اسرائیل بن یونس کوفی تابعی، راویان حدیث نبوی میں سے ایک، محدث ابو اسحاق سبیعی کے پوتے، محدث یونس بن ابی اسحاق کے فرزند اور عیسی بن یونس کے بھائی تھے۔ امام ابو حنیفہ کی علمی مجلس کے ساتھی تھے۔
اسرائیل بن یونس بن اسحٰق کوفی : کنیت آپ کی ابو یوسف تھی۔ پورا سلسلہ یہ ہے۔
اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق، عمرو بن عبد اللہ بن علی بن احمد بن ذی یحمد بن سبیع بن سبیع بن صعب بن معاویہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشد بن جشم بن خیوان بن نوف بن ہمدان[1][2]
ولادت
100ھ میں شہر کوفہ کی مردم خیز زمین میں پیدا ہوئے۔[3]
فضل و کمال
انھوں نے مرکز علم کوفہ میں نشو و نما پائی اور فطری علمی ذوق کی بنا پر وقت کے اکابر علما کے فیض سے مالا مال ہوئے۔ خود ان کا خانوادہ بھی علم و فضل میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ ان کے دادا ابو اسحاق سبیعی کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے۔ تمام علما و محققین نے بالاتفاق ان کی توثیق کی ہے۔
اسرائیل بن یونس اپنے انہی شہرہ آفاق جد امجد سے خاص طور پر مستفید ہوئے، چنانچہ ابو اسحاق سبیعی کی تمام مرویات انھیں ازبر تھیں۔ عیسی بن یونس کہتے ہیں کہ: «مجھ سے میرے بھائی اسرائیل نے بیان کیا کہ میں ابو اسحاق کی روایتوں کو اس طرح یاد کرتا تھا جیسے قرآن کی سورۃ حفظ کرتا ہوں۔»[4][5]
شیوخ
سماک بن حرب، منصور بن معتمر، ابراہیم بن مہاجر، سلیمان اعمش، زیاد بن علاقہ، زید بن جبیر، عاصم بن بہدلہ، اسماعیل السدی، مجراہ بن زاہر اسلمی، عاصم احوال، ہشام بن عروہ اور یوسف بن ابی بردہ۔[6][7]
اسرائیل بن یونس نے خود بھی مختلف مقامات پر درسِ حدیث کی مجلسیں گرم کیں،خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ان کے بغداد کے درس کا ذکر کیا ہے،وہاں شائقین علم کا گروہ ان کے گرد اکٹھا رہتا تھا،ان سے مستفید ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، جن میں درج ذیل ائمہ و علما مشہور ہیں۔
اسماعیل بن جعفر،وکیع بن الجراح،عبد الرحمن بن مہدی،عبید اللہ بن موسیٰ،ابو نعیم الفضل بن دکین، اسود بن عامر شاذان،محمد بن سابق، عبد اللہ بن صالح بعجلی، ابو احمد الزبیری، نضر بن شمیل،ابوداؤد الطیالسی، عبدالزاق بن ہمام، یحییٰ بن آدم،محمد بن یوسف الفریابی،عبد اللہ بن رجاء السعدانی،احمد بن یونس بن الجعد۔
[11]
قوتِ حافظہ
انھوں نے قوتِ حافظہ بھی نہایت قوی پائی تھی، امام احمد بن حنبل ان کی غیر معمولی قوتِ حافظہ پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے۔
[12]
یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ:
کنا نکتب من اتقن اصحاب ابی اسحاق
[13]
وہ ابو اسحاق سبیعی کے تلامذہ میں سب سے زیادہ صدوق اورعادل ہیں۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
اسرائیل ثبت الحدیث اسرائیل ثقۃ راوی ہیں
عجلی کا قول ہے "کوفی ثقۃ" امام نسائی کا بیان ہے "لیس بہ بأس"[14]ابنِ سعد لکھتے ہیں:
کان ثقۃ وحدث عنہ الناس حدیثاً کثیرا
[15]
وہ ثقۃ تھے لوگ ان سے بکثرت حدیثیں روایت کرتے تھے۔
