گرنتھ صاحبسکھ مت کی مقدس کتاب ہے۔ گرنتھ پنجابی میں کتاب کو اور صاحب اردو اور عربی میں دوست ساتھی یا مالک کو کہتے ہیں۔ سکھ اسے محض مذہبی کتاب ہی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ان کے لیے زندہ گرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اسے گرو گرنتھ صاحب بھی کہتے ہیں۔
ترتیب
پانچویں سکھ گرو ارجن دیو (1616- 1581) نے گرُو گرنتھ کی ترتیب و تدوین سنہ 1603ء میں شروع کی تھی۔ اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں گرنتھ صاحب کی تیاری کا کافی چرچا ہوا۔گرو ارجن دیو جی کے علاوہ پہلے چار سکھ گروؤں، مسلمان، ہندو صوفیا اور بھگتوں کے کلام پر مشتمل گرو گرنتھ صاحب 1604ء میں مکمل ہوئی۔
کلام کی شمولیت
اس کے بعد اس میں باقی پانچ گرووں کا کلام بھی شامل کیا گیا۔ دسویں گرو گوبند جی کا علاحدہ کلام دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے۔ آخری گرو گوبند سنگھ جی نے اپنی موت سے ایک سال پیشتر 1708 میں حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق ان کے بعد کوئی گرو نہیں آئے گا۔ گرو گرنتھ صاحب کو ہی رہبر و رہنما تسلیم کیا جائے گا اسی لیے گرو گرنتھ صاحب کو حاضر گرو مانا جاتا ہے۔
تعصب سے بالاتر
گرو ارجن دیو جی نے کوشش کی کہ گرو گرنتھ صاحب مذہبی تعصب سے بالاتر ہو اور پورے پنجاب کی اجتماعی فہم و فراست کا ترجمان ہو۔ اس کا یہ بھی مقصد تھا کہ مروج مذہبی تعصب اور مغلوں کے غیر منصفانہ نظام سے چھٹکارے کے لیے متوازی نظریہ سازی کی جائے۔ اس لیے گرو گرنتھ صاحب کا ایک حصہ بھگت بانی کہلاتا ہے جس میں شیخ بابا فرید شکر گنج، بھگت کبیر اور ہندو سنت سور داس کا کلام شامل ہے۔ بابا فرید کا کلام تو مسلمانوں تک پہنچا ہی گرو گرنتھ صاحب کی وساطت سے ہے۔ اسی روایت کے پیش نظر زمانہ جدید میں بھی بہت سے مسلمان صوفیا (کلام شاہ حسین) کے کلام کی کھوج اور تحقیق بھی سکھ محقق ڈاکٹر موہن سنگھ جیسی شخصیتوں کی مرہون منت ہے۔
مسلمان صوفیا کا اثر
گروارجن دیو جی اس سے پہلے بھی مسلمان صوفیا کے ساتھ اپنی قربت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ انھوں نے گرو گرنتھ صاحب کی تدوین سے پہلے امرتسر کا تالاب مکمل کروایا تھا جو ان کے والد گرو رام داس جی نے شروع کیا تھا۔ امرتسر کے تالاب میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے سے پہلے وہ لاہور تشریف لے گئے اور مسلمان صوفی میاں میر (1635-1550 ) سے درخواست کی کہ وہ اس کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں۔ مشہور سکھ تاریخ دان گیانی گیان سنگھ اور مسلمان مؤرخ غلام محی الدین المعروف بھٹے شاہ بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ گرو ارجن جی نے اس موقع پر بہت سے صوفیا کو مدعو کیا اور میاں میر صاحب نے چار اینٹوں سے اس کی بنیاد رکھی۔ اس لیے گرنتھ صاحب کی ترتیب و تدوین میں مسلمان صوفی شاعروں کے کلام کی شمولیت نئی بات نہیں تھی۔ البتہ سب مسلمان صوفیوں کا کلام اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
