حضرت یعقوب بن اسحاق حضرمیؒ کا شمار تبع تابین میں ہوتا ہے۔
نام ونسب
یعقوب نام، ابو محمد اورابو یوسف کنیتیں تھیں ،پورا نسب نامہ یہ ہے یعقوب بن اسحاق بن زید بن عبد اللہ بن ابی اسحاق [1]حضرمیوں سے نسبت ولاء رکھنے کے باعث حضرمی اوروطناً بصری کہلاتے ہیں۔
مولد
117ھ میں علم وفن کے عالمی مرکز بصرہ میں پیدا ہوئے۔
فضل وکمال
علم و فضل کے اعتبار سے امام یعقوبؒ اتباع تابعین کی جماعت میں نہایت بلند مقام رکھتے ہیں،قرآن حدیث،فقہ اورنحو میں ان کو کامل دسترس حاصل تھی،خصوصاً فن قرأت میں اپنی مہارت وکمال کے باعث قراء عشرہ میں شمار ہوتے ہیں،بصرہ میں امام القراء ابو عمرو بن العلاء کے بعد باتفاق امت شیخ الفن تسلیم کیے گئے،ابن عماد الحنبلی "احدالاعلام" لکھتے ہیں [2]علامہ یاقوت رومی رقمطراز ہیں:
الامام فی القرات والعربیۃ ولغۃ العرب والفقہ
[3]
وہ قرأت ،عربیت لغت اور فقہ میں امام تھے۔
حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
کان اعلم الناس فی زمانہ بالقرات والعربیۃ وکلام العرب والروایۃ والفقہ
[4]
کلام عرب،حدیث اورفقہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔
ابو حاتم سجستانی جنہیں امام یعقوب الحضرمی سے تلمذ کا شرف حاصل ہے،بیان کرتے ہیں کہ:
کان اعلم من ادرکنا ورأینا بالحروف والاختلاف فی القرآن الکریم وتعلیلہ ومذاھبہ وامذاھب النحوبین فی القرآن الکریم
[5]
جن شیوخ کو ہم نے دیکھا اوران کی صحبت اٹھائی ان میں امام یعقوب اختلاف قرآن اس کی تعلیل اورمذاہب اور قرآن میں نحویوں کے مسالک کے سب سے بڑے عالم تھے۔
قرأت
ان کی کلاہِ افتخار کا اصل طرۂ امتیاز فن قرأت میں غیر معمولی مہارت تھی، صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین اور تبع تابعین عظامؒ کے طبقہ میں صاحب اختیار ائمہ قرأت کی تعداد بکثرت ہے،بقول امام ابو محمد مکی قراء سبعہ نے جن ائمہ قرأت سے روایت کی،صرف انھی کی تعداد ستر ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اختیار قرأت کا جو سلسلہ صدیوں کے عرصہ پر محیط رہا ہو،اس میں کس قدر بے شمار ماہرین فن پیدا ہوئے ہوں گے۔
لیکن ان تمام روایات میں صرف دس قرأتیں متواتر قرار پائیں،اوران میں بھی حسنِ قبول اورشہرتِ عام کی سند سات قرأتوں کے نصیب میں آئی، وہی آج قرأتِ سبعہ کے نام سے مشہور ہیں،دوسری صدی کے اوائل میں فنِ قرأت کے جو مراکز مرجوعہ خلائق رہے، ان میں مدینہ،مکہ ،بصرہ اوردمشق کے نام ممتاز ہیں،قراء سبعہ میں امام ابو عمرو بن العلاء(المتوفی154ھ) سرزمین بصرہ ہی کے لعل شب چراغ تھے اوراسی مردم خیز زمین سے امام یعقوب بن اسحاق بھی پیدا ہوئے جن کی روایت کو اپنی اہمیت وعظمت کی وجہ سے قرأت عشرہ میں آٹھواں مقام حاصل ہوا اورحقیقت یہ ہے کہ امام یعقوب کہ شہرت ومقبولیت کی اساس یہی فن بنا یہاں تک کہ قاری اہل البصرہ اورالمقری ان کے نام کے لازمی جز وبن گئے۔
