تحریک خلافت کے بعد اور سائمن کمشن کی تقرری سے پہلے محمد علی جناح اور ان کے ہمنوا ساتھیوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ایک فارمولا پیش کیا۔ یہ فارمولا عام طور پر ’’تجاویز دہلی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر بعض حضرات اسے ’’مسلم تجاویز‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
پس منظر
محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور میں ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھے۔ 1916ء میں آپ ہی کی کوششوں سے آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان معاہدہ لکھنؤ طے پایا۔ لیکن کانگریسی راہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ رویے، پہلی جنگ عظیم کے واقعات، 1919 کے ناکافی اصلاحات اور تحریک خلافت کی وجہ سے یہ معاہدہ اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ مگر ان تمام واقعات کے باوجود محمد علی جناح ہندو مسلم اتھاد کو حکومت خود اختیاری کے لیے لازمی قرار دیتے تھے۔ 1927ء میں مرکزی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران ہندو رہنماؤں خاص کر پنڈت جواہر لال نہرو اور سری نواس آئینگر نے محمد علی جناح کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں اور گفتگو کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر مسلم لیگ کے رہنما جداگانہ انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں تو ان کے باقی سارے مطالبے کانگریس تسلیم کرے گی۔ کانگریسی راہنماؤں کے اس پیشکش کے بعد محمد علی جناح نے لیگ کے قائدین کی ایک کانفرنس دہلی میں طلب کی۔ 20 مارچ 1927ء کو محمد علی جناح کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں لیگ کے رہنماؤں نے کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے لیے ایک فارمولا تیار کیا۔ جسے عام طور پر ’’تجاویز دہلی‘‘ یا ’’مسلم تجاویز‘‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
تجاویز دہلی پر مشتمل فارمولے میں سب سے اہم شق یہ تھی کہ قائد اعظم اور ان کے دیگر ہمنوا لیگی رہنماؤں نے جداگانہ انتخابات سے دستبردار ہونے اور مخلوط انتخابات کو منظور کرنے کے لیے کانگریس کو مندرجہ ذیل مطالبات پیش کیے
1۔ سندھ کو ممبئی سے الگ کرکے ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے
2۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی دیگر صوبوں کے مساوی اصلاحات نافذ کی جائیں
3۔ مرکزی مقننہ میں مسلمانوں کے لیے کم از کم ایک تہائی نشستیں مخصوص کی جائیں
4۔ پنجاب اور بنگال کے صوبائی قانون ساز اسمبلیوں میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
رد عمل
تجاویز دہلی پر ملا جلا رد عمل سامنے میں آیا۔ بعض حلقوں نے اس کو بے حد سراہا جبکہ بعض نے ان پر تنقید کے تیر برسائے۔ سری نواس آئینگر جو 1927ء میں کانگریس کے صدر تھے اور جن کے محمد علی کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی تھے۔ نے کھل کر ان تجاویز کی حمایت کی۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس نے بھی ان کا خیر مقدم کیا۔ پاتا بائی سیتارا مایا جو کانگریس کی تاریخ لکھنے پر مامور تھے۔ نے ان تجاویز پر یوں تبصرہ کیا ہے:
“It is not evolution of a formula that was required but the approximation of the hearts a clearing of the minds, of the two great communities.”
پنجاب کے ہندوؤں نے لالہ لاجیت رائے کی سرکردگی میں ان تجاویز میں سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کی تناسب سے نمائندگی دینے سے متعلق شق پر اعتراض کیا۔ ڈاکٹر مونجے اور ہندو مہا سبھا کے دیگر رہنماؤں نے مخلوط انتخابات سے متعلق لیگ کی رضامندی پر برہمی کا اظہار کیا۔ سندھ کے ہندو رہنما جے رام داس دولت رام نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کو ہدف تنقید بنایا۔ مدراس کانگریس نے ان تجاویز کو حتمی منظوری کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کر دی۔ خود آل انڈیا مسلم لیگ ان تجاویز کی وجہ سے دو حصوں میں بٹ گئی۔ لیگ کے دو مختلف دھڑے جناح لیگ اور شفیع لیگ کہلانے لگے۔ لاہور کے سر محمد شفیع نے لیگ اور کانگریس کے درمیان جناح لیگ کے اس مفاہمتی فارمولے کو مسترد کر دیا۔ کیونکہ آپ کسی بھی قیمت پر جداگانہ انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال جو شفیع لیگ کے سیکرٹری تھے نے اس مسئلے پر محمد شفیع کا ساتھ دیا۔ اور یوں پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت نے جداگانہ انتخابات پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرانے کی بھرپور مخالفت کی۔
خلاصہ
معاہدہ لکھنؤ 1916ء کے بعد ’’تجاویز دہلی‘‘ کا فورمولا قائد اعظم محمد علی جناح کی لیگ۔ کانگریس اتحاد سے متعلق دوسری سنجیدہ کوشش تھی۔ مگر ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرف سے ملے جلے رد عمل او رخاص کر سائمن کمشن کی تقرری سے قائد کی یہ کوشش بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