یوں تو ملت تشیع نے قیام پاکستان کے بعد انفرادی سطح پر اس ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جزوی طور پرتشیع اور مذہب جعفریہ کو در پیش مسائل کے حل کے لیے بھر پور سعی کی۔ مختلف تنظیموں، انجمنوں، شیعہ کانفرنس[1] اور ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان وغیرہ کے نام سے کوششیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد مرحوم علامہ سید محمد دہلوی کی قیادت میں شیعہ مطالبات کمیٹی کا وجود عمل میں آیا۔ لیکن 12 آپریل 1979ء سے باقاعدہ جماعتی سطح پر منظم انداز میں قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں کا م کا آغاز کیا۔
تاسیس کا سبب
اس کے قیام کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مرحوم ضیاءالحق نے اسلامائزیشن کا اعلان کیا اور بعض مبہم اعلانات کیے جن سے اہل تشیع میں خدشات پیدا ہوئے کہ ان پر ایک مخصوص فقہ اور نظریات مسلط کیے جا رہے ہیں اس طرح قانون سازی میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی۔[2]
بھکر کی سر زمین سے چلنے والے اس عظیم قافلے کی قیادت چونکہ براہ راست علمائے حقہ کے پاس تھی اس لیے تمام طبقات نے مل کر جدوجہد کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔
یوں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے نام سے ایک جماعت معرض وجود میں آئی شیعہ نمائندگان اور قائد مرحوم نے انقلاب اسلامی ایران سے قبل ملت جعفریہ پاکستان کے حقوق و مسائل کے لیے آواز بلند کی ملک میں وحدت بین المسلمین کے لیے گرانقدر خدمات کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے لیے بھی جدوجہد کی 6۔
نصب العین
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک متقی اور مدبر عالم دین کی قیادت میں انسانیت کے لیے دین اسلام کی صداقتوں کو اجاگر کرنا نیز نظام زندگی کو اسلامی عدل کی بنیادوں پر استوار کرنا۔7
اغراض و مقاصد
1۔ پاکستان میں ہر سطح پر اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کی کوشش۔
2۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام موجودہ اور آئندہ نافذ ہونے والے دستور و قوانین میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے لیے ان کے مسلمات کے مطابق قانون سازی بالخصوص اہل تشیع کے لیے فقہ جعفریہ کے مطابق قوانین کے نفاذ کی جدوجہد۔
3۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اہل تشیع کے جملہ آئینی اور قانونی ،مذہبی،بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد ۔
4۔ عزاداری امام حسینؑ کا فروغ، تحفظ اور تعلیمات محمدؐ و آل محمد ؑکی تبلیغ اور اور ترویج کے لیے عملی اقدامات۔
5۔ دینی تعلیمی مراکز کا قیام ، تعلیمی اور تبلیغی اداروں میں ہم آہنگی اور ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے حوزہ علمیہ کا قیام نیز مروجہ تعلیمی ، فنی اداروں اور یونیورسٹی کا قیام ۔
6۔ سامراجی اور استعماری قوتوں کے خلا ف جدوجہد نیز تمام ایسی تحریکوں اور تنظیموں سے تعاون کرنا جو تحریک کے مقاصد کے حصول میں معاون و مددگار ہوں۔
7۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے عملی جدوجہد۔
8۔ پاکستان میں لسانی ،مذہبی اور علاقائی تعصب کے خاتمہ کے لیے ہر ممکن جدوجہد۔
9۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے تمام معاشرتی ،سماجی برائیوں اور غیر اسلامی شعائر کے خلاف جہاد ،اسلامی اقدار کا فروغ اور اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کی اصلاح ۔
10۔ ملت اسلامیہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے لیے مناسب اقدامات۔
11۔ یتامیٰ،مساکین اور معذور و مستحق افراد کے لیے فلاحی اداروں کا قیام ۔
12۔ پاکستان میں تمام اقلیتوں کے جائز حقوق کا تحفظ۔ 8
اسلام آباد کنونشن 1980
تحریک کوکسی گروہ ،فرقہ، جماعت یا مسلک کے خلاف قرار دینا یا اس کا مقصد پورے ملک پر فقہ جعفریہ کا نفاذ ،قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔جہاں تک نفاذ اور پرسنل لا کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں تحریک کا موقف ہے کہ مسلمانوں کی کوئی فقہ ایسی نہیں ہے جو یہ لازم قرار دیتی ہو کہ اس فقہ کی حکمرانی میں دوسری فقہ کے لیے پرسنل لا ہو گا۔9
