سیاسی اسلام یا اسلام کی سیاسی تعبیر و تشریح کے تحت اسلام کے سیاسی پہلو پر بحث ہوتی ہے۔[1] تاریخ میں اُن علمائے اسلام کی بڑی تعداد ملتی ہے جو ہمیشہ ایسی اسلامی ریاست کی وکالت کرتے آئے ہیں جن کی بنیاد شرعی اصولوں پر رکھی گئی ہو۔ مگر کچھ ایسے سیاسی نمائندے بھی گذرے ہیں جو اسلام کو محض اپنی سیاسی فکر کی ترویج اور حصول اقتدار کے لیے استعمال کرتے رہے۔[2] سیاسی اسلام کا تعلق دور حاضر میں صوفیا اور علما کی سیاست سے کنارہ کشی کے نتیجے میں ابھرنے والی سیاست کی نئی شکل سے ہے۔[2] یہی وجہ ہے کہ سیاسی اسلام کی اصطلاح کو اسلام کی تمام تر سیاسی تعلیمات اور سرگرمیوں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔ اس اصطلاح کا تعلق بیسویں صدی کے آس پاس ابھرنے والی تحریک احیائے اسلام سے بھی ہے۔[1] اسی لیے اسلام میں سیاست کے دیگر پہلوؤں کو کچھ علما اسلامیت کے تحت ذکر کرتے ہیں اور بعض علما دونوں اصطلاحوں کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔[1]
اصطلاح کی تاریخ
سیاسی ماہرین اور مفکرین سیاسی اسلام کی اصطلاح کے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ مارٹن کرامیر ان اولین مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے 1980ء کی دہائی میں سیاسی اسلام کی اصطلاح کو استعمال کرنا شروع کیا۔ 2003ء میں انھوں نے کہا کہ سیاسی اسلام کی اصطلاح لغو ہے کیونکہ عالم اسلام میں کہیں بھی اسلام سیاست سے الگ نہیں ہے۔[3][4] بعض ماہرین اسی موضوع کے لیے اسلامیت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس کے کم و بیش یہی معنی ہیں اور عموماً ان دونوں اصطلاحوں کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے البتہ کہیں کہیں ان میں تفریق بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیکمیجین کا کہنا ہے سیکیولر اسلامی ریاست کے قیام میں ناکامی کی بنا پر اسلام کو سیاسی رنگ دیا گیا اور اسی لیے وہ سیاسی اسلام کی بجائے اسلامیت اور بنیاد پرستی جیسی اصطلاحوں کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔[5]
سیاسی اسلام کی اصطلاح کا استعمال ان بین الاقوامی تنظیموں کے تناظر میں بھی کیا گیا ہے جو اپنے سیاسی ایجنڈے کی خاطر احیائے اسلام کا نام لیتی ہیں اور سیاسی اسلام کے تحت اسلامی اصول پسندی کو ترویج دیتی ہیں۔[3]
^ ابKrämer, Gudrun. “Political Islam.” In Encyclopedia of Islam and the Muslim World. Vol. 6. Edited by Richard C. Martin, 536–540. New York: Macmillan, 2004. via Encyclopedia.com