سید ابراہیم دسوقی اِمام شیخ ابراہیم الدسوقی بہت بڑے اقطاب میں شمار ہوتے ہیں۔
نام و لقب
سید ابراہیم الدسوقی القرشی الہاشمی (عربی میں نام السید إبراھیم الدسوقي ) شجرۂ نسب یوں ہے: العارف باللہ السید ابراہیم ابن ابو المجد ابن قریش ابن محمد ابن محمد ابن النجا ابن عبد الخالق ابن ابو القاسم الزکی ابن علی ابن محمد الجواد ابن علی الرضا ابن موسیٰ الکاظم ابن جعفر الصادق ابن محمد الباقر ابن علی زین العابدین ابن الحسین ابن الامام سیدنا علی۔
ولادت
تذکرہ نگاروں نے سید اِبراہیم دسوقی کا سنہ ولادت 623ھ لکھا ہے۔ دریائے نیل کے کنارے پر واقع مصر کے مشہور شہر دسوق میں آپ نے شرفِ تولد حاصل کیا۔ آپ کے والد گرامی عارف باللہ ابوالمجد عبد العزیز ولی صفت اور اپنے وقت کے چنیدہ اہل اللہ میں سے تھے۔ ولایت و معرفت کی اس منزل تک پہنچنے میں عارفِ کبیر محمد بن ہارون سنہوری کی صحبت و رفاقت کا بڑا حصہ تھا۔ والدۂ ماجدہ فاطمہ بھی وقت کی ولیہ اور مشہور عابدہ تھیں۔
تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد ابراہیم الدسوقی کے والد ماجد نے انھیں پورے طور پر اپنی تربیت و تعلیم میں لے لیا اور ان پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی۔ حفظ قرآن کی سعادت پانے کے بعد انھوں نے فقہ شافعی میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔
والد گرامی نے تربیت و سلوک کے مراحل طے کرنے کی خاطر دسوق ہی میں اُن کے لیے ایک خلوتِ خاص بنا دی، جہاں ابراہیم دسوقی کوئی بیس سال تک خلوت گزیں رہے۔ اس دوران والدِماجد کا اِنتقال ہو گیا تواُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے خلوت سے باہرتشریف لائے۔
پھر جب خلوت گزینی کے خیال سے خلوت گاہ کی طرف بڑھے تو لوگوں نے آپ کا دامن تھام لیا اور خدا کی قسمیں دینے لگے کہ اب آپ اندر نہ جائیں، ہمارے حال پر کرم فرمائیں، خلق خدا آپ کے فیض کی پیاسی ہے۔ تاہم آپ نے تحصیل علم و فضل کا سلسلہ منقطع نہیں کیا۔ تصوف و طریقت کے اَسرار ورموز حاصل کرنے کے لیے عارف باللہ عبد الرزاق بن محمود جزولی کے درس سے وابستہ ہو گئے۔ مزید تشنگی عارف باللہ نجم الدین بکری اور نور الدین طوسی سے پوری کی۔ جو اس وقت آسمانِ سہروردیت کے دوچمکتے ستارے تصور کیے جاتے تھے۔ جب سید ابراہیم دسوقی نے فضل وکمال کے زینے طے کر لیے، تو اَب درس و اِفادہ کی بساط بچھائی اور خلق خدا کی ہدایت وتعلیم کا آغاز فرمایا۔
اسناد طریقت
شیخ ابراہیم الدسوقی نے خرقہ خلافت شیخ نجم الدین محمود الاصفہانی کے ہاتھوں زیب تن کیا۔ انھوں نے الشیخ نور الدین عبد الصمد النظری سے۔ انھوں نے الشیخ نجیب الدین علی الشیرازی سے۔ انھوں نے الشیخ شہاب الدین السہروردی سے۔ انھوں نے الشیخ ابو نجیب ضیا الدین عبد القاہر السہروردی سے۔ انھوں نے الشیخ وجیہ الدین سے۔ انھوں نے الشیخ فرج الزنجانی سے۔ انھوں نے الشیخ ابو العباس النہاوندی سے۔ انھوں نے الشیخ محمد بن حفیف الشیرازی سے۔ انھوں نے الشیخ القاضی رویم ابو محمد البغدادی سے۔ انھوں نے ا مام الطریقہ و سید الطائفہ ابو القاسم الجنید البغدادی سے۔ انھوں نے اپنے ماموں سری السقطی سے۔ انھوں نے الشیخ معروف الکرخی سے۔ انھوں نے الشیخ داؤد الطائی سے۔ انھوں نے الشیخ حبیب العجمی سے۔ انھوں نے الشیخ الحسن البصری سے۔ انھوں نے قائد الاولیاء سیدنا الامام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے۔ اور انھوں نے سید الخلق و سید الانبیاء الکرام سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حاصل کیا۔
القاب
الدسوقی،السید السند، الحسیب النسیب، قطب الاولیاء، مرشد العلماء، تاج العارفین، امام الزاہدین، شیخ الاسلام، عارف باللہ، بحر شریعت۔ ابا العينين، ب رہان الملہ والدين، امام الدين، قطب الاقطاب، القطب الامجد، الامام الاوحد، سيد السادات، رافع المہمات، صاحب الولا والكشف والاطلاعات، بحر الورود والبركات، لسان الحضرات، كعبہ الحقيقہ، سلطان اہل العون والصون،، الشريف، قاضی العشاق، صاحب السيفين، صاحب الرمحين، عريس المملکہ
اہل علم کی شہادتیں
عارف باللہ علامہ شیخ ابوبکر الانصاری شیخ کی سیرت بیان کرتے ہوئے عقود اللآل میں فرماتے ہیں :
شیخ سید ابراہیم الدسوقی فضل و کمال کے مرتبہ بلند پر فائز تھے۔ اور روحانیات کے اَحوال میں ماہرانہ شان کے مالک تھے۔ علم موارد میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ اور تصرف و نفاذ میں اپنی نظیر آپ تھے۔ کشف و کرامات کے بے تاج بادشاہ تھے۔ وہ خداوند قدوس کے ان برگزیدہ بندوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نعمت وجود سے نوازا۔ خلق خدا کے لیے رحمت بنا کر ظاہر کیا۔ خاص وعام میں یکساں مقبولیت سے سرفراز کیا۔ عالم میں تصرف کا اختیار بخشا۔ ولایت کے احکام پر متمکن فرمایا۔ حقیقتوں کو ان کے لیے بے نقاب کر دیا۔ خرقِ عادات ان کے ہاتھوں کی دھول بنا دیا۔ غیبی خبروں کو اُن کی زبان سے بلوایا۔ ان کے ہاتھوں سے عجائب قدرت کا ظہور فرمایا۔ اور (مہد) گہوارے میں اُن سے روزہ رکھوایا۔
اِرشادات و فرمودات
عارف باللہ شیخ امام سید اِبراہیم الدسوقی ارشاد فرماتے ہیں :
من صدق في الإقبال علی اللّٰہ، انقلبت لہ الأضداد فعاد من کان یسبہ یحبہ، ومن کان یقاطعہ یواصلہ .