لیکن یہ چونکہ مارشل لا دور کی ابتداتھی اس وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹراپنی اور اپنے آقاؤں کی پسند کااسلام نافذ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا ملت جعفریہ کی قیادت نے اسے باور کرایا کہ پاکستان میں اہل تشیّع کی موجودگی میں استعماری طرز فکر کواسلام کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کے مسلمانوں کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔اور نہ ہی کسی پر اپنی مرضی مسلط کی جا سکتی ہے۔اس سلسلے میں 6 جولائی 1980 م کو پارلیمنٹ ہاوس کا گھیراؤ اور اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے تحریک کے کارکنان کا مظاہرہ تاریخ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو گیا۔اور آج تک جب بھی کوئی گروہ اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے تو لا محالہ اس عظیم الشان مزاحمت کو یاد کرنا پڑتا ہے وہ صرف زکوٰۃ آرڈینس کے خلاف مظاہرہ نہ تھا بلکہ پاکستان میں موجود تمام قومی مسائل سے نجات اور عزاداری کے تحفظ کے لیے پہلا قدم تھا ۔ اگرچہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دینے کا فیصلہ غلط فہمی پر مبنی تھا لیکن اس سے یہ تاثر نہیں لینا چاہیے کہ شیعہ زکوٰۃ دینا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر تھا جس کی روشنی میں وہ زکوٰۃ دینا چاہتے تھے۔10 زکوٰۃ کی مخالفت تو مولانا مفتی محمود مرحوم نے بھی کی تھی۔11، ان حالات میں جائزہ لیا گیا کہ موجودہ صورت حال میں ہمارے طے شدہ مقاصد شاید حل نہ ہو سکیں۔لہذا قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے محسوس کیا کہ جب تک جمہوریت کی بحالی نہیں ہو گی تب تک مذہبی حقوق کا تحفظ بھی ممکن نہیں پھر انھوں نے اپنے آخری انٹرویو میں بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شمولیت کا اعلان کیا یوں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بحالی جمہوریت کے اس کاروان میں شامل ہو گئی۔12
قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں یہ کاروان مکمل یکسوئی کے ساتھ 1983 م تک چلتا رہا ۔ لیکن 29 اگست 1983 م کو قائد ملت مختصر علالت کے بعد دار فانی سے دار ابدی کی طرف کوچ کر گئے۔13 جس کے بعد ملت کے علمائے کرام اور زعماء نے مل کر اس منصب کے لیے علامہ سیّد عارف حسین الحسینی کا انتخاب کیا یقیناً بھکر میں ہونے والا یہ فیصلہ مبنی بر حق اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔اس طرح از سر نو شہید قائد کی قیادت میں ملت خیرالبریہ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔14
مفتی صاحب کے آخری اعلان کو سامنے رکھتے ہوئے شہید نے اس وقت کی صورت حال کے تناظر میں اپنے اہداف متعین کیے اور مذہبی حقوق کی جدوجہد بھی بھر پور طریقے سے شروع کی۔شہید قائد نے جہاں مارشل لا دور میں حکومتی ،سرکاری اور عالمی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تشیّع پاکستان کو عالمی سطح پر متعارف کرایا وہاں اپنی تنظیم کو پھیلانے ،تنظیمی سٹرکچر کی مضبوطی اور ملت کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے زبر دست اقدامات کیے۔عوامی رابطہ مہم تیز کر کے براہ راست لوگوں سے مربوط رہے۔اور ملت کے اندر تحریک کے وقار و عزت کو مزید بلند کیا۔پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔وطن عزیز کے اندر استعماراور اس کے گماشتوں کو پوری طرح بے نقاب کیادین مبین اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش کا بھر پور جواب دیا۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے انتہائی مخلصانہ کوششیں کیں۔ سامراج کی بالا دستی کے خاتمے ،آزادی واستقلال کے تحفظ ،جمہوریت کی بحالی، عادلانہ نظام کے قیام،شہری آزادیوں اور عوامی حقوق کے تحفظ اور اس کے دوسرے اہداف پر زبر دست انداز میں کام کیا۔پاکستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کے ساتھ بہترین روابط استوار کیے اور اس طرح ملت تشیّع کو قومی دھارے میں لا کھڑا کیا۔15 اس حوالے سے بحالی جمہوریت کی تحریک ہو یا ائر مارشل اصغر خان،جناب علامہ طاہر القادری کے ساتھ اشتراک عمل ،مرحوم جناب محمدخان جونیجو،ائر مارشل اصغر خان اورعلامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے ساتھ اتحاد کے لیے پیش قدمی ہو یا پی ڈی اے میں شمولیت،آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت ہو یا دینی جماعتوں کا فورم تحریک نے ایک بھر پور سیاسی عمل انجام دیا اور ان سیاسی قوتوں کا ساتھ دیا جو سامراجی بالا دستی کے خاتمہ،جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل رہیں 16۔ تحریک نے 1988 م سے انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا۔17
علامہ عارف حسین الحسینی ؒتحریک جعفریہ کی انہی سرگرمیوں اور جانفشانی کے سبب عالمی استعمار اور ان کے پاکستانی ایجنٹوں کی آنکھوں کا کانٹا بنے رہے۔ آخرکار 5 اگست 1988 م کو پشاور میں انھیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔18
