رُفَیْدَهُ بنت سعد الاسلمیہ مسلم طبیبہ اور سماجی کارکن تھیں جنہیں تاریخ اسلام میں پہلی مسلم نرس اور پہلی خاتون جراح سمجھا جاتا ہے۔[1]
ابتدائی زندگی
نجی پس منظر
مدینہ میں اسلام قبول کرنے والی ابتدائی شخصیات میں سے تھیں۔ رفیدہ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنی اسلم سے تھا۔ پیغمبر اسلام کے مدینہ منورہ پہنچنے پر انصار خواتین کے ساتھ مل کر انھوں نے استقبال کیا۔[2]
رفیدہ الاسلمیہ کو اصحاب سیر نے نیک، ہمدرد نرس اور اچھا علاج کرنے والی بتایا ہے۔ اپنی طبی صلاحتیں کے بل بوتے پر انھوں نے دوسری عورتوں کو علاج کرنے کی تربیت دی، جن میں رسول اللہ کی صحابیات میں سے قابل ذکر عائشہ ہیں۔ علاج کے علاوہ وہ ضرورتمند بچوں کی مدد اور یتامٰی، معذور اور غربا کا خیال کرتی تھیں۔[3]
طبی پس منظر
رُفیدہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئیں جسے طب میں کمال حاصل تھا۔ رفیدہ کے والدہ سعد الاسلمی ایک طبیب تھے، انھیں سے انھوں نے تربیت حاصل کی۔ نرسنگ اور بیماروں کی دیکھ بھال کے شوق نے انھیں ایک ماہر معالجہ بنا دیا۔ غزوات نبوی کے دوران وہ علاج کیا کرتی تھیں۔[3] جہاد کے دوران زخمی ہونے والے سپاہیوں کی مرحم پٹی بھی سر انجام دیتی تھیں۔[1]
کارہائے نمایاں
رفیدہ نے خواتین کی ایک ٹیم کو نرس کے طور پر تربیت دی تھی۔ جب لشکر نبوی غزوہ خیبر کے لیے جانے کو تیار تھا تو رفیدہ اور رضاکار نرسوں کی ٹیم نے رسول اللہ کے پاس گئیں۔ انھوں نے آپ سے پوچھا، ”یا رسول اللہ، ہم آپ کے ساتھ جنگ میں جانا چاہتے اور زخمیوں کا علاج کرنا اور مسلمین کی امداد کرنا چاہتے ہیں جتنا ہم سے ہو سکے۔“ رسول اللہ نے انھیں اجازت دے دی۔ نرس رضاکاروں نے دل لگی سے بہترین کام انجام دیا حتی کہ رسول اللہ نے رفیدہ کی رقم مقرر کی۔ ان کی رقم اتنی ہی تھی جتنی جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کی تھی۔ یہ طب و نرسنگ کے کام کے اعزاز میں انھیں عطا کیا گیا تھا۔[2]
نرسنگ میں رفیدہ الاسلمیہ انعام
ہر سال بحریہ یونیورسٹی میں رائل کالج آف سرجنز اِن آئرلینڈ کی طرف سے کامیاب طلبہ کو ”نرسنگ میں رفیدہ الاسلمیہ انعام“ سے نوازا جاتا ہے۔ فاتح کو سینئر کلینکل طبی عملے کے ارکان منتخب کرتے ہیں، یہ صرف اسی کو ملتا ہے جو مریضوں کی عمدہ دیکھ بھال کرتا ہو۔[4]