انھوں نے قرأت کی تحصیل سلام بن سلیمان الطویل،مہدی بن میمون، اورابوالاشہب الوطاروی سے کی اور قراء سبعہ میں امام ششم حمزہ بن حبیب الزیات اورامام ہفتم ابو الحسن علی الکسائی سے نکاتِ فن کی روایت اورسماع کا شرف حاصل کیا اورپھر جب وہ خود بکمال ہوکر مسند قرأت پر جلوہ افروز ہوئے تو حرمین ،عراق اورشام کے اکابر علمائے فن نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا؛چنانچہ ان سے قرأت کی روایت کرنے والوں میں روح بن عبد المومن ،محمد بن المتوکل اورابو حاتم سجستانی کے نام نمایاں ہیں۔
[6]
ابن عماد نے لکھا ہے کہ بصرہ کے تقریبا تمام ائمہ قرأت امام ابو عمرو بن العلاء کے بعد انھی کی روایت کے منبع ہیں [7]تمام تذکرہ نویسوں نے بالاتفاق ان کے صحیفہ کمال کے اس باب کو نہایت واضح طور پر ذکر کیا ہے؛چنانچہ علامہ یافعی رقمطراز ہیں:
انہ کان امام البصرۃ فی عصرہ فی القراءۃ
[8]
وہ اپنے عہد میں اہل بصرہ کے فنِ قرأت میں امام تھے۔
حافظ سیوطیؒ لکھتے ہیں:
ولہ روایۃ مشھورۃ بہ وھی احدی القرأت العشر
[9]
قرأت میں ان کی ایک مشہور روایت ہے اوروہی دس قرأتوں میں سے ایک ہے ۔
علامہ یاقوت رُومی فرماتے ہیں:
ثامن قراء العشرۃ الامام فی القرأتِ
[10]
قراء عشرہ میں آٹھویں نمبر پر وہ فن قرأت کے امام تھے۔
ابو حاتم سجستانی کا بیان ہے کہ جن علما سے ہمیں شرفِ لقاء حاصل ہوا ان میں امام یعقوب الحضرمی قرآن کے رموز ونکات اوراس کے حروف کے اختلافات کے سب سے بڑے عالم تھے۔
[11]
کسی شاعر نے اپنے اشعار میں امام یعقوب کو زمرۂ قراء میں مہر جہاں تاب کے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے جن کا ترجمہ یہ ہے:
(ترجمہ )ان کے والد اورجدامجد ممتاز قراء میں تھے، اوریعقوب تو قراء کے درمیان مہرتاباں کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنے فن میں منفرد ویکتا تھے ان کی نظیر نہ صرف ان کے عہد ؛بلکہ تا قیامت نہ مل سکے گی۔
[12]
علامہ یافعیؒ نے قرأت میں رسول اکرم ﷺ تک امام یعقوب الحضرمی کی سند نقل کی ہے جو اس طرح ہے یعقوب عن سلام عن عاصم عن ابوعبدالرحمن السلمی عن علی عن رسول اللہ ﷺ [13] اس سے ان کے عالی سند ہونے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث
قرأت میں باکمال ہونے کے ساتھ وہ حدیث میں بھی بہرہ وافررکھتے تھے، اس میں انھیں حضرت انس بن مالکؓ،امام شعبہ ،سالم بن عبد اللہ بن عمر، سلیمان بن یسار اورحماد بن سلمہ جیسے یگانہ عصر ائمہ سے تلمذ حاصل تھا،ان کے علاوہ جن لائقِ ذکر شیوخ سے انھوں نے روایت حدیث کی ،ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
زید بن عبد اللہ (جوان کے جد امجد تھے) اسود بن شیبان،سہیل بن مہران سلیمان ابن معاذ الضبی ،زائدہ بن قدامہ،سلیم بن حیان،عبد الرحمن بن میمون ،عقبہ بن عبدالغافر،ابو عقیل الدورقی۔
تلامذۃ