قائد کی شہادت کے بعد ایک بار پھر قوم یتیم ہونے لگی تو علمائے کرام آگے بڑھ کر ملت کے سرپر دست شفقت رکھا اور سرپرستی کا حق ادا کرتے ہوئے تحریک کے آئینی اداروں سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کے ذریعے علامہ سید ساجد علی نقوی کو اس قوم کا سربراہ وسرپرست اور ملت کا قائد منتخب کیا۔ 19 اس دن سے آج تک قائد ملت جعفریہ،نمائندہ ولی فقیہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں تحریک جعفریہ پاکستان سرگرم عمل ہے۔قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں جب تحریک کا آغاز ہوا تھا تو قائد ملت علامہ سیدساجدعلی نقوی نے تحریک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔اور سپریم کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ایم آر ڈی،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحادوں میں تحریک کی نمائندگی کرتے رہے۔ قائد شہید نے جب تحریک کی قیادت سنبھالی تو ان کے ساتھ بطور سینئر نائب صدر کام کیا۔ 20 ان کی قیادت میں جہاں تحریک تلخ اور مشکل ترین مراحل سے گذری وہاں بے انتہا کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔پاکستانی سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے طوفانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا۔
نام کی تبدیلی
ابتدا میں تحریک کے اہداف محدود تھے۔پھر تحریک نے اپنے اہداف ومقاصد میں وسعت اختیار کی اور وسیع مفہوم میں ایک دینی جماعت کے عنوان سے کام شروع کیا۔ظاہری بات ہے جب اہداف وسیع ہوں گے تو نام میں بھی وسعت لانا ہو گی۔اسی وجہ سے تحریک کے مرکزی رہنماؤں نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے الفاظ الگ کر کے تحریک جعفریہ کے نام سے کام جاری رکھا۔21 اور قومی آزادی و استقلال کے تحفظ،پاکستان میں سامراج کے اثر ونفوذ کے خاتمے،ظلم،استحصال اور طبقاتی تفریق کے خاتمے،وطن عزیز میں عادلانہ نظام کے قیام، مختلف مکاتب فکر کے درمیان وحدت اور پاکستانی عوام کے درمیان بھائی چارے کے لیے جدوجہد شروع کی۔یہ وہ مرحلہ تھا جب تحریک جعفریہ نے انقلاب اسلامی ایران کے عالمگیر اور آفاقی پیغام سے استفادہ کیا اور رہنمائی حاصل کی یہ رہنمائی عالم اسلام میں بہت سی اسلامی تحریکوں نے حاصل کی جن کا تعلق اہل تشیّع سے نہیں ہے22 کامیابیاں اور امتحانات کا یہ سلسلہ ابھی تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے۔جس کی انتہائی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ:
شہدا کے لواحقین کی امداد
شہدائے راہ اسلام کی تعداد پاکستان میں ہزاروں میں ہے جن کے خاندانوں کی سرپرستی ،بچوں کے تعلیمی اخراجات کے علاوہ شہدا کے مقدمات کی پیروی کر کے قوم کے سروں سے مایوسی دور کر کے اور انھیں تاریک دور سے نکال کر روشن مستقبل کی ضمانت دی جا رہی ہے۔مقدمات کے علاوہ اس کام پر ماہانہ لاکھوں روپے صرف ہو رہے ہیں۔شہدا کے بچوں کی شادیوں اور علاج معالجے کے سلسلہ میں مناسب مدد کی جاتی ہے۔23 اس کے علاوہ پاراچنار اور کراچی کے شہدا کے ورثاءسے کی گئی امداد تو کروڑوں میں ہے۔24
عدالتی مقدمات
مذہبی و ملی وقار کی سربلندی کے لیے مقدمات میں مبتلا بے گناہ اوربے سہارا مومنین کی ہر طرح سے قانونی اور مالی امداد کرکے ملت کے حوصلوں کو سر بلند رکھا جا رہا ہے۔اگر خدانخواستہ امداد نہ کی جاتی تو لوگ انتہایی مایوسیوں کا شکار ہو جاتے۔اس وقت پاکستان کے تمام صوبوں اور آزاد کشمیر سمیت سینکڑوں مقدمات زیر کارروائی ہیں۔اس وقت مقدمات کے سلسلے میں وکلا کی فیس،مدعیان کی فیس،مدعیان کے اخراجات،دیگر عدالتی اخراجات بھی تحریک کی طرف سے ہو رہے ہیں۔1989 م سے لے کر اب تک اس مد میں کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔مقدمات دو قسم کے ہیں ایک وہ جو ملت جعفریہ نے اپنے شہداء و کارکنان کی طرف سے مخالف فریق پر درج کرائے ہوئے ہیں۔ دوسرا وہ جو مخالف فریق نے ملت کے بے گناہ افراد، کارکنان اور مومنین پر بنائے ہوئے ہیں۔ہر دو قسم کے مقدمات کی پیروی اور اخراجات تحریک جعفریہ ادا کرتی ہے۔ 25
پاکستان ایجوکیشنل کونسل
موجودہ ترقی یافتہ دورکے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اکیسویں صدی میں ملت جعفریہ کو با عزت بنانے کے لیے اور قوم کو جہالت سے نکالنے کے لیے علامہ ساجد علی نقوی کی ہدایت پر ایک آزاد اور غیر سیاسی ادارہ .C.E.P﴿پاکستان ایجوکیشنل کونسل﴾ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔جو ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں بھی محروم اور پسماندہ عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہے اس ادارے کے تحت تقریباً 30 اسکول چل رہے ہیں۔اس کونسل کے زیر انتظام مختلف تعلیمی اداروں کا قیام قومی زندگی کے لیے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔تمام اسکولوں کی تفصیل کے لیے تو علاحدہ ایک اور مقالے کی ضرورت ہے لیکن میں یہاں ایک دو کا ذکر کرتا ہوں۔شمالی علاقہ جات میں تحریک کے ایک اسکول کا آسٹریلیا کے سیاحوں نے دورہ کیا تو پاکستان کے ایک گاؤں میں اتنا معیاری اسکول دیکھ کر حیران رہ گئے اور انھوں نے اپنے ملک کی ایک فلاحی آرگنائزیشن کے ذریعہ اس اسکول کو پانچ لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔تحریک جعفریہ کی سرپرستی میں قائم انڈس ماڈل اسکول ماڑی انڈس ضلع میانوالی کے لیے 30 کنال اراضی خریدی گئی ہے۔ 26
