ابو الفتح عبد الرحمن المنصور الخازنی پانچویں اور چھٹی صدی ہجری (گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی) کے مسلمان سائنس دان، طبیعیات دان، فلکیات دان، ریاضی دان، حیاتیات دان، کیمیا دان اور عظیم فلسفی تھے۔ وہ خراسان کے شہر مرو (موجودہ ترکمانستان کا شہر ماری) میں رہتے تھے۔ آپ خراسان کے شہر مرو کے خزانچی ابو الحسین علی بن محمد خازن مروزی کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کا نام الخازنی آپ کے آقا ابو الحسین علی ابن محمد الخازن المروزی کی نسبت سے پڑا جو خراسان کے شہر مرو کا خازن یعنی خزانچی تھا۔ ابتدائی اسلامی ادوار میں خزانچی کو خازن کا لقب دیا جاتا تھا۔ ان کے نام الخازنی سے لوگ اکثر تَذبذُب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نام سے ملتے جلتے نام دو اور مسلمان سائنس دانوں کے بھی ہیں جن میں ابو جعفر الخازن (900–971 عیسوی) اور ابو الفتح الخزیمی (بارہویں صدی عیسوی کے بغدادی ماہر فلکیات) شامل ہیں۔ چونکہ ان تینوں نے فلکیات پر کام کیا ہے۔ اس لیے بعض مصنفین ان میں اور دوسرے سائنسدانوں میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے اور ان کے بعض کاموں کو دوسروں سے منسوب کر دیا۔ آپ نے اعلی تعلیم اپنے آقا کی سر پرستی میں حاصل کی۔ آپ کے آقا نے آپ کی ذہانت اور تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کے تعلیمی اخراجات اٹھائے۔ آپ کے آقا نے ریاضی ،فلکیات، طبیعیات اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے میں آپ کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ کی ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بازنطینی علاقے سے تعلق رکھنے والے مسیحی غلام تھے۔ جو بعد میں آزاد اور مسلمان ہو گئے تھے۔ الخازنی کا شمار سلجوقی سلطنت کے بادشاہ سلطان سنجر کے اعلی سرکاری عہدے داروں میں ہوتا تھا۔ اس نے اپنا زیادہ تر کام مرو میں مکمل کیا اس وقت یہ شہر ادب اور سائنسی علوم کا مرکز تھا اور بعد میں یہ شہر اپنے کتب خانوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ الخازنی کے دور میں یہ شہر خراسان کا دار الحکومت تھا اور 1097 صدی عیسوی سے 1157 صدی عیسوی تک اس پر سلطان سنجر ابن مالک شاہ حکمران رہا جو بعد میں سلجوقی سلطنت کا سلطان بنا۔ آپ نے ہندسہ میں مہارت حاصل کی اور سلجوقی شاہ کی سرپرستی میں سلجوقی شاہی دربار میں پیشہ ور ریاضی دان مقرر ہوئے.الخازنی مسلمان سائنس دان عمر خیام کے شاگرد تھے۔ الخازنی کے بھی بہت سے شاگرد تھے، الحسن الثمرقندی، الخازنی کے شاگردوں میں سے تھے۔ الخازنی کی خاص مہارت سائنسی آلات بنانے میں تھی۔ انھوں نے ایک میزان (ترازو) خاص سلطان سنجر کے خزانے کے لیے بنایا تھا جو کھرے کھوٹے کی پہچان اور درست ترین ناپ تول کے لیے لاجواب تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے علم فلکیات پر بہت کام کیا، اس پر کتابیں لکھیں اور اجرام سماوی کے مشاہدے کے لیے حساس آلات بنائے۔
الخازنی نے مستقل کواکب کے محل وقوع مہیا کیے اور خراسان کے شہر مرو کا محل وقوع مہیا کیا.اس نے بہت سے تقویمی نظامات کے لیے لکھا اور مختلف تقاویم بنائی۔ آپ دائرۃ المعارف اوزان کے مصنف ہیں۔ اور آپ نے اصول ارشمیدس پر بھی تحقیق کی۔ آپ نے کتاب زیج لسنجر میں 46 ستاروں کے محل وقوع تفصیل سے بیان کیے۔آب سکونیاتی میزان (Hydrostatics balance) یا (میزان الاسفزاری) جو ابو حاتم مظفر الاسفزاری نے بنایا تھا یہ الخازنی کے میزان الحکمہ سے پرانا میزان تھا۔ یہ میزان ارشمیدس کے اصول، اصول ارشمیدس کے مطابق بنایا گیا تھا جس میں ارشمیدس کے ایجاد کردہ آلہ کو مزید بہتر بنایا گیا تھا۔ یہ آلہ الاسفزاری نے سلطان سنجر کے لیے بنایا تھا تاکہ وہ کھرے اور کھوٹے سونے کی پہچان کرے۔ سلطان سنجر کے خازنوں (الخازنی کے آقا کے علاوہ) نے سلطان کے خوف سے اس آلہ کو تباہ کر دیا تھا۔الخازنی کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو اس نے اسی طرز کا ایک اور آلہ میزان الحکمہ تیار کیا جسے اس نے الاسفزاری کے اعزاز میں میزان لجامع (comprehensive or combined balance) کا نام دیا۔ میزان الحکمہ اصلی اور نقلی دھاتوں اور جواہرات کا تعین کرتا تھا۔ آپ کی اہم تصنیف "میزان الحکمہ” ہے، یہ کتاب گذشتہ صدی کے وسط میں دریافت ہوئی، اس کتاب کو طبیعی علوم کی اولین کتاب سمجھا جاتا ہے خاص طور سے آب سکونیات (Hydrostatics) کے حوالے سے، یہ کتاب انگریزی میں ترجمہ ہو کر امریکا میں شائع ہو چکی ہے، جبکہ اس کا عربی نسخہ فؤاد جمعان کی تحقیق سے شائع ہوا۔
"میزان الحکمہ” میں ان کی علمیت پھوٹ پھوٹ کر نظر آتی ہے، یہ کتاب عربوں کے ہاں علوم کی نفیس ترین کتاب سمجھی جاتی ہے، اس میں انھوں نے تمام پیمانے جمع کیے اور وزن کی وجوہات بیان کیں اور اس طرح ہوا پیما، حرارت پیما ور دیگر جدید پیمانوں کی ایجاد کی راہ ہموار کی جو یورپی سائنسدانوں کے ہاتھوں معرضِ وجود میں آئے۔
انھوں نے طبیعیات اور میکانیات میں بھی کام کیا اور فلکیاتی زیج بھی بنائے جو "الزیج المعتبر السنجری” کے نام سے جانے گئے، انھوں نے ہوا اور پانی میں اجسام کا وزن کرنے کے لیے خاص پیمانے بنائے اور اس طرح گویا دباؤ اور درجہ حرارت کے ناپ کی راہ ہموار کرنے والے پہلے سائنس دان بنے، ان کی کششِ ثقل پر بھی تحقیق ہے۔
ان کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے جس سے ان کا شمار یقیناً عرب اور مسلمانوں کے بڑے سائنسدانوں میں ہوتا ہے، انھوں نے نہ صرف اہم دریافتیں کیں بلکہ ایسی ایجادات بھی چھوڑیں جس سے انسانیت اور سائنس کی ترقی میں مدد ملی۔
حالات زندگی
جب 26 اگست 1071 عیسوی میں سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے بازنطینی شہنشاہ رومانوس چہارم پر جنگ ملازکرد میں عظیم فتح حاصل کی تو غلام بننے والے بازنطینیوں میں المنصور بھی شامل تھا۔ اس جنگ کی فتح کے بعد غلاموں کو تقسیم کر دیا گیا یوں المنصور خراسان کے شہر مرو کے خزانچی علی بن محمد خازن مروزی کے حصے میں آیا۔ الخازنی ایک پرہیزگار صوفی تھا۔ آپ سادہ لباس پہنتے تھے اور آپ کی خوراک بھی انتہائی سادہ تھی، آپ ہفتے میں تین مرتبہ گوشت اور دن میں صرف دو روٹیاں تناول فرماتے تھے۔ آپ اپنے کام کے صلہ میں رقم لینے سے انکار کرتے تھے ایک دفعہ سلطان سنجر نے زیج سنجر تیار کرنے کے صلہ میں غزالی کے شاگرد امیر شافی ابن عبد الرشید(1146/1147عیسوی) کے ذریعے آپ کو 1000 دینار دینے چاہے لیکن آپ نے یہ کہ کر دینار لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے زندگی گزارنے کے لیے اتنی زیادہ رقم کی ضرورت نہیں ہے۔
کا رہائے نمایاں
الحازنی وہ سب سے پہلا سائنس دان تھا جس نے اپنی کتاب ’’میزان الحکمہ‘‘ (The Balance of wisdom) میں یہ تجویز کیا کہ کشش تقل اور ثقلی جہدی توانائی زمین کے مرکز سے فاصلے پر انحصار کرتی ہے۔ یہ مظہر کئی صدیوں بعد نیوٹن کے قانون کی صورت میں ثابت ہوا۔ الحازنی ہی وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے قوتکمیت اور وزن کے درمیان فرق کو واضح کیا اور اس بات کی اگاہی دی کہ ہوا کا وزن اور کثافت میں محل وقوع کے اعتبار سے کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ دریافت کیا کہ زمین کے مرکز کے قریب پانی کی کثافت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس نے بہت سے سائنسی آلات ایجاد کیے جس میں قَپان ترازو (Steelyard Balance) اور آب سکونیاتی ترازو (hydrostatic balance) شامل ہیں۔ البیرونی اور الخازنی وہ پہلے سائنس دان ہیں جنھوں نے سکونیات اور حرکیات میں سب پہلے تجرباتی سائنسی طریقہ کار ( experimental scientific methods) کو اپنایا۔ انھوں نے یہ طریقہ کار خاص طور پر اوزان (weights) کے تعین کے لیے اپنایا جس کی بنیاد میزان (balances) اور اوزان (weighing) کے نظریات پر تھی۔ وہ اور اس سے سابقہ مسلمان سائنس دانوں نے سکونیات اور حرکیات کو میکانیات کی سائنس میں یکجا کیا اور انھوں نے آب سکونیات (Hydrostatics) کے میدان کو حرکیات سے متحد کیا اور یوں آب حرکیات (Hydrodynamics) وجود میں آیا۔ انھوں نے شماریات کے میدان میں ریاضیاتی نسبت اور لامتناہی طریقہ کار (Infinitesimal techniques) استعمال کر کے الجبرا اور احصا کو متعارف کرایا۔ وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوں نے مرکز ثقل کا نظریہ (Theory of Centre of Gravity)کو متعارف کرایا اور انھیں تین سمتی اجسام(three-dimensional bodies) پر لاگو کیا۔ انھوں نے وزنی لیور کے نظریہ ( Theory of Ponderable Lever) اور ثقلی سائنس (Gravitational Science) کی بنیاد رکھی جس کی قرون وسطی کے یورپ میں مزید ترقی ہوئی۔ میکانیات کے میدان میں الخازنی اور اس سے سابقہ مسلم سائنسدانوں کے کام نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلاسیکی میکانیات کی بنیادیں استوار کیں۔ اس نے کیمیا اور حیاتیات میں ارتقاء پر بھی تحریر کیا۔ اس نے یہ بھی تحریر کیا کہ اس دور کی اسلامی دنیا میں فلاسفہ اور عام آدمی کے ارتقا کے بارے میں کیا نظریات تھے اس نے یہ بھی لکھا کہ اس دور میں ایسے بہت سے مسلمان تھے جو انسان کا بندر سے ارتقا پر یقین رکھتے تھے۔
[1][2][3]
الحازنی نے کتاب میزان الحکمہ سلطان سنجر کے خزانے کے لیے تصنیف کی۔ کتاب میزان الحکمہ کی چار مختلف مسودے محفوظ رہ سکے۔ کتاب میزان الحکمہ اوزان کے بارے میں ہے۔ کتاب میزان الحکمہ آٹھ حصوں (مقالات) پر مشتمل ہے جس میں پچاس ابواب ہیں۔ یہ کتاب قرون اولی کی میکانیات اور آبی سکونیات کا دائرۃ المعارف ہے۔ اس کتاب میں آب سکونیاتی توازن، سکونیات اور آبی سکونیات کے نظریات بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں غیر متعلقہ موضوعات بھی شامل ہیں۔
الآلات الرصدیہ
کتاب الآلات الرصدیہ Treatise on Astronomical Instruments یا رسالة الفعلات میں فلکیاتی آلات کے متعلق تفصیل موجود ہے۔ اس کتاب کے سات باب ہیں ہر باب میں مختلف الہ سے بحث کی گئی ہے۔ ان فلکیاتی آلات میں ٹرائکویٹرم (triquetrum)، ڈائوپٹرا (dioptra)، کواڈرینٹ ( quadrant)، سدس یا آلہ مسدس اور الاصطرلاب شامل ہیں۔
زیج السنجر
کتاب زیج المعتبر السنجری السلطانی میں الخازنی نے اپنی بنائی ہوئی 24 گھنٹے چلنے والی آب گھڑی (Water Clock) کی وضاحت کی ہے یہ گھڑی اس نے فلکیاتی مشاہدات کے لیے بنائی تھی یہ قدیم فلکیاتی گھڑی (Astronomical Clock) کی ایک مثال ہے۔ اس کتاب میں اس نے 500 صدی ہجری (1115-1116 صدی عیسوی) کے لیے 46 ستاروں کا کرہ سماوی پر محلِ وقوع کی وضاحت کی ہے اور اس کتاب میں اس نے شہر مرو کے مقام پر اجرام سماوی کے مشاہدات کے لیے فلکیاتی زیج (Astronomical Tables) کی وضاحت کی ہے۔ زیج السنجر کا یونانی ترجمہ تیرہویں صدی عیسوی میں بازنطینی فلکیات دان گریگوری کونیادس (Gregory Choniades) نے کیا۔ جس کا بازنطینی سلطنت میں مطالعہ کیا جاتا تھا۔