ان کے دامن فیض سے فیض حاصل کرنے والوں میں سفیان ثوریؒ وہیبؒ،یزید بن زریعؒ، عمر بن علی فلاس، اسماعیل بن علیہ،بشر بن الفضل،ہشیم بن بشیر،عبد الاعلیٰ بن مسہر،عقبہ بن مکرم العمی، حسین بن علی الصدائی،محمد بن سیرین اوریحییٰ بن ابی کثیر وغیرہ جلیل القدر علما شامل ہیں۔
[14]
جامعیت
ان کی ذات مختلف علمی وعملی کمالات کا مجموعہ تھی،قرأت وحدیث میں ان کی مہارت کا ذکر گذرچکا ہے،علاوہ ازیں وہ نحو عربیت فقہ اورلغت میں امامت کا درجہ رکھتے تھے،علامہ یاقوت نے لکھا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں نحو کے مختلف مکاتب اوران کے اختلافات کے سب سے بڑے عالم تھے۔
[15]
عبادت میں انہماک
اس علمی تفوق کے ساتھ وہ عمل کا بھی پیکر مجسم تھے،کثرتِ عبادت،زہد وورع اورانابت الی اللہ ان کے خاص اوصاف تھے،نماز میں ان کے انہماک ،خشوع وخضوع کا یہ عالم تھا کہ بارگاہِ ایزدی میں کھڑے ہونے کے بعد پھر انھیں کچھ ہوش نہ رہتا تھا،حافظ سیوطی رقمطراز ہیں:
سُوق رداءہ وھو فی الصلوٰۃ ورد الیہ ولم یشعر لشغلہ فی الصلوٰۃ
[16]
حالت نماز میں ان کی چادر چوری ہو گئی اورپھر واپس بھی آگئی لیکن نماز میں مشغولیت کے باعث ان کو احساس تک نہ ہوا۔
نقد وجرح
امام یعقوبؒ کی عدالت اورثقاہت کے بارے میں علمائے فن کی مختلف رائیں پائی جاتی ہیں،لیکن اکثر جلیل القدر ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ثقہ اورصدوق تھے؛چنانچہ ابن معینؒ،امام نسائی اورابو حاتم مطلقاً ان کی مرویات کو حجت اور سند مانتے ہیں،ابن حبان نے بھی اپنی تصنیف میں ان کا ذکر کیا ہے [17]صرف علامہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ:
لیس ھو عندھم بذک التثبت یذکرون انہ حدث عن رجال لقیھم وھو صغیر
[18]
وہ تثبت میں بلند پایہ نہیں تھے علما کا خیال ہے کہ انھوں نے ان شیوخ سے روایتیں کی ہیں جن سے وہ صغر سنی میں ملے تھے۔
صاحب طبقات کے اس بیان کا ضعف اس طرح واضح ہے کہ انھوں نے "یذکرون" کے قائلین کومجہول ونامعلوم کر دیا ہے۔
تصنیف
وہ صاحبِ تصنیف بھی تھے، علامہ یاقوت اورخیر الدین زر کلی نے ان کی دو کتابوں کا ذکر کیا ہے،کتاب الجامع،وقف التمام،اول الذکر میں مصنف نے وجوہِ قرأت کے اختلافات کو جمع کیا ہے۔
[19]
وفات
یعقوب بن اسحاق الحضرمی کی وفات بصرہ میں سنہ 205ھ) میں ہوئی۔
حوالہ جات
- ↑ (معجم الادباء:7/302 وبغیۃ الوعاۃ :418)
- ↑ (شذرات الذہب:2/14)
- ↑ (معجم الادباء:7/302)
- ↑ (بغیۃ الوعاۃ :418)
- ↑ (مرأۃ الجنان:2/30)
- ↑ (مرأۃ الجنان:2/30)
- ↑ (شذرات الذہب:2/14)
- ↑ (مرأۃ الجنان:2/31)
- ↑ (بغیۃ الوعاۃ:418)
- ↑ (معجم الادباء:2/302)
- ↑ (شذرات الذہب:2/14)
- ↑ (البغیۃ الوعاۃ:418)
- ↑ (میزان الاعتدال:2/30)
- ↑ (معجم الادباء:7/302)
- ↑ (معجم الادباء:7/302)
- ↑ (بغیہ الوعاۃ:418)
- ↑ (تہذیب التہذیب:11/382)
- ↑ (طبقات ابن سعد:7/55)
- ↑ (معجم الادباء:7/302)