سیاسی فعالیت
پاکستانی سیاست میں تحریک جعفریہ نے 1988 م کے انتخابات میں تختی کے نشان سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ عملی طور پر اس سے قبل مارشل لا دور سے ایم آر ڈی کی تحریک میں شمولیت ہی تحریک جعفریہ کی سیاسی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔انتخابات میں شرکت کے ساتھ تنظیمی طور پر اور عوامی سطح پر تحریک نے سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیا۔دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ سامراج کے اثر و رسوخ کو روکنے میں تحریک جعفریہ نے اہم کردار ادا کیا اور اسلحہ کے استعمال کے بغیر عوامی طاقت سے اپنے مقاصد حاصل کیے اور سامراجی قوتوں کے ناجائز کاموں کو روکا ہے۔اسرائیل جیسی غاصب حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف،گوادربندرگاہ کا مسئلہ،سیسمک سینٹر،امریکیوں کو برتھیں دینے کا معاملہ،ایمل کانسی اور ایاز بلوچ کی گرفتاری،اغیار کی ثقافتی یلغار،دہشت گردی کے خلاف جہاد،ملک میں امن وامان کے قیام اور وحدت و اخوت کا قیام کے سمیت تحریک جعفریہ نے کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔یہ تمام جمہوری اور عوامی انداز میں کیا۔27 مذکورہ معاملات اور ان جیسے دیگر تمام مسائل میں عوامی آواز نے تحریک کا بھر پور ساتھ دیا۔ 1992 میں تحریک کے منیر گیلانی وزیر تعلیم رہے ہیں۔28، اور1992 میں تحریک کا لانگ مارچ بھی تاریخ پاکستان کے سینے میں ثبت ہو چکا ہے۔ 29، 1993 کے انتخابات میں تحریک کے امیدوار مخدوم مرید کاظم صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہوئے جو بعد میں صوبائی وزیر بنے۔30، شمالی علاقہ جات میں 1994 کے الیکشن میں تحریک جعفریہ نے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔31، پھرعوام کی بھر پور توجہ ملنے کے بعد 1997 م کے انتخابات میں تحریک جعفریہ کے لا فانی اور بے مثال کردار نے پاکستانی سیاست میں انقلاب برپا کیا تھا۔اور کئی سالوں سے غلامی میں کاسٹ ہونے والا ووٹ اپنے قائد کے حکم پر یکجا کاسٹ ہوا تھا اور مسلم لیگ ﴿ن﴾ کی حکومت کے بھاری مینڈیٹ اور پی پی پی کی حکومت کی بد ترین شکست کا واحد سبب بنا ۔ اور سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق کو بھی تحریک کے کینیڈیٹ امان اللہ سیال نے شکست دی تھی۔اُس وقت تحریک جعفریہ نے پاکستان کے اعلی ٰپارلیمانی اداروں سینٹ و قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کی۔32 اور پارلیمانی سطح پر قوم کے مسائل کے حل کے لیے ممکنہ جدوجہد جاری رکھی۔1999 میں شمالی علاقہ جات کے انتخابات میں تحریک کے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ 33 اور 2000 کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹوکے انتخابات میں تحریک کے امیدوار حاجی فدا محمد ناشادبلا مقابلہ جیتے تھے۔34، 2001 میں تحریک کے شیخ غلام حیدر اور عمران ندیم وزیر مشاور کے عنوان سے منتخب ہوئے۔35، آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی تحریک کی کارکردگی نمایاں رہی ہے،خواتین کی مخصوص نشستوں میں بھی تحریک کی نمائندگی رہی ہے۔اس کے علاوہ تحریک کی متحدہ مجلس عمل میں شمولیت بھی تاریخ تشیع میں سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔36
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط
اس وقت پاکستان کی تمام مقتدر سیاسی قوتوں سے تحریک کے روابط موجود ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات اور قومی و بین الاقوامی مسائل پر گفت و شنید کا سلسلہ اس ملی پلیٹ فارم کے وجود کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتا ہے۔37
اسٹوڈنٹس سے تعاون
نو نہالان ملت ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔اگر ان کی تربیت خالصتاً شرعی اسلامی اور جدید تعلیمی بنیادوں پر کی جائے تو قومیں اپنی منزل فوراً پا لیتی ہیں۔اس وقت قوم کے نو جوان طلبہ و طالبات کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے کے وظائف ارسال کیے جاتے ہیں۔یقیناً وظائف کا اجرا تحریک کا ایک بہترین کارنامہ ہے۔38
بین الاقوامی رول
بین الاقوامی مسائل پر بر وقت اپنے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی دنیا بھر میں چلنے والی اسلامی تحاریک اور اداروں (حزب اللہ،مجلس اعلی اسلامی عراق،حماسفلسطین،حرکت اسلامی اور حزب وحدت افغانستان،مجمع تقریب بین المذاہب،مجمع جہانی اہل بیت،المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی وغیرہ) سے مکمل ہم آہنگی بھی تحریک کا ایک لازوال کارنامہ ہے ساتھ ہی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کروڑوں شیعیان حیدر کرار سے مسلسل رابطہ اور ان کے مسائل غم و خوشی میں شرکت بھی اس پلیٹ فارم کی ضرورت و افادیت کو واضح کرتا ہے۔39