ابن عدی کا بیان ہے "ھو ممن یحتج بہ" ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے۔
ان کے علاوہ یحییٰ بن معین، ابو نعیم، امام ابو داؤد اورنسائی وغیرہ نے بہت ہی واضح الفاظ میں اسرائیل بن یونس کو اصح الحدیث اور ثقۃ صدوق لکھا ہے،مزید برآں امام الجرح والتعدیل عبد الرحمن بن مہدی بھی ان سے روایت کرتے ہیں۔
[16]
جن بعض علما نے ان کی ثقاہت پر کلام کیا ہے ان کے بارے علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ اسرائیل بن یونس پر جرح کرنے والوں کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؛کیونکہ ان کی ثقاہت مسلم ہے؛چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
کان حافظاً صالحاً خاشعاً من اوعیۃ العلم ولا عبرۃ بقول من لینہ فقد اجتج بہ الشیخان
وہ حافظ ،صالح، متورع، اورعلم کا ایک ظرف تھے، جو لوگ ان پر کلام کرتے ہیں ان کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؛کیونکہ شیخین نے ان کو سند بنایا ہے۔
علامہ ذہبی علاوہ ازیں میزان میں جرح کرنے والوں کے تفصیلی تذکرے کے بعد لکھتے ہیں:
قلت اسرائیل اعتمدہ البخاری فی الاصول وھو فی الثبت کا الاسطوانۃ یلتفت الی تضعیف من ضعفہ،نعم،شعبۃ الثبت منہ الا فی ابی اسحاق۔
[17]
اسرائیل بن یونس پر امام بخاری ومسلم نے بھی اعتماد کیا ہے اورفی الحقیقت وہ تثبت میں ستون کی مانند اٹل ہیں لہذا تضعیف کرنے والوں کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا جائے گا، ہاں یہ صحیح ہے کہ شعبہ ان سے زیادہ قوی ہیں لیکن مرویات ابی اسحاق میں وہ بھی اسرائیل کے ہمسر نہیں۔
ائمہ کا اعتراف
علما نے ان کے فضل وکمال کا برملا اعتراف کیا ہے، امام شعبہ سے کسی نے ابو اسحاق سبیعی کی روایت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا:
سلوافیھا اسرائیل فانہ اثبت فیھا منی
اس کے بارے میں اسرائیل سے رجوع کرو کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ قوی ہیں۔
عبد الرحمن بن مہدی انھیں ابو اسحاق کی مرویات کے سلسلہ میں شعبہ اورسفیان ثوری پر بھی فوقیت دیتے ہیں (تہذیب التہذیب:1/253)ابو نعیم کہتے ہیں "اسرائیل اثبت من ابی عوانہ" یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ"اسرائیل اثبت حدیثاً من شریک"
زہد وورع
تقویٰ و پاکبازی خشوع وبے نفسی اسرائیل بن یونس کے دفتر کمال کے نمایاں ابواب ہیں، علم و فضل کی دولت کے ساتھ وہ عمل کے زیور سے بھی آراستہ تھے،علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
وکان اسرائیل مع حفظ و علمہ خاشعا للہ کبیر القدر
[18]
اپنے علم اور قوتِ حافظہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل انتہائی خاشع اورعظیم المرتبت تھے۔
شفیق بلخی ان کے خشوع وخضوع کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
اخذت الخشوع عن اسرئیل کنا حولہ لا یعرف من عن یمینہ ولا من عن شمالہ لتفکرہ فی الاخرۃ فعلمت انہ رجل صالح
میں نے خشوع اسرائیل سے حاصل کیا، ہم لوگ ان کے ارد گرد رہتے تھے لیکن انھیں فکر آخرت میں ڈوبے رہنے کی بنا پر دائیں بائیں کی کچھ خبر نہیں رہتی تھی،بس اس وقت میں سمجھ گیا کہ وہ بہت نیک شخص ہیں۔