بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج کا حماہ[2] اور اس کے بہتیرے قصبہ جات بشمول سلمیہ، کفر زیتا، لطامنہ، اور مورک[3][4] ساتھ ساتھ حماہ ہوائی تنصیب[5] پر قبضہ
حماہ کی جنگ یا حماہ پر حملہ ایک عسکری عملیہ (آپریشن) ہے جو حکومت انقاذ سوریہ (SSG) اور ترک حمایت یافتہ[16]سوری عبوری حکومت (SIG) کے باغی گروہوں کی افواج نے 2024ء کے شمال مغربی شام کے حملے کے دوران شروع کیا تھا، جو دراصل سوریہ (شام) کی خانہ جنگی کا ایک مرحلہ ہے۔ یہ آپریشن، جس کی ابتدا ملٹری آپریشن کمانڈ نے کی، محافظہ حماہ میں کیا گیا۔
5 دسمبر 2024ء کو معارضہ سوریہ کی افواج نے حماہ پر قبضہ کر لیا۔[2]
پس منظر
27 نومبر 2024ء کو ہیئت تحریر الشام (HTS) کی قیادت میں معارضہ سوریہ گروہوں نے شمال مغربی سوریہ (شام) میں بشار الاسد حکومت کی حامی افواج پر حملہ کیا۔ یہ مارچ 2020ء میں ادلب کی جنگ بندی کے بعد جھڑپوں میں کسی بھی دھڑے کی جانب سے پہلا بڑا حملہ ہے۔ عملیہ کے نتیجے میں درجنوں دیہاتوں پر مخالف افواج نے تیزی سے قبضہ کر لیا اور بشار حکومت کے حامی مدافعین کو نمایاں طور پر ناتواں کر دیا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس حملہ کی وجہ سے کچھ آبادی شام (سوریہ) کے مختلف شہروں بشمول حماہ کی طرف نقل مکانی کا باعث بنی۔[17]
نتیجتاً باغی فوجیں حماہ کے مضافات تک پہنچ گئیں اور رفتہ رفتہ شہف کے قریب آنا شروع کر دیا۔[18] دریں اثنا، بشار حکومت کی حامی افواج نے حماہ شہر اور اس کی ہوائی تنصیب دونوں سے انخلاء شروع کر دیا۔ یکم دسمبر کے اوائل سے ایک غیر تصدیق شدہ تصویر گردش کرنے لگی، جس میں باغی افواج کو حماہ شہر کے اربعین محلے میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے۔[19][ ناقابل اعتماد ماخذ؟ ]الجزیرہ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ باغی افواج حماہ میں داخل ہو گئی ہیں۔[20]
اگلے دن، بشار الاسد کی فوج جوابی کارروائی شروع کرنے میں کامیاب ہو گئی جس نے محافظہ حماہ کے کچھ علاقے دوبارہ حاصل کر لیے اور باغیوں کی پیش قدمی کو روک دیا۔ [21] روسی فضائی حملوں نے باغیوں کے زیر کنٹرول ادلب اور حماہ کے دیہی علاقوں کو نشانہ بنایا۔[1] سوریہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی "سانا" کے مطابق فوج نے رات گئے محافظہ حماہ کے شمالی دیہی علاقوں میں باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔[15] سانا اور سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس دونوں نے دعویٰ کیا کہ بشار فوج باغیوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی۔ سیریئن آبزرویٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ کُمک نے حماہ کے شمال میں ایک "قوی دفاعی لائن" تشکیل دی ہے۔[22] باغی افواج نے تصدیق کی کہ وہ دمشق تک اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے۔[23]
1 دسمبر کو جنوبی ادلب میں باغیوں کی نئی پیش قدمی کے ایک حصے کے طور پر، خان شیخون میں تحریر الشام کے سات جنگجو سوری عرب فوج (SAA) کے ایک سابقہ گودام میں فریبی چال والے میزائل کے ذریعہ مارے گئے جسے شہر سے بشار افواج کے پیچھے ہٹنے کے دوران خالی کر دیا گیا تھا۔[11]
2 دسمبر کو حماہ کے شمال میں جبل زین العابدین کے قریب بشار حکومت کے حامی فوجی رہنماؤں کے ایک ہجوم کو نشانہ بنانے والے باغیوں کے ڈرون حملے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔[24] دوپہر تک صوبہ حماہ میں خاص طور پر کرناز اور صوران کے قصبوں کے قریب بشار حکومت مخالف اور بشار حکومت کی حامی افواج کے درمیان جھڑپیں تیز ہو گئیں۔ مشرقی حماہ کے دیہی علاقوں میں بشار مخالف افواج نے پیش قدمی کرتے ہوئے قصر ابو سمرہ پر قبضہ کر لیا۔[25] شام کے وقت حملہ کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ شدید جھڑپیں شمالی حماہ کے علاقے میں بشار حکومت مخالف اور حکومت کی حامی افواج کے درمیان ہوئیں، جس میں روسی اور سرکاری طیاروں نے 45 سے زیادہ فضائی حملے کیے۔ بشار مخالف افواج نے جوبین، تل ملح، جلمہ، بریدیج، کرناز اور کرکات کے دیہاتوں کا کنٹرول سنبھال لیا، جب کہ حکومت کی حامی افواج قلعہ مضیق پر پیش قدمی کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔[26][27] حماہ شہر پر بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج کی راکٹ شیلنگ سے آٹھ شہری جاں بحق ہو گئے۔[28]سہل الغاب میں فرنٹ لائن پر بھی جھڑپیں ہوئیں، تحریر الشام کے ایک ناکام حملہ کے دوران جہاں کم از کم دس تحریر الشام ارکان سوری عرب فوج (بشار حامی فوج) کے مقامات پر حملہ کرتے ہوئے مارے گئے۔[13]
