پنجاب کا گورنر 1990ء تا 1993ء۔
پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کے صدر اور کنگز پارٹی کے ایک بہت بڑے رہنما میاں محمد اظہر نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ایک عام سیاسی کارکن کی حیثیت سے کیا اور انییس سو ستر میں ہونے والے عام انتخابات میں سابق کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبد الحفیظ کاردار کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کت حصہ لیا -
سقوط ڈھاکہ کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت اور ضیاالحق کے مارشل لا دور میں اگرچہ میاں اظہر کا کوئی سیاسی کردار تو نظر نہیں آتا لیکن کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ارائیں برادری کے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے شریف خاندان کو ان کے قومیائے گئے صنعتی یونٹ واپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
جنرل ضیاالحق نے سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے جب بلدیاتی نظام کا ڈال ڈالا تو وہ اس کا حصہ بن گئے۔ سن انیس سو اناسی اور تراسی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں میاں شجاع الرحمٰن لاہور کے مئیر بنے لیکن سن انیس سو ستاسی میں قرعہ ارائیں برادری سے تعلق رکھنے والے میاں اظہر کے نام نکلا۔
لاہور کا میئر بننے کے بعد انھوں نے میرٹ کو بہت اہمیت دی اور تجاوزات کے خلاف ایک کامیاب مہم چلائی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کے ایک ماموں نے ہال روڈ پر سرکاری زمین پر ناجائز تعمیرکرر کھی تھی اور پورے لاہور کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی تھیں کہ میاں اظہر اس چیلنج سے کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ میاں اظہر نے اپنی شہرت کے مطابق عمل کیا اور اس ناجائز عمارت کو منہدم کروا دیا۔
میاں اظہر کو سن انیس سو نوے میں پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا اور وہ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے بھی استعفا دے دیا۔ بعد میں جب سپریم کورٹ نے اسمبلی کو بحال کیا تو میاں اظہر کو بطور گورنر اور پرویز مسعود کو بطور چیف سیکریٹری پنجاب کو ’فتح‘ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔
لیکن انھیں اس میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی اور جب نواز شریف اور غلام اسحاق خان میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی تو وہ بغیر کسی مزاحمت کے گورنر ہاؤس چھوڑ کر سنت نگر چلے گئے۔ سن انیس سو ترانوے میں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے کامیابی حاصل کی اور ان کی خالی کردہ نشست سے میاں اظہر نے ضمنی انتخاب لڑا اور جیت کر حزب مخالف میں رہے۔
انیس سو ستانوے میں ہونے والے عام انتخابات میں میاں اظہر نے لاہور کے مضافات شاہدرہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
مسلم لیگ حکومت کے دوسرے دور میں انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کارکنوں کے کام نہیں ہو رہے۔ ان کی اس تنقید کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پنجاب سول سیکریٹیریٹ میں انھیں ایک دفتر دیا تاکہ وہ کارکنوں کے کام کروا سکیں۔
میاں اظہر نے اپنی بیٹی کی شادی پر اس وقت حزب اختلاف کی قائد بینظیر بھٹو کو مدعد کیا جس کا شریف خاندان نے بہت برا منایا۔ اس وجہ سے فاصلے بڑھتے رہے اور اس کی انتہا اس وقت ہوئی جب انھوں نے علانیہ بغاوت کردی اور اپنے سنت نگر کے گھر میں ڈیرہ ڈاال دیا۔
کارکنوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر ان کو بہت پزیرائی ملی اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے ملک بھر سے ان کے دفتر آنا شروع کر دیا۔ بعد میں انھیں نواز شریف کے والد میاں شریف نے طلب کیا اور خاموش کرا دیا۔
نواز شریف حکومت کے آخری دنوں میں انھوں نے خورشید محمود قصوری، غلام سرور چیمہ، سکندر ملہی، فخر امام، عابدہ حسین اور میاں منیر کے ساتھ مل کر ہم خیال گروپ تشکیل دیا۔ یہ گروپ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد بھی قائم رہا اور مزید ارکان اسمبلی نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔
جب نواز شریف نے اپنی مرضی سے پاکستان مسلم لیگ کے مجلس عاملہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تو گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کو مسلم لیگ سے علیحدگی کا بہانہ مل گیا اور اسی ہم خیال گروپ کی کوکھ سے مسلم لیگ (قائد اعظم) نے جنم لیا۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ میاں اظہر کا سیاست میں عروج شریف خاندان کے مرہون منت ہے لیکن انھیں جب موقع ملا انھوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے میں دیر نہیں کی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شریف خاندان کی بدعنوانی پر تو بہت تنقید کرتے ہیں لیکن خود ان کے خاندان نے پنجاب حکومت کی ملکیتی ایک شوگر مل بہت آسان شرائط پر حاصل کی۔
ان کے ناقدین یہ بھی کہتے سنے گئے کہ وہ سیاست میں ایک خاندان کے عمل دخل کے خلاف تھے لیکن انھیں جیسے ہی موقع ملا وہ اپنے بھائی میاں اشرف اور قریبی عزیر ناصر جبران کو انتخابی میدان میں کھینچ لائے۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ نواز شریف کے دور میں کارکنوں کے حقوق کے بہت بڑے داعی تھے لیکن موجودہ انتخابات میں جب ٹکٹوں کی تقسییم کا مرحلہ آیا تو ان کی کارکنوں سے ہمدردی کا عکس کہیں بھی نظر نہیں آیا۔