شعبہ جات
تحریک جعفریہ پاکستان ایک عالمی تحریک کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ تنظیم بھی ہے۔جس کے یونٹ شہر سے لے کر دیہاتوں تک پھیلے ہوئے ہیں اس کے شعبہ جات پوری آب و تاب کے ساتھ قومی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے مصروف ہیں۔ملازمین کا شعبہ ﴿اسلامک ایمپلائز﴾ اساتذہ کا شعبہ ﴿آئی ٹی او﴾نوجوانوں کا شعبہ﴿جعفریہ یوتھ﴾،اسٹوڈنٹس کا شعبہ ،جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(طلبہ وطالبات)،خواتین کی تنظیم،قانونی امداد کا شعبہ اور سب سے اہم تبلیغات اسلامی کا شعبہ ،یہ تمام شعبہ جات اپنی فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ 40 ، ہر شعبہ کے لیے علاحدہ علاحدہ تفصیل کی ضرورت ہے۔
چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اورگلگت وبلتستان میں تحریک جعفریہ کی مکمل تنظیم موجودہے۔ اورتحریک جعفریہ ، پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کی شاخیں پورے پاکستان میں ہر ضلع میں موجود ہیں۔تمام اضلاع ،ڈویژن ،صوبے اپنی حد تک بھر پور کام کر رہے ہیں۔41
اندرون ملک تنظیم سازی کے علاوہ تحریک نے بیرون ملک مقیم مومنین کو باہم مربوط کرنے کے لیے بھی شعبہ جات قائم کیے ہیں۔اب تک شام،ایران،لبنان،برطانیہ ،امریکا ،بیلجئم، کویت،دوبئی وغیرہ میں شعبہ جات اور نمائندگان مقرر کیے جا چکے ہیں جو نہایت مستعدی سے قومی فرائض انجام دے رہے ہیں۔42
شعبہ اطلاعات
تحریک کے شعبہ اطلاعات کے ذریعے اپنا موقف ملکی اور غیر ملکی میڈیا تک پہنچانے کا کام جاری ہے۔ اخبارات میں پریس ریلیز، مرکزی و صوبائی نمائندگان کی پریس کانفرنسیں،ائمہ معصومین کے ایام ہائے ولادت و شہادت کے موقع پر تقاریب کا اہتمام اور میڈیا کے ذریعے ان کی تعلیمات کو روشناس کرانا بھی اس شعبے کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔43
آڈیو، وڈیو کا شعبہ
تحریک کا آڈیو ،وڈیو کا شعبہ بھی باقاعدہ کام کر رہا ہے۔جس میں سینکڑوں کی تعداد آڈیو ،وڈیو اور سی ڈیز کے ذریعے عوام کو تحریک کی کار کردگی ،تعلیمات محمدؐ و آل محمد ؑسے شناسائی اور علمائے کرام کے دروس و مجالس سے آگاہی دی جاتی ہے۔44
مرکزی اور سپریم کونسلز
تحریک جعفریہ پاکستان کا اعلی ٰ اختیاری ساز ادارہ مرکزی کونسل ہے جو ایک اسمبلی کی حیثیت رکھتا ہے۔جس کے ساڑھے تین سو سے زائد ارکان ہیں ملت کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اس میں موجود ہیں۔سینٹرل کمیٹی پالیسیوں پر عمل درآمد کا ذمہ دار ادارہ جبکہ مرکزی کابینہ،صوبائی کابینائیں، ڈویژن، اضلاع، تحاصیل اوردیہی یونٹس مختلف سطح پر اس پلیٹ فارم سے شب و روز کام کرنے میں مصروف ہیں۔سیاسی امور مرکزی کابینہ انجام دیتی ہے جب کہ دفاع ملت کا عمل بھی پوری قوت سے جاری ہے ان تمام اداروں کی نگرانی کے لیے سپریم کونسل موجود ہے۔جس کا کام مرکزی کونسل کے فیصلہ جات کی توثیق کرنا،دستور پر عمل درآمد پر نظر رکھنا اور قومی بحرانوں کو حل کرنے کے لیے کردار اداکرناہے۔45
مرکز مطالعات اسلامی پاکستان
موجودہ دور میں جب ایک عام انسان بھی علمی انداز میں گفتگو پسند کرتا ہے اور دلائل طلب کرتا ہے۔اس ضرورت کے پیش نظر تحریک کی طرف سے کتب کی نشر و اشاعت کے ذریعے دشمنان دین کی کسی بات کو بے جواب نہیں چھوڑا جاتا۔اس اہم کام کے لیے ایک ادارہ ”مرکز مطالعات اسلامی پاکستان “کے نام سے کام کر رہا ہے۔جس کے تحت متعدد کتابوں کے علاوہ ایک تاریخی نوعیت کی منفرد اور پاکستان کی تاریخ میں اپنے انداز کی پہلی کتاب ” تحقیقی دستاویز “ شائع کی گئی ہے۔جس نے دشمنان تشیع کے دانت کھٹے کر دیے ہیں اور ان کے ہی اکابرین کی کتب کے حوالہ جات اخذ کر کے مکتب تشیع کے تحفظ کا سامان فراہم کیا ہے۔یہ کتاب صدر پاکستان سے لے کر انتظامیہ کے اعلیٰ افسران تک پہنچائی جا چکی ہے۔46
سپریم کورٹ میں شیعہ حقوق کا تحفظ
دشمن نے مکتب محمدؐو آل محمدؑ کے خلاف اپنی سازشوں کو جاری رکھتے ہوئے قانونی میدان میں ملت جعفریہ کو چیلنج کیا اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے پے در پے سنگین واقعات بھی ہوئے استعمارکی کوشش تھی کہ تحریک جعفریہ کو فرقہ وارانہ جماعتوں میں کھڑا کرے۔تحریک جعفریہ نے اس سلسلہ میں ارباب اقتدار کو متوجہ کرنے کے لیے انھیں یادداشتیں بھجوائیں۔صدر پاکستان،وزیر اعظم، مسلح افواج کے سربراہ اور عدالت عالیہ کے چیف جسٹس صاحبان کو اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لیے ضروری تاکید کی۔تحریک کی اس کاوش کے نتیجہ نے عدالت عالیہ کو مجبور کیا کہ وہ اس دہشت گردی کے طوفان کے اسباب و محرکات کا جائزہ لے اور اپنی رائے یا فیصلہ صادر فرمائے۔