یعنی جو ٹوٹ کر اللہ سے لو لگائے ( اور بس اُسی کا ہو رہے پھر دیکھے کہ) ناممکن چیزیں اس کے لیے کیسے ممکن ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ گالیوں سے نوازنے والا بھی اسے محبت کے تحفے پیش کرے گا۔ اور قطع تعلق کرنے وال ارشتہ خاطر میں بندھتا نظر آئے گا۔
لا یکمل رجل حتی یفرَّ عن قلبہ وسرہ وعلمہ ووہمہ وفکرہ، وعن کل ما خطر ببالہ غیر ربہ .
یعنی مرد اُس وقت تک درجۂ کمال پر فائز نہیں ہوتا جب تک یادِ مولا کے سوا اپنے قلب وباطن (کے وسوسوں )، علم (کے جھمیلوں )، وہم وفکر(کے بکھیڑوں ) حتیٰ کہ دل پر گزرنے والے جملہ خطرات سے بھی باہر نہ نکل آئے۔
من لیس عندہ شفقۃ ولا رحمۃ للخلق، لا یرقی مراتب أہل اللّٰہ .
یعنی جس شخص کے دل میں خلق خداکے لیے شفقت و رحمت کے جذبات انگڑائیاں نہ لے رہے ہوں، اُس کے لیے مرتبہ اہل اللہ تک پہنچنے کی ساری راہیں بند ہیں۔
کل من وقف مع مقام، حُجِب بہٖ .
یعنی جوکسی ایک مقام پر جا کر رُک جائے، وہ اس سے محروم کر دیاجاتا ہے۔
ما دام لسانک یذوق الحرام، فلا تطمع أن تذوق من الحکم والمعارف شیئا .
یعنی اگر تیری زبان حرام لذتوں کی رسیاہو، توپھر تجھے حکمت ومعرفت کی حلاوت ولذت چکھنے کا خیال ترک کر دینا چاہیے۔
الطریق کلہا ترجع إلی کلمتین، تعرف ربک وتعبدہ .
یعنی راہِ(سلوک) کارازبس دو کلمے ہیں : معرفتِ الٰہی اورعبادتِ الٰہی۔
رأس مال المرید المحبۃ والتسلیم .
یعنی (ایک سچے) مرید کا کل سرمایہ محبت اورتسلیم ہے۔
لا یکمل الفقیر حتّٰی یکون محبا لجمیع الناس مشفقا علیہم ساتراً لعوراتہم فمن ادعی الفقر وھو یضد ذٰلک فھو غیر صادق۔
یعنی کوئی فقیر کامل بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کا دل سارے لوگوں کی محبت سے معمور نہ ہو جائے، خلق خدا کے لیے اس کے دل میں شفقت ورحمت نہ آ جائے اور وہ ان کے عیبوں کا پردہ پوش نہ ہو، لہٰذا اگر کوئی دعوائے فقر کرے اور اس کی حرکتیں اِس کے متضاد ہوں تو سمجھ لینا کہ وہ جھوٹا ہے۔
ملفوظات و تالیفات
شیخ ابراہیم الدسوقی نے فقہ و تصوف پرایک بڑا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے، لیکن یہ بظاہر ان کی تصانیف معلوم نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے ملفوظات لگتے ہیں جو انھوں نے اپنی مجلسوں کے اندر مریدین کو اِملا کروائے ہیں، کیوں کہ ان کتابوں کا اسلوب تالیفانہ نہیں بلکہ ملفوظانہ ہے۔
کتب في فقہ السادۃ الشافعیۃ،
الحقائق،
الرسالۃ،
الجوہرۃ ،
الجلیل الفائق الموسوم بالحقائق،
ب رہان الحقائق۔
ان میں جوہرہ زیادہ مشہور و معروف، اورضخیم ہے۔
آپ کی کرامتیں اس قدر بڑھی ہوئی ہیں کہ ان کا بیان وشمار مشکل ہے۔
وفاتِ حسرت آیات
شیخ الدسوقی کی سیرت وسوانح پر لکھنے والے جملہ تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ نے صرف تینتالیس(43) سال کی عمر پائی۔ اور 676ھ میں اس دنیا ہی سے انتقال کر گئے۔ مصر میں آپ کی قبر زیارت گاہِ خلائق ہے۔[1]
پیش نظر صفحہ اسلامی شخصیت سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