عبد اللہ بن نافع صائغ

محدث
عبد اللہ بن نافع صائغ
 

معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
رہائش مدینہ منورہ
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو محمد
لقب الصائغ
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد مالک بن انس ، اسامہ بن زید لیثی ، ابن ابی ذئب ، داؤد بن قیس الفراء
نمایاں شاگرد محمد بن عبد اللہ بن نمیر ، زبیر ابن بکار ، ابن طبری ، یونس بن عبد الاعلی
پیشہ محدث
شعبۂ عمل روایت حدیث

عبد اللہ بن نافع صائغ (120ھ - 206ھ) ، آپ ایک محدث ، فقیہ اور حدیث نبوی کے راوی تھے، جو دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے۔ وہ حفظ میں نرم مزاج اور ثقہ تھے اور وہ امام مالک بن انس سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے شیخ کے عقیدہ کی طرف توجہ کرتے تھے اور ان میں کوئی خامی نہیں تھی۔آپ کی وفات 206ھ میں رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی۔ [1]

نام ونسب

عبد اللہ نام،ابو محمد کنیت اوروالد کا اسم گرامی نافع تھا،مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے،بنو مخزوم سے نسبت ولاء رکھنے کے باعث مخزمی مشہور ہوئے،ممتاز ائمہ میں ان کی ہم نام ایسی شخصتیں ملتی ہیں جن کے باپ کا نام بھی نافع تھا،اس لیے اکثر اوقات علما کو ثقاہت وعدالت اور علم و فضل کی تعیین میں خلط مبحث ہو گیا ہے،اس لیے امام عبد اللہ بن نافع کو "الصائغ"کے لفظ سے ممتاز کیا گیا ہے،مؤرخ ابن اثیر کی رائے کے مطابق الصائغ یا الصائغی کی نسبتیں رکھنے والے تمام ائمہ "صیاغہ" کی طرف منسوب ہیں۔ [2]

ولادت

آپ کی پیدائش ایک سو بیس ہجری (120ھ) میں ہوئی۔

شیوخ

حضرت محمد بن عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ کی طرف اٹھے اور شہید کر دیے گئے، اسامہ بن زید لیثی، مالک بن انس، ابن ابی ذہب، سلیمان بن یزید الکعبی، صاحب انس ، کثیر بن عبداللہ بن عوف، داؤد بن قیس الفراء وغیرہ، اور وہ وہ شخص نہیں ہے جو اس پر بات کرتا ہے، لیکن وہ فقہ میں ماہر تھا۔ [3]

تلامذہ

راوی: محمد بن عبداللہ بن نمیر، احمد بن صالح، سہنون بن سعید، سلمہ بن شبیب، حسن بن علی خلال، یونس بن عبد الاعلی، محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، زبیر بن بکار، احمد بن احسن ترمذی اور کئی دوسرے محدثین۔

جراح اور تعدیل

مدینہ کے سب سے ممتاز فقہاء میں سے ایک قاضی عیاض نے اپنے تبصروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اپنی کتاب المدارک کے شروع میں ان کا ذکر کیا۔ ابو طالب نے احمد بن حنبل سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: وہ امام مالک کا قول تھا(یعنی ان کی بات امام مالک کی بات ہوتی تھی) ۔ وہ اہل مدینہ پر فتویٰ جاری کرتے تھے، لیکن وہ حدیث کے راوی نہیں تھے، لیکن ان کی حدیث محدود تھی۔ یحییٰ بن معین نے کہا: ثقہ ہے۔ بخاری نے کہا: جانو اور انکار کرو۔ ابو حاتم نے کہا: وہ حفظ میں نرم ہے، اور اس کی کتاب زیادہ صحیح ہے۔امام نسائی نے کہا "لا باس بہ" اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن عدی نے کہا: اس نے مالک کی سند سے عجیب باتیں بیان کیں۔ ابن سعد نے کہا: وہ مالک کے ساتھ بہت سخت تھا۔ [4]