مضافات میں کُشتم کُشتا
3 دسمبر کو باغی افواج نے حکومت کی حامی افواج پر اپنی پیش قدمی جاری رکھی، طیبۃ الامام، حلفایا، صوران اور معردس کے قصبوں پر قبضہ کر لیا۔[29] شام کے وقت بشار حکومت کی مخالف اور حکومت کی حامی افواج کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی، جب باغیوں نے دیہات کے 10 سے زائد قصبوں پر قبضہ کر لیا اور حماہ کے مضافات میں پہنچ گئے۔[30] حماہ کے شمال میں شدید جھڑپوں میں کم از کم 17 بشار حامی فوجی اور تحریر الشام کے 8 جنگجو مارے گئے۔ شہر میں تحریر الشام کی گولہ باری سے دو شہری بھی مارے گئے۔[12]
جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے پریس کے لیے کام کرنے والا فوٹوگرافر انس الخربوطلی حماہ کے قریب مورک میں ایک فضائی حملے میں مارا گیا۔[31]
4 دسمبر کو، سوری عرب فوج (بشار حکومت کی حامی افواج میں سے ایک) نے حماہ شہر کے شمال مشرق میں 18 کلومیٹر دور، ٹریک شدہ ملٹری وہیکلز اکیڈمی پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے جوابی کارروائی شروع کی۔[32] تحریر الشام کی افواج کی طرف سے جورین کے قریب البارد گاؤں سے متصل الکریم گاؤں پر ایک اور حملہ کیا گیا، جہاں سوری عرب فوخ نے باغیوں کے حملوں کو پسپا کر دیا۔ حماہ کے فرنٹ لائن پر حملوں کے دن میں کم از کم تحریر الشام کے 48 جنگجو، سوری وطنی فوج (SNA) کے 5 جنگجو اور سوری عرب فوج (SAA) کے 34 فوجی مارے گئے۔[14] شام تک بشار حکومت کی مخالف افواج نے حماہ کو رقہ اور حلب سے ملانے والی سڑکیں منقطع کر دیں اور مشرقی حماہ میں شیخ ہلال، السعن اور سروج کے دیہات پر کنٹرول حاصل کر لیا۔[33] رات تک باغیوں نے خطاب اور مبارکات کے قصبوں پر قبضہ کر لیا، جب کہ جبل زین العابدین میں لڑائی جاری رہی۔[34]
دن کے اختتام پر باغی افواج حماہ شہر کو تین سمتوں سے گھیرنے میں کامیاب ہو گئیں اور تقریباً چار کلومیٹر دور تھیں۔ مغربی حماہ کے دیہی علاقوں میں، لڑائی لاذقیہ کے علاقے تک پہنچ گئی، جہاں زیادہ تر علویوں کی آبادی ہے۔[35]
حما کی فتح
5 دسمبر کو بشار حکومت کی مخالف افواج حماہ شہر کے شمال مشرقی حصے میں داخل ہوئیں۔ مشرقی جانب بشار حکومت کی حامی افواج کے فضائی حملوں کی اطلاع ملی، ساتھ ساتھ حکومت مخالف افواج کا مقابلہ بھی ہوا۔[36]ترک حمایت یافتہ "سلطان سلیمان شاہ" ڈویژن محمد الجاسم (ابو عمشہ) کی قیادت میں شہر پر کنٹرول کے لیے لڑائی میں شامل ہوگیا۔[8]
اسی دن سوری عرب فوج (SAA) کی افواج حماہ شہر سے پیچھے ہٹ گئیں۔ باغی افواج حماہ کی مرکزی جیل میں بھی داخل ہوئیں اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کر دیا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بشار سامراج نے انھیں "بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا۔"[37][38] دوپہر تک بشار حکومت کی مخالف افواج نے شہر اور ملحقہ فوجی ہوائی اڈے پر مکمل کنٹرول قائم کر لیا۔[2][5] ایک بیان میں، بشار الاسد حکومت نے کہا کہ حکومت مخالف افواج کے "شہر کے کئی حصوں میں گھسنے" کے بعد "شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے" کے لیے اس کی "فوجی دستوں کی نئی پرابندی کر کے ان کو دوسری جگہ تعینات کر دیا گیا ہے"،[37][38] اور حماہ کے رہائشیوں کی "بڑی" تعداد شہر سے ہجرت کر گئی۔[5]
ما بعد بشار حکومت مخالفین کی پیش قدمی
5 دسمبر 2024ء کو حکومت کی حامی افواج سلمیہ اور تلبیسہ کے شہروں سے حمص شہر کی طرف واپس چلی گئیں، حماہ سے ان کے انخلاء کے چند گھنٹے بعد باغی سابقہ قصبوں کے مضافات میں پہنچ گئے۔[39] شام کے وقت بشار حکومت کی مخالف افواج شہر کے عمائدین اور مذہبی اسماعیلی کونسل کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد بغیر لڑائی کے سلمیہ میں داخل ہو گئیں۔[3]