پاکستانی روپیہ (Pakistani Rupee) 1948ء سے پاکستان کا سرکاری زرمبادلہ ہے۔ سکے اور نوٹ مرکزی بینک یعنی بینک دولت پاکستان کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں اور انضباط میں رکھے جاتے ہیں۔
These images are to scale at 0.7 pixels per millimetre.
تاریخ
یکم اپریل 1948ء کو حکومت نے ایک پائی‘ آدھا آنہ‘ دوآنہ‘ پائو روپیہ‘ نصف روپیہ اور ایک روپیہ کے سات سکوں کا ایک سیٹ جاری کیا اور اس وقت کے وزیر خزانہ غلام محمد نے ایک خوب صورت تقریب میں یہ سیٹ بابائے قوم محمد علی جناح کی خدمت میں پیش کیا۔ پاکستان میں مالیاتی نظام کا باقاعدہ آغاز جولائی 1948ء میں کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح سے ہوا۔ اس افتتاح کے بعد پاکستان میں نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری اور پاکستان کے اپنے سیکورٹی پرنٹنگ پریس کے قیام کے لیے کوششیں تیز کردی گئیں‘ ان کوششوں کے نتیجے میں درج ترتیب سے سکوں اور نوٹوں کا اب تک اجرا ہوتا رہا ہے۔ یکم اکتوبر 1948ء کو حکومت پاکستان نے 5 روپے‘ 10 روپے اور 100 روپے کے کرنسی نوٹ جاری کیے۔ یہ نوٹ برطانیہ کی فرم میسرز ڈی لاروا اینڈ کمپنی میں طبع کیے گئے تھے۔ یکم مارچ 1949ء کو حکومت پاکستان نے ایک اور 2 روپے مالیت کے 2 کرنسی نوٹ جاری کیے۔ ایک روپیہ پر وزارت داخلہ کے سیکریٹری وکٹرٹرنر کے دستخط جبکہ 2 روپے پر ’’پہلی مرتبہ‘‘ اسٹیٹ بینک کے گورنر زاہد حسین کے دستخط شائع ہوئے۔
اس سے قبل نوٹوں پر وزیر خزانہ غلام محمد کے دستخط شائع ہوتے تھے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان کی طرف سے یکم ستمبر 1957ء کو 5 روپے اور 10 روپے کے نوٹ جاری کیے گئے۔ اسٹیٹ بینک نے 24 دسمبر 1957ء کو 100 روپے مالیت کا نوٹ جاری کیا جس پر بابائے قوم محمد علی جناح کی تصویر پرنٹ تھی۔ اس کی دوسری طرف بادشاہی مسجد لاہور کی تصویر تھی۔ اس پر گورنر اسٹیٹ بینک عبد القادر کے دستخط تھے۔ پاکستان میں پہلی بار یکم جنوری 1961ء کو اعشاری سکے جاری کیے گئے جن کی وجہ سے ایک پائی‘ پیسہ‘ اکنی‘ دونی‘ چونی اور اٹھنی کی قانونی حیثیت ختم کرکے رفتہ رفتہ‘ ایک‘ دو‘ پانچ‘ پچیس‘ پچاس پیسے کے سکے اور ایک روپیہ کا سکہ رائج ہوا۔ 12 جون 1964ء کو اسٹیٹ بینک نے 50 روپے مالیت کا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ اس نوٹ پر گورنر اسٹیٹ بینک شجاعت علی کے دستخط تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ 25 دسمبر 1966ء کو حکومت نے چاندی اور سونے کے 100 اور 500 روپے کے 2 یادگاری سکے جاری کیے جو وینزویلا میں تیار کیے گئے تھے۔
7 جون 1971ء کو پاکستان کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ چند ناگزیر وجوہات (مشرقی پاکستان میں بغاوت) کی بنا پر ایک سو اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے‘ اس لیے عوام ایک سو اور پانچ سو کے نوٹوں کو بینکوں اور مقرر کردہ اداروں میں جمع کروا کر ان کی رسید لے لیں‘ تاکہ بعد میں ان کے متبادل دوسرے نوٹ حاصل کرسکیں۔ 20 جنوری 1982ء کو حکومت پاکستان نے ایک روپیہ مالیت کا اور بعد ازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پانچ‘ دس‘ پچاس اور ایک سو روپے مالیت کے 4 نئے کرنسی نوٹ جاری کیے‘ جن کی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ اس پر بنگالی زبان کی عبارتیں حذف کردی گئی تھی اور دوسری یہ کہ ان کی پشت پر اردو میں ’’رزق حلال عین عبادت ہے‘‘ کی عبارت طبع تھی۔ لیکن چند مذہبی علماء نے لفظ "عین" پر اعتراض کیا تو بعد کے نوٹوں پر سے اس عبارت کو ہٹا دیا گیا۔
یکم اپریل 1986ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 5 سو روپے مالیت کا نیا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ 18 جولائی 1987ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا جو مالیت کے اعتبار سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ تھا۔ اقوام متحدہ کو گولڈن جوبلی کے حوالے سے 29 جنوری 1996ء کو حکومت پاکستان نے ایک خصوصی سکہ جاری کیا‘ اس سکے کی پشت پر اقوام متحدہ کا لوگو اور 50 کا ہندسہ کندہ تھا۔ 22 مارچ 1997ء کو حکومت نے پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے 50 روپے مالیت کا ایک خصوصی سکہ جاری کیا‘ اس سکے کی پشت پر پاکستان کا پرچم بنا تھا اور 50 سالہ جشن آزادی پاکستان 1947ء تا 1997ء کے حوالے ہی سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 5 روپے کا ایک خصوصی نوٹ جاری کیا جس کی پشت پر ملتان میں واقع شاہ رکن عالم کے مزار کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ 26 مئی 2006ء کو اسٹیٹ ینک آف پاکستان کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ جو 5 ہزار مالیت کا تھا کے اجرا کا اعلان کیا۔ اسی روز 10 روپے کا نیا نوٹ بھی جاری کیا گیا جس کا رنگ سبز جبکہ اس کی پشت پر باب خیبر کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ 26 مئی 2006ء کو اسٹیٹ بینک کی طرف سے 10 روپے مالیت کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا‘ اس کا رنگ سفید اور وزن 8.25 گرام تھا۔ اس کے بعد یکم اکتوبر 2009ء کو عوامی جمہوریہ چین کے 60 ویں جشن آزادی کے موقع پر 10 روپے مالیت کا ایک یادگاری سکہ جاری کیا گیا۔ اس کی پشت پر پاکستان اور چین کے پرچموں کی تصویروں کے ساتھ ’’60 سالہ جشن آزادی عوامی جمہوریہ چین‘‘ اور ’’پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ کی عبارت درج تھی۔
↑Shah Hanifi۔ Connecting Histories in Afghanistan: Market Relations and State Formation on a Colonial Frontier۔ Stanford University Press۔ ص 171۔ ISBN:978-0-8047-7777-3
↑Arturo Munoz۔ U.S. Military Information Operations in Afghanistan: Effectiveness of Psychological Operations 2001–2010۔ Rand Corporation۔ ص 72۔ ISBN:978-0-8330-5156-1
↑{{cite web |url=http://www.tradingeconomics.com/pakistan/core-inflation-rate |title=Archived copy |accessdate=2016-11-29 |deadurl=no |archiveurl=https://web.archive.org/web/20161129210235/http://www.tradingeconomics.com/pakistan/core-inflation-rate |archivedate=29 November 2016 |df=dmy-all}}