علم و فضل

علمی کمالات کے اعتبار سے وہ کبار اتباع تابعین کے زمرے میں شامل ہیں، امام مالکؒ کے ارشد تلامذہ میں تھے،زمانہ دراز تک امام صاحبؒ کے دامنِ فیض سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان کے فقہی افکار وخیالات کا مخزن بن گئے تھے،علامہ ابن سعد رقم طراز ہیں: کان قد لزم مالک لزوما شدیدا وکان لا یقدم علیہ احد [5] انھوں نے امام مالک کا ساتھ شدت کے ساتھ پکڑا،حتیٰ کہ وہ ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ احمدؒ بن صالح کا بیان ہے: کان اعلم الناس برای مالک [6] وہ امام مالکؒ کے خیالات کو لوگوں میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ ابوداؤدؒ فرماتے ہیں: کان عبد اللہ عالما بمالک وکان صاحب فقہ [7] عبد اللہ بن نافع امام مالک کے مسلک کے سب سے زیادہ عالم اورفقیہ تھے۔

حدیث

ان کی فقیہانہ حیثیت کو اس قدر شہرت نصیب ہوئی کہ اس کے سامنے حدیث میں ان کے تفوق کا چراغ زیادہ روشن نہ ہو سکا ،یہاں تک کہ بعض علما سرے سے انھیں محدث ہی تسلیم نہیں کرتے [8] لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس فن پر بھی انھیں یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کی مرویات کے پایہ استناد پر علماومتفق نہ ہو سکے؛چنانچہ امام احمدؒ بن حنبل اوربخاری اورابو حاتم وغیرہ نے انھیں ضعیف الحافظ قراردیا ہے[9] لیکن اکابر علما کی ایک بڑی جماعت نے جس میں ابن معینؒ ،امام نسائیؒ اورابو زرعہؒ وغیرہ شامل ہیں، انھیں ثقہ اور عدل بتایا ہے [10]ان کی عدالت کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ امام مسلم کے علاوہ ائمہ اربعہ نے ان کی روایت کی تخریج کی ہے [11] ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: کان صحیح الکتاب واذا احدث کان حفظہ بما اخطأ [12] وہ صحیح الکتاب تھے،جب اپنے حافظہ سے روایت کرتے تو اکثر غلطی کرجاتے تھے۔ امام بخاریؒ نے بایں ہمہ تبحر وجلالت علم ان سے دو تین حدیثیں روایت کی ہیں اوران کے فضل وکمال کو سراہا ہے۔

فقہ

امام ابن نافع کو فقہ اوربالخصوص فقہ مالکی میں خاص مہارت حاصل تھی اور اسی کمال تفقہ کے باعث وہ مدینہ میں افتاء کے مرجع تھے[13]یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں کہ ابن نافعؒ کے پاس امام مالکؒ کے چالیس ہزار مسائل تھے۔ [14]

وفات

ان کی وفات ایک سو چھیاسی میں ہوئی۔ میں نے کہا: یہ ان کی وفات کے بارے میں کہا گیا تھا، اور جو زیادہ صحیح ہے وہ ہم بعد میں ذکر کریں گے۔ ابن سعد نے کہا: آپ کی وفات دو سو چھ ہجری میں رمضان المبارک میں ہوئی۔ میں نے کہا: یہ اس کی موت کے بارے میں صحیح ہے اور باقی سب وہم اور غلط بیانی ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. سير أعلام النبلاء، الطبقة الحادية عشرة، ج10 ص371.
  2. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/48)
  3. (طبقات ابن سعد:5/324)
  4. سير أعلام النبلاء، الطبقة الحادية عشرة، ج10 ص371.
  5. (طبقات ابن سعد:5/324)
  6. (العبر فی خبر من غبر:1/349)
  7. (تہذیب التہذیب:6/52)
  8. (العبر:1/349)
  9. (تہذیب،التہذیب :6/51)
  10. (میزان الاعتدال:2/82)
  11. (خلاصہ تذہیب :216)
  12. (تہذیب :6/51)
  13. (شذرات الذہب:2/52)
  14. (تہذیب :6/52)
  15. (طبقات ابن سعد:5/324)

Strategi Solo vs Squad di Free Fire: Cara Menang Mudah!