گاڑیوں پر مشتمل سوری عرب فوج کے ایک اہم دستے کو ضلع الوعر اور عسکری تعلیمی سہولیات کے قریب پوزیشنوں کو مضبوط کرنے کے لیے حمص شہر کی طرف بھیج دیا گیا۔[25] باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش میں روسی ہوائی فضا کی افواج نے ایم-5 موٹر وے کے الرستن پل پر فضائی حملہ کیا، جو حمص اور حماہ کو جوڑتا ہے۔[1]
6 دسمبر 2024 کو حکومت مخالف افواج نے الرستن، تلبیسہ اور الدار الکبیرہ پر قبضہ کر لیا، اور حمص کے مضافات میں پہنچ گئیں۔ دریں اثنا، حکومت کی حامی افواج شہر کے شمال میں کئی قصبوں سے پیچھے ہٹ گئیں، جن میں تیرمعلہ، الزعفرانیہمجدل، دیر فول، عسیلہ، فرحانیہ، وازعیہ، غاصبیہ، مکرمیہ اور عز الدین شامل ہیں۔[26][27][28][29] دوپہر تک، مبینہ طور پر حکومت کی حامی افواج حمص سے مکمل طور پر لاذقیہ شہر کی طرف پیچھے ہٹ گئیں، شہر کے شیعہ اکثریتی محلوں میں صرف مقامی حکومت کے حامی بندوق بردار باقی تھے۔[30] بشار الاسد حکومت کی افواج نے حمص و حماہ ہائی وے پر واقع الرستن پل پر فضائی حملہ کیا جسے ایم45 ہائی وے کے نام سے جانا جاتا ہے تاکہ حماہ اور حمص دونوں کو حکومت مخالف افواج سے منقطع کیا جا سکے اور باغیوں کی پیش قدمی کو بھی مدھم کیا جا سکے۔[31][32]
شام (سوریہ) کی وزارت دفاع نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے حمص شہر کو مکمل طور پر خالی کرنے کا حکم نہیں دیا۔[33]
7 دسمبر 2024ء کو تحریر الشام کی افواج شدید لڑائی کے اثنا میں شہر حمص کے مضافات میں پہنچ گئی۔[34] فضائی حملوں اور توپ خانے کی فائرنگ میں کم از کم سات شہری مارے گئے۔[12]حزب اللہ نے القصیر میں 2،000 جنگجو بھیجنے کا اعلان کیا لیکن اب تک حکومت مخالف افواج کے ساتھ جھڑپ نہیں ہوئی۔[9] دوپہر تک روئٹرز نے اطلاع دی کہ بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج شمال اور مشرق سے شہر کے مضافاتی علاقوں میں داخل ہوئیں۔[35] رات تک باغیوں نے شہر کے شمالی حصے میں واقع حمص مرکزی جیل پر قبضہ کر لیا اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کر دیا۔[36]حزب اللہ کے جتھے "فوج الحاج رضوان" کھ درجنوں جنگجو بشار الاسد فوج کے اس فیصلے کے بعد حمص سے فرار ہو گئے کہ شہر کا مزید دفاع نہیں کیا جا سکتا۔[6]
8 دسمبر 2024ء کو صبح سویرے تک بشار الاسد حکومت کی مخالف شامی افواج نے اعلان کیا کہ انھوں نے حمص شہر پر مکمل قبضہ کر لیا ہے، اور مؤثر طریقے سے صوبہ لاذقیہ کو ملک کے باقی حصوں سے کاٹ دیا ہے۔[3] مخالف افواج نے صوبہ حمص میں اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے القصیر پر قبضہ کر لیا، جب حزب اللہ کے سینکڑوں جنگجو واپس لبنان میں داخل ہوئے۔ کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی فضائیہ نے گذر گاہ پر حزب اللہ کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔[8][10]