اس ضرورت کے پیش نظر چیف جسٹس آف پاکستان نے ملت جعفریہ اور مکتب محمدو ؐآل محمدؑ کی ترجمانی کے لیے تحریک جعفریہ پاکستان کو سپریم کورٹ میں دعوت دی تحریک کی طرف سے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ سید افتخار حسین نقوی کی قیادت میں ایک وفد نے اپنے مؤقف کو حق ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس گئے۔وفد میں مرکزی نائب صدر علامہ سید محمد تقی نقوی،سپریم کونسل کے رکن علامہ ملک اعجاز حسین نجفی، سینٹرل کمیٹی کے رکن ایم ایچ حسنی،مرکزی کونسل کے رکن سید ثناءالحق ترمذی ایڈوکیٹ اور علامہ حافظ کاظم رضا شامل تھے۔تحریک جعفریہ کی طرف سے چیف جسٹس کی خدمت میں دو مرتبہ تقریباً آٹھ گھنٹے دہشت گردی کے ملکی و غیر ملکی اسباب،محرکات،ان کا حل،پاکستان میں سپاہ صحابہ کی دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں کی تفصیل،ان کے گرفتارشدگان کے اعترافی بیانات،ان کے ملک اور اسلام دشمنی پر مبنی خطابات و اخباری تراشے،ان کی وہ کتب جن میں اللہ تعالیٰ،رسول اکرمؐ،اہل بیتؑ پیغمبرؐ،ازواج رسولؐ، اصحاب رسولؐ اورقرآن حکیم کی توہین کی گئی تھی۔ان کے دہشت گردی کے حوالے سے اعترافی بیانات کی ویڈیو کیسٹیں ،جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کی آڑ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے اعترافات،اور دیگر ہزاروں کتابچے، رسائل،اشتہارات،آڈیو کیسٹیں اور دیگر مواد پیش کر کے مذہب جعفریہ کی صداقت کا بول بالا کیا۔جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔47
دستک
دشمن جب بالکل مفلوج ہو گیا تو اس نے علمی و فکری دلائل اور بحث کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں اسلحہ لے لیا اورشیعیان حیدر کرار ؑکا بے دریغ خون بہایا۔جس سے ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی شروع ہو گئی۔ملکی و غیر ملکی قوتوں کے پس پشت ہونے کی وجہ سے انھیں بے حد تقویت ملی۔لیکن ملت جعفریہ نے صبر امام حسینؑ اور حکمت امام حسین ؑسے کام لیتے ہوئے اپنے مثبت اور قانونی اقدامات جاری رکھے۔اس سلسلے میں تحریک جعفریہ کی طرف سے حکومت کے ساتھ سربراہی ملاقاتیں،تحریری روابط، یادداشتیں، وفود کی ملاقاتیں،خطوط وغیرہ کے ذریعے حکومت کو باور کرایا جاتا رہا کہ اس خطرناک سلسلے کو روکا جائے۔اس کے ساتھ عدلیہ اور پاک فوج کو بھی متوجہ کیا جاتا رہا ۔ تحریک کی ان کاوشوں سے دشمن مزید بدنام ہوا۔اور پاکستان کے تمام طبقات میں دشمن کو رسوائی اور تحریک کو پزیرائی حاصل ہوئی۔48
متحدہ علما بورڈ
تحریک جعفریہ نے اپنے مکتب وملت کا تحفظ جاری رکھتے ہوئے صوبہ پنجاب میں حکومت کے قائم کردہ ایک بااختیار “متحدہ علما بورڈ “میں اپنا فعال کردار ادا کیا یہاں بھی ملت کی نمائندگی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ سید افتخار حسین نقوی،مرکزی نائب صدر علامہ سید محمد تقی نقوی ،علامہ کرامت علی عمرانی اور علامہ ملک آفتاب حسین جوادی نے کی تھی،اور مخالف فریق کے اکابرین کی 40 سے زائد کتب ضبط کرا کے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں میں انتشار کا اصل سبب کون ہے۔ یہ دیکھ کر دہشت گرد گروہ حسب سابق راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اس پلیٹ فارم سے بھی بھاگ گیا اور تحریک جعفریہ نے تمام حالات کے باوجود حق کا علم سر بلند کیے رکھا۔49
فلاحی اوررفاہی خدمات
تحریک جعفریہ نے تشیع کے عظیم پیکر کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے فلاحی اور رفاہی منصوبہ جات کا عمل پورے ملک بالخصوص شمالی علاقہ جات میں انجام دیا ہے۔جو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ خدمات انجام دیتا رہا ہے۔اس شعبے کے زیر اہتمام اب تک سڑکیں،ہسپتال،پلیں،تالاب،کنویں، اسکول،دستکاری مراکز،حفاظتی بند،بجلی گھر ،رفاہی ادارے،تعلیمی ادارے اور متعدد ترقیاتی سکیمیں پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں اور ابھی تک کافی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔50
متفرق خدمات
تحریک جعفریہ نے جہاں سیاسی اور عالمی سطح پر قوم کے مسائل کے حل کے لیے کام کیا وہاں قوم کو غربت سے نجات دلا کر خوش حالی کی طرف گامزن کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی ہو یا ناداروں اور غرباء کی امداد،مکانات کی تعمیر ہو یا سیلاب زدگان و زلزلہ زدگان کی امداد،مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیر ہو یا مدارس دینیہ کا قیام،غریب بچیوں کے جہیز کا مسئلہ ہو یاغریب افراد کی شادی کا مسئلہ ہو،بیماروں کے علاج کا سلسلہ ہو یا دہشت گردی کا شکار ہونے والے مضروبین کی امداد ہو غرض ہر طرح سے مالی امداد کے لیے الگ الگ شعبے کام کر رہے ہیں اور حتی الوسیع کوشش کی جاتی ہے کہ قوم کو چھوٹے چھوٹے مسائل سے نجات دلانے کے لیے بھی تحریک جعفریہ اپنا کردار ادا کر سکے۔اب تک ہزاروں افراد اس سلسلے میں امداد حاصل کر چکے ہیں البتہ پھر بھی محدود وسائل ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر امداد تب ہی ممکن ہے جب قوم کے مخیرین اس سلسلے میں متوجہ ہوں۔51
جعفریہ ٹرسٹ
تشیع کی قومی املاک کے تحفظ اور انھیں بحال رکھنے اور ان سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے ”جعفریہ ٹرسٹ“ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جو پوری فعالیت کے ساتھ اپنا کام سر انجام دے رہا ہے۔52
جعفریہ ویلفیئر فنڈ
مالیات کے نظام کو منظم،مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے علامہ سید ساجد علی نقوی کی ہدایت پر تحریک نے 1989 میں ”جعفریہ ویلفیئر فنڈ“ کا قیام عمل میں لایا۔40 ، جس کے توسط سے قومی فلاح پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔53
روز گار کی فراہمی
وطن عزیز میں بے روزگاری کے عفریت سے ہر پاکستانی پریشان ہے اسی طرح ملت جعفریہ کے تعلیم یافتہ نو جوان بھی اس مسئلے کی زد میں ہیں تحریک نے اپنے محدود وسائل کے مد نظر کوشش کی ہے کہ بے روز گار نوجوانوں کو با عزت روزگار دلوایا جا سکے۔اس کے لیے سرکاری،نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں نوجوانوں کو ملازمتیں دلوانے کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرائے گئے ہیں اور ساتھ ہی ٹیکنیکل اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔تا کہ نوجوان فنی مہارت حاصل کر سکیں اور خواتین کے لیے بہبود سینٹر بنائے گئے ہیں تا کہ نوجوان اور خواتین ان اداروں کے توسط سے بہتر روزگار کے قابل ہو سکیں۔54
عالمی استعمار کے لیے رکاوٹ
پاکستان کے اندر بیرونی طاقتوں کی مداخلت بالخصوص امریکا و استعماری اثر و نفوذ کو تحریک جعفریہ نے ہی بے نقاب کیا اور سینٹ سے لے کر عوامی سطح تک ہر جگہ عالمی استعمار کے خلاف بھر پور کام صرف تحریک جعفریہ کے حصے میں آیا ہے۔یوم القدس اس کی ایک روشن مثال ہے کہ آج پاکستان کے تمام مسلمان اس یوم کو پوری عقیدت اور جوش و خروش سے مناتے ہیں۔55
شریعت اور ناموس صحابہ بلز
ملت جعفریہ اور مکتب تشیع کے خلاف ایوانوں کے ذریعے ہونے والی سازشوں کو ایوانوں ہی میں اسی پلیٹ فارم کے ذریعے نا کام بنایا گیا یک طرفہ طور پر شریعت کا نفاذ اور ناموس صحابہ بل جیسے سنگین معاملات کو تحریک کے پلیٹ فارم سے حل کیا گیا جس کے بعد آج تک کسی سازشی کو جرأت نہیں ہو سکی کہ وہ مکتب تشیع کے خلاف کوئی اقدام کر ے۔56
اتحادو وحدت کے لیے کوششیں
تحریک جعفریہ نے وحدت و اخوت اور اتحاد بین المسلمین کے سنہری اصولوں پر عمل جاری رکھتے ہوئے پاکستان کی مذہبی و دینی جماعتوں سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔اعلامیہ وحدت،اتحاد بین المسلمین کمیٹی، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارمز کے قیام میں مؤثر کردار ادا کر کے اور اس کے ساتھ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین اور فرقہ وارانہ وحدت کے لیے بننے والے فورمز،تنظیموں اور اتحادوں میں تحریک نے شرکت کر کے ثابت کر دیا کہ ہم مسلمانوں میں انتشار نہیں بلکہ وحدت و اخوت اور امن و محبت کے خواہاں ہیں۔تحریک کے اس کردار سے جہاں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور عوام الناس ملت جعفریہ کے مزید قریب تر ہوئے وہاں فرقہ پرست اور مذہبی دہشت گرد گروہوں کی حوصلہ شکنی ہوئی اور تمام مکاتب فکر نے انھیں مسترد کر دیا۔حتی کہ تحریک نے عزاداری سیدالشہدا ؑ کے سلسلے میں بھی ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارمز سے استفادہ کیا۔57
اقلیتوں کے جائزحقوق کا تحفظ
مسلمانوں سے روابط کے ساتھ ساتھ تحریک نے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں سے بھی مناسب حد تک روابط بر قرار رکھے اور ان کے پروگراموں میں تحریک کے افراد نے شرکت کی اور ان کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک نے بھر پور ساتھ دیا۔58
احساسِ بیداری
تحریک جعفریہ نے قوم کے اندر زندہ رہنے کا شعور پیدا کیا۔اپنے حقوق حاصل کرنے کا ولولہ عطا کیا۔ اپنے مسائل کے حل کے لیے جرأت پیدا کی۔اپنے دفاع سے غافل نہ رہنے کے اٹل اصولوں سے بھی قوم کو آگاہ کیا قوم کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا پا مردی سے مقابلہ کیا۔59
عزاداری کا تحفظ
عزاداری سید الشہداؑ جو مکتب تشیع کی اساس اور ملت جعفریہ کی بقاءکی ضامن ہے۔اس کی حفاظت کے لیے پاکستان میں صرف تحریک جعفریہ نے ہی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے قانونی،آئینی اور عوامی سطح پر عزاداری کا انعقاد عام اور آسان ہوا۔ تحریک اس اعزاز پر فخر کرتی ہے کہ سیرت حسین ؑپر عمل کرنے کے ساتھ عزاداری مظلوم کربلا کے انعقاد اور تحفظ میں تحریک کا کردار واضح اور روشن ہے۔ اور اس کا اندازہ ڈیرہ اسماعیل خان اور سہون شریف لال شہباز قلندر والے مسائل سے لگایا جا سکتا ہے۔60
نوجوانوں کی تربیت
ملت کے تعلیم یافتہ افراد اور نوجوان طبقے کو دینی شعور ارتباط خداوندی،سیرت محمؐد و آل محمدؑپرچلاناورانہیں ملت کے اجتماعی مسائل کا درد دلانے کے لیے تحریک نے مسلسل امور انجام دیے جو تمام کے تمام علمائے کرام کے مرہون منت ہیں جنھوں نے اپنے علم و تجربے کے ذریعے نوجوانوں کو سیرت مولائے متقیان اور خواتین کو سیرت خاتون جنت ؑپر عملی انداز میں چلنے کا درس دیا۔آج نوجوانوں کا بہترین کردار اور ان میں اسلام و اہل بیت ؑکی محبت کی رمق اسی محنت کا ثمر ہے۔61
مجلہ تحریک
ملکی و غیر ملکی تازہ صورت حال اور ہر سطح پر عوام کی تربیت کے لیے تحریک جعفریہ کی طرف سے ایک ماہنامہ ”تحریک “ کے نام سے شائع ہوتا تھا جو ہر خاص وعام تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس مجلّے کے ذریعے جہاں عوام تحریک کی تازہ کارکردگی سے آگاہ ہوتے تھے وہاں اس میں موجود دلچسپ اور معلوماتی مضامین سے بھی استفادہ کرتے تھے۔ 62
شیعہ اوقاف کا مطالبہ
تحریک کا ہمیشہ حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ شیعہ اوقاف شیعوں کے حوالے کیے جائیں تا کہ ان کے مسائل کو آسانی سے حل کیا جا سکے۔شہباز قلندرسہون شریف،بی بی پاک دامن لاہور،عبد اللہ شاہ غازی ،ملتان اور اوچشریف کے بعض اوقاف وغیرہ شیعہ اوقاف میں شامل ہیں۔63
الزام کا جواب
اکثر اوقات جانبدار اور متعصب حلقوں کی طرف سے تحریک پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ تحریک، ایران یا بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرتی ہے۔64 ، اس الزام کے بارے میں علامہ سید عبد الجلیل نقوی کہتے ہیں :
"اس سلسلے میں تحریک جعفریہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے اس نے حکومتوں سے کبھی مدد حاصل نہیں کی۔ملت جعفریہ کا ایک مخصوص مالیاتی نظام ہے جس سے ملت دینی مدارس چلاتی ہے۔محرم الحرام میں عوام اپنے اخراجات سے رسومات کرتے ہیں ۔ عزاداری سیدالشہداؑ منعقد کرنے پر کثیر رقوم خرچ کرتے ہیں۔تحریک عوامی عطیات اور خمس سے اپنے معاملات کو چلاتی ہے۔تحریک کے وسائل محدود ہیں اور ان میں ہی گزارا کرتی ہے اگر کسی کے پاس اس قسم کے شواہد ہیں تو وہ سامنے لائے اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں پاکستان کے قوانین کے مطابق تحریک کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔تحریک ان اقدامات کو خوش آمدیدکہے گی۔حکومتیں جن کی پشت پناہی کرتی ہیں ان کا یہ حال نہیں ہوتا۔فرزندان توحید،پیروکاران رسول اکرم ؐ،شیعیان حیدر کرارؑ اور حبداران اہل بیتؑ کا یہ کارواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔اس راہ حسینی ؑمیں یقیناً مصائب و مشکلات بھی آتی رہی ہیں اور مزید بھی آئیں گی۔لیکن تحریک نے ان کا مقابلہ صرف اتحاد و ایمان کی طاقت سے ہی کرنا ہے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے مکمل حوصلے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا ہے”۔65
• ذاکرین عظام سے رابطے کے لیے ایک علاحدہ شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ساتھ ہی علمائے کرام اور دینی مدارس سے حسب سابق رابطے کا عمل جاری ہے۔66
• مستحقین میں امداد کی تقسیم، شرعی مسائل کے حل،باہمی اختلافات کے خاتمے نیز یہ کہ تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے ہر وہ کام ہو رہا ہے جو کسی قوم کے ملی استحکام کے لیے ضروری ہے۔67
• دشمن کی ہر سازش کو بے نقاب کرنا اور اس کا زبردست جواب دینا تحریک کے پلیٹ فارم کی وساطت سے ہی ممکن ہوا اب جب بھی قوم کے خلاف کوئی سازش سراٹھانے لگتی ہے تو پوری ملت کی نظریں تحریک جعفریہ کی طرف ہوتی ہیں۔68
کسی قوم اور کسی پلیٹ فارم کی بقاء اس کی قیادت سے وابستہ ہوتی ہے۔قائد ملت جعفریہ اور تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی ؒ کی شہادت کے بعد قوم کو مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکالا اور تحریک کو تمام مسائل و مشکلات سے نجات دلاتے ہوئے ایک منظم،باوقار دینی و سیاسی جماعت بنایا۔دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا قائد محترم نے اپنے اجداد سے پایا۔بلا شبہ قائد ملت جعفریہ اس وقت پاکستان کے ہر محروم و مظلوم کے دل کی آواز ہیں۔69
مرکزی سیکرٹریٹ تحریک جعفریہ پاکستان
تحریک جعفریہ پاکستان کے پروگرام کے تحت راولپنڈی شہر میں اس تنظیم کے لیے ایک مرکزی سیکرٹریٹ قائم کیے جانے کا منصوبہ ہے جس کے لیے تقریباً 54 کنال زمین راجا اقبال ٹاؤن میں خرید ی جا چکی ہے۔(70)،البتہ تنظیمی امور کو ہینڈل کرنے کے لیے تحریک نے مرکزی آفس کے لیے ایک بلڈنگ کرایہ پرلے رکھی ہے۔