لگتا ہے کہ جب گروگرنتھ صاحب کی تیاری ہو رہی تھی تو پنجاب کے صوفی اور سنت شاعروں میں اس کی دھوم تھی۔ ڈاکٹر جیت سنگھ سیتل (شاہ حسین، ڈاکٹر جیت سنگھ سیتل، پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ، 1995 صفحہ 36 ) نے گیانی پرناپ سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور سے مادھولال شاہ عرف شاہ حسین، بھگت چھجو، کاہنا اور پیلو بھی اپنا کلام لے کر گرو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ گرو صاحب نے ان بھگت شعرا کا کلام سنا لیکن اسے گرنتھ صاحب میں شامل کرنے سے معذوری ظاہر کی جس پر شاہ حسین یہ کہتے اٹھ گئے کہ ’ایتھے بولن دی نہیں جاء وے اڑیا‘ (یہاں بولنے کا مقام نہیں ہے)۔ ایک اور روایت کے مطابق جب گرو صاحب لاہور تشریف لائے تو شاہ حسین پھر اپنا کلام لے کر حاضر ہوئے لیکن ان کا کلام شامل نہ ہو سکا۔ شاہ حسین کا کلام شامل نہ ہونا تاریخ دانوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ان کا یا کسی بھی ایسے بھگت یا سنت کا کلام شامل نہیں کیا گیا جو عام انسانوں کی زندگی کے فرائض نہیں نبھا رہے تھے۔
کلام
رو گرنتھ صاحب 5894 منظوم حمدوں پر مشتمل ہے جس میں دس گروؤں اور پندرہ مسلمان اور ہندو صوفیا اور بھگتوں کا کلام ہے۔ گرنتھ صاحب 18 مختلف راگوں میں تقسیم اور منظم کیا گیا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں گرو نانک جی کی 974 منظوم حمدیں ہیں۔ گرو گرنتھ صاحب میں بہت سی زبانوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پنجابی، ملتانی یا سرائیکی کے علاوہ فارسی، پراکرت، ہندی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بنیادی فہم کے لیے ہندی پنجابی کے علاوہ فارسی کی جانکاری لازمی ہے۔
آغاز
گرو گرنتھ صاحب کا آغاز بابا گرو نانک کی مشہور حمد جپ جی سے ہوتا ہے۔ اس نظم میں وہ سکھ مت کے واحدانیت کے نظریے کو فلسفیانہ سطح پر بیان کرتے ہیں۔ یہ حصہ کافی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے کیونکہ اس میں بابا گرونانک دوسرے مذہب اور مکاتب فکر سے مباحثے کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ اس کی تفہیم میں دقت اس لیے بھی پیش آتی ہے کیونکہ ان کے مخاطب مکاتب فکر کی بہت سی دلیلیں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں گرو نانک ہندو ازم کے کئی خداؤں کے تصور کی نفی اور خدا کی وحدت کے نظریے کو کئی پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں:
تھا پیا نہ ہوئے ہوئیا نہ ہوئے آپے آپ نرجن سوئے
(نہ ہی اسے مٹی سے گڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی (انسانی) فعل سے ہوتا ہے۔ وہ بے عیب ہے اور اپنی ذات میں سمویا ہوا ہے)
رسم الخط
یوں تو گرو گرنتھ صاحب گورمکھی رسم الخط میں لکھا گیا ہے اور اس کے مذہب کے ماننے والے اس رسم الخط میں پڑھتے ہیں لیکن تقسیم پنجاب سے پہلے اس کے بہت سے حصوں (مثلاّ جپ جی کا) کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ پرانے فارسی رسم الخط میں بھی پورا گرو گرنتھ صاحب لدھیانہ سے شائع کیا گیا تھا جو کچھ سال پہلے تک دستیاب تھا۔(چند سال پیشتر مکمل کلام نانک مع معنی اور تفسیر لاہور سے شائع ہوا اور دستیاب